’’لولاک ‘‘ ایک غیر مسلم شاعر کا نعتیہ نذرانہ : پروفیسر اسلم جمشید پوری

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

’لولاک‘ چندربھان خیال کی طویل نظم ہے۔ یہ نظم انہوں نے حضرت محمد ؐکی سیرت کے بیان میں قلم بند کی ہے۔یہ نظم کتابی شکل میں پہلی بار2002 میں فرید بک ڈپو،دہلی سے شائع ہوئی۔آہستہ آہستہ اس نظم نے مقبولیت کے آسمان سر کر نے شروع کر دیے۔اردو میں اس کا دوسرا ایڈیشن نعت ریسرچ سینٹر،انڈیا،سنت کبیر نگر سے2020 میں منظر عام پر آیا۔اب تک اس نظم کے کئی زبان میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ہندی،گجراتی ترجموں کی اشاعت کے علاوہ کنّڑ اور مراٹھی زبان میں ترجمے عنقریب شائع ہو نے والے ہیں۔لیکن اس نظم کو اصل مقبولیت عربی، فارسی اور انگریزی تراجم سے ملے گی۔اس طرف بھی بعض مترجموں کی کوششیں جاری ہیں۔اس نظم کی بڑھتی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2012میں ’’ لمحے لمحے‘‘ نامی رسالے (مدیر:حسیب سوز،مرحوم)نے ایک خاص نمبر ’’لولاک،نمبر‘‘ شائع کیا تھا۔جس میں اعلیٰ پائے کے ناقدین شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ، قمر رئیس، صادق، سید حامد، اخترالواسع، نظام صدیقی اور شعرا حضرات مخمور سعیدی، کوثرصدیقی کے علاوہ بہت سے معروف حضرات کے مضامین شامل تھے۔کسی نظم پر نمبر کا نکلنا واقعی حیرت کی بات ہے۔

چندر بھان خیال اردو کے معروف شاعر ہیں۔آپ اردو شاعری کو اب تک کئی مجموعے دے چکے ہیں۔شاعری میں آپ نے معروف شاعر اور فارسی داں پنڈت رام کرشن مضطر کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کیے۔ شعلوں کا شجر(نظموں کا مجموعہ)، گمشدہ آدمی کا انتظار(نظموں کا مجموعہ)، لولاک( سیرت رسولؐ پر طویل نظم )،صبح مشرق کی اذاں(مجموعہ کلام)،احساس کی آنچ (مجموعہ کلام)،تازہ ہوا کی تا بشیں( مجموعہ کلام)،ہندی میںمجموعہ’’ سلگتی سوچ کے سائے‘‘اور انگریزی میں ترجمہ شدہ نظموں کا مجموعہ ’’Under the Sun ‘‘شائع ہو چکے ہیں۔مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ چندربھان خیال نظم کے ماہر شاعر ہیں۔ لولاک نظم سے قبل بھی ا ٓپ بہت سی نظمیں تحریر کرچکے ہیں۔ مگر ’’لولاک ‘‘ نے ان کو غیر معمولی شہرت عطا کی ہے۔

ایسابھی نہیں ہے کہ اردومیں اس سے قبل حضرت محمدؐ پر طویل نظم نہ لکھی گئی ہو۔اس سے قبل الطاف حسین حالی کی نظم ’’ مدوجزرِ اسلام‘‘، حفیظ جالندھری کی نظم ’’ شاہنامہ اسلام‘‘، عمیق حنفی کی نظم ’’صلصلۃ الجرس‘‘، عبدالمنان طرزی کی کتاب’’ سیرت رسولؐ‘‘وغیرہ اس سے قبل وجود میں آچکی ہیں۔ بہت سی مختصر نظمیں حضور ؐکی شان میں ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں نعتیں ملتی ہیں۔تقریباً ہر شاعر نے ایک نعت ضرور کہی ہے۔لیکن ان سب کے باوجود چندر بھان خیال ایسے پہلے غیر مسلم شاعر ہیں،جنہوں نے حضورؐ کی شان میں ایک طویل نظم بعنوان ’’ لو لاک ‘‘ تحریر کی۔100 صفحات میں پھیلی اس نظم میں تقریباً780 اشعار اور190 چار مصرعوں کے بند شامل ہیں۔اس طویل نظم کو چھ ابواب میں منقسم کیا گیا ہے۔ اول ’ولادت سے پہلے‘،دوم ’ولادت‘،سوم’ نبوت‘ چہارم ’ہجرت‘،پنجم ’جہاد‘ اورششم ’نصرت ‘ہے۔اس نظم کے تعلق سے معروف ناقد شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’’ چندربھان خیال کی طویل نظم ’’ لولاک‘‘پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔نظم کیا ہے ؟انسان کی عظمت کا صحیفہ اور عشقِ رسولؐ سے لبریز شاعر کے درد مند دل کا آئینہ ہے۔یہ نظم سیرت کی کتاب بھی ہے،تاریخ انسانی کا ایک زرّیں ورق بھی ہے۔شاعر کی قادر الکلامی ہر صفحے سے عیاں ہے۔بعض مشکل جگہوں کو چندر بھان خیال نے اس خوبی سے عبور کیا ہے کہ باید و شایدلیکن فنی طور پر اس کتاب کا سب سے محیرالعقل پہلو اس کی ترتیب ِ قوافی ہے۔‘‘

[ فلیپ کور،لولاک،چندر بھان خیال،نعت ریسرچ سینٹر، انڈیا،2020]
اس نظم میں چندر بھان خیال نے واقعی کمال کر دکھایا ہے۔دراصل طویل نظم کو سنبھالنا آسان نہیں تھا۔یہاں شاعر کی قادر الکلامی اور فنّی دسترس کا امتحان ہوتا ہے۔چندر بھان خیال کی اس نظم کی تخلیق کے پیچھے حضورؐ کے تئیں ان کی عقیدت اور محبت کے علاوہ شاعری کے فن کی باریکیوں سے واقفیت ہے۔ یہ نظم چار مصرعوں کے بند کی شکل میں ہے۔چار مصرعوں والے بند قطعہ یا رباعی ہوتے ہیں۔لیکن یہاں چندر بھان خیال نے ایک تجربہ کیا کہ ہر بند کے آخری مصرعے میں مستعمل ردیف اور قوافی کا استعمال اگلے بند کے دو مصرعوں میں کیا ہے۔پوری نظم کو پڑھتے ہوئے ایک طرح کی غنائیت اور موسیقی کا احساس ہوتا ہے۔اوپر سے نعتیہ موضوع،دل دماغ معطر ہو جاتے ہیں،روح میں طہارت اور پاکیزگی سرایت کر جاتی ہے۔کبھی کبھی چوتھے مصرعے کی تکرار ہوتی ہے۔جو الگ مزہ دیتی ہے۔اس نظم میں آپ کو رباعی کی فنکاری بھی ملے گی اور قطعات کا لطف بھی۔ ’لولاک‘ نظمِ مسلسل کا بھی مزہ دیتی ہے۔دو بند ’’نبوت‘‘سے دیکھیں۔

یہ غارِ حرا بھی شاہد ہے انساں کی نئی اونچائی کا
تحقیق کے تیشوںکی گر می، افکار کی بزم آرائی کا
سینتیس برس کی عمر ہوئی جب تک نیک صفات محمدؐ کی
اس غار میں جا کر بیٹھ گئے اور فکر ِ جہاں فرمانے لگے
او ر دیکھ کے آپ ؐکی محویت خلوت کو پسینے آنے لگے
اس گوشۂ تنہائی کی طرف عرفان کے جلوے جانے لگے
پتھر کے بتوں کو پوجتے ہیں کیوںلوگ جواب آخر کیا ہو
ان خام عقائد کے آگے حق بات نمایا ں کیسے ہو

پوری نظم میںایک تسلسل ملتا ہے۔شاعر نے نظم کو چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ان ابواب اور پوری نظم میں کولاژ تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔نظم کا ہر باب اپنے آپ میں مکمل ہے اور دوسرے باب سے منسلک بھی۔پوری نظم کو جوڑنے میں اس نظم کا موضوع اہمیت کا حامل ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ اردو میں لکھی گئی ایسی نظم ہے جو کولاژ، تکنیک میں لکھی گئی ہے۔جس میں حضور کی زندگی،ان کا اخلاق و کردار، عمل اور رد عمل،قول اور فعل،دشمنوں کے ساتھ آپ کا برتائو،حق کی وحدانیت کا کامل یقین پر روشنی ڈالی گئی ہے،جو نظم کے مختلف ابواب کے درمیان ربط کا کام بھی کرتے ہیں۔

نظم کے موضوع کا جہاں تک سوال ہے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس کا موضوع سیرت ِ نبیؐ ہے۔جس کے ابواب کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلا باب ’’ ولادت سے پہلے‘‘ہے۔اس باب میں حضورؐ سے پہلے عرب کے حالات کا ذکر کیاگیا ہے۔بتوں کی پوجا،لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا چلن،زنا،بد کاری غرض ہر برائی اپنے عروج پر تھی۔ایسے حالات میں حضور کی آمد۔جس کا تفصیلی ذکر اگلے باب ’’ ولادت‘‘ میں کیا گیا ہے۔اس باب میں حضور کی ولادت کے ساتھ روشنی کی فتح اور ظلمات کی شکست کا بیان اور بے انتہا خوشی کا ذکر کیا گیا ہے۔
تیسرے باب ’’نبوت ‘‘ میں غار حرا میں آپ کی عبادت،ریاضت،دنیا جہان کے وجود پر غور و فکر،حضرت جبرائیلؑ کا آنا،قرآن پاک کے نزول کی ابتدا،اسلام کی بشارت اور کفر و اسلام،حق و باطل،علم و جہل کی جنگ اور آہستہ آہستہ اسلام کی اشاعت کا ذکر ہے۔چوتھے باب ’’ہجرت ‘‘ میں مکہ میں مسلمانوں پر تنگ ہوتی زندگی، کافروں کے بے جا ظلم و ستم،حضورؐ کا ہجرت کرکے مدینہ جانے کا فیصلہ،ہجرت کا واقعہ وغیرہ کا تفصیلی بیان موجود ہے۔

چوتھے باب ’’جہاد‘‘ میں شاعر نے حضرت محمدؐ کی اسلام کی اشاعت میں در پیش آنے والے جہاد اور جنگوں کا بیان کیا ہے۔اس باب میں مختلف جنگوں جیسے جنگ بدر،جنگ احد اور دین کے لیے جہاد کرنے کا ذکر ہے۔چھٹے باب ’’نصرت‘‘ میںمدینے کے باشندے نصارا قوم کے ذریعہ اسلام کی اشارت وتبلیغ میں کردار کو پیش کیا گیا ہے۔اصل میں مدینے نے اسلام کے فروغ میں غیر معمولی کر دار ادا کیا ہے۔شاعر نے فنی مہارت کے ساتھ اس کا اظہار کیا ہے۔

پوری نظم میں حضور کی حیات ِ مبارکہ،جس نے دنیا میں انقلاب برپاکر دیا،کا بیان ہوا ہے۔حضرت محمدؐ جنہوں نے دنیا کو جہالت کے اندھیرے سے باہر نکالنے کا کام کیا اور قرآن پاک کے احکامات پر عمل کرکے دکھایا۔ دنیا کو زندگی گزارنے کا ایک نظام دیا۔حق و باطل، سچ اور جھوٹ، عمل اور ردعمل، جنت و جہنم، عذاب و ثواب کے امتیاز سے پردہ اٹھایا۔ اللہ پورے جہان کا رب ہے،پالنہار،موت و حیات کا مالک ہے۔وہ ایک ہے اور بے نیاز ہے۔ شاعر نے اپنے مطا لعے کو فن کے سانچے میں اس طور ڈھالا ہے کہ یہ نظم اردو قارئین کے لیے خاص بن گئی ہے۔اس کی خوشبو پورے عالم میں پھیل رہی ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS