اسرائیل کے خلاف ایرانی ردعمل اور عرب دنیا کا دیوالیہ پن: ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

اسرائیل کی حیثیت مشرق وسطیٰ میں اس مصنوعی انسانی پتلے جیسی ہوگئی ہے جس کو کسان اپنے کھیتوں میں لگا دیتے ہیں تاکہ اس کو دیکھ کر پرندے فصل سے دور رہیں اور نقصان سے اس کو بچائے رکھیں، لیکن جس دن کوئی جرأت مند اور آزاد منش پرندہ اس پتلے تک پہنچنے کی ہمت جٹا لیتا ہے اور اس کے کھوکھلے پن کے راز سے پردہ اٹھا دیتا ہے اس دن کے بعد سے نہ تو فصل محفوظ رہتی ہے اور نہ ہی کسان کی تدبیریں کام آتی ہیں اور آخرکار رزق میں جس پرندہ کا جو حصہ مالک کائنات نے متعین کیا ہے وہ اس کو حاصل کر ہی لیتا ہے۔ اسرائیل پر ’طوفان الاقصیٰ‘ مشن کو جب سے فلسطین کے جاں بکف مجاہدوں نے کامیابی کے ساتھ مکمل کیا ہے تب سے اس کی فریب کن قوت کے اس غبارہ کی ہوا نکل گئی ہے جس کے ڈر سے اس خطہ کے تمام عرب ممالک سہمے سہمے نظر آتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 7 اکتوبر کا دن تاریخ میں ہمیشہ جلی اور روشن حروف میں لکھا جاتا رہے گا اور اس پر بے شمار کتابیں اور تحقیقی مقالے لکھے جائیں گے اور دنیا کی شاید ہی کوئی دفاعی نظام کے لئے مختص تعلیم گاہ ایسی باقی رہے گی جہاں اس کے تمام پہلوؤں پر بحث نہیں ہوگی۔ اسی طرح 13 اپریل کی تاریخ بھی نہایت اہمیت کی حامل سمجھی جائے گی کیونکہ اسی تاریخ کو ایران نے پہلی بار اسرائیل پر 300 سے زائد میزائلوں اور ڈرونز سے حملہ کرکے اس صہیونی ریاست کو واضح پیغام بھیج دیا تھا کہ اس کی جارحیت اور غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکت کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ ایران نے اس حملہ کے ذریعہ اپنے اس حق دفاع کا استعمال کیا تھا جس کی اجازت بین الاقوامی قانون دیتا ہے۔ ایران کا یہ جوابی حملہ اس پس منظر میں آیا تھا کہ اسرائیل نے دمشق میں واقع ایرانی قونصلیٹ کو نشانہ بناکر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی تھی جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتا آیا ہے۔

ایرانی قونصلیٹ پر ہوئے اس اسرائیلی حملہ میں 7 ایرانی افسران اور سفراء جاں بحق ہوگئے تھے جن میں محمد رضا زاہدی جیسے ایرانی انقلابی گارڈ کے اعلیٰ اہلکار بھی شامل تھے۔ ایران نے اسرائیل پر کئے گئے اس جوابی حملہ کا نام ’آپریشن وعدہ صادق‘ رکھا تھا۔ غالبا اس میں اس وعدہ کی جانب اشارہ ہو جس کا ذکر امام علی خامنہ ای نے اپنے عید الفطر کے خطبہ میں کیا تھا۔ انہوں نے اپنا خطبہ اس بار کسی عصاء پر ہاتھ رکھ کر دینے کے بجائے ایک بندوق کو ہاتھ میں پکڑ کر دیا تھا جس سے صاف اشارہ مل گیا تھا کہ اسرائیلی جرائم کا بدلہ جلد ہی لیا جائے گا، حالانکہ حملہ میں شدت اتنی نہیں تھی جس کی توقع ان علامات کی وجہ سے کی جا رہی تھی، لیکن پھر بھی اس ایرانی حملہ کے بعد لگاتار اس پر بحث جاری ہے کہ کیا یہ حملہ مؤثر تھا یا بس اس کی حیثیت محض نورہ کشتی کی تھی؟ اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ ماضی قریب میں شاید ہی کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا ہو جس کے بارے میں اتنی متضاد باتیں سامنے آئی ہوں تو غلط نہیں ہوگا۔ سوشل میڈیا کے عہد میں اس تضاد کا دائرہ مزید وسیع ہوگیا ہے اور اس بحث میں تجزیہ نگار، تحقیق کاروں، سیاسی و عسکری ماہرین سے لے کر عام فالوورز تک سبھی شامل ہوگئے ہیں۔

البتہ اس پورے معاملہ میں عرب دنیا کے ممتاز تجزیہ نگاروں اور افکار و آراء سے متعلق اپنی تحریریں اخبارات و رسائل میں شائع کرنے والوں نے جو کچھ کہا ہے اس کو سمجھنا بڑا دلچسپ رہے گا۔ اسرائیل کے خلاف کئے جانے والے اس ایرانی حملہ پر جو رد عمل ان عرب دماغوں کی جانب سے آیا ہے اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ حالات و واقعات کے بارے میں ان کی سمجھ بہت سطحی اور ناپختہ ہے۔ مذکورہ عرب ردعمل کا پہلا نقص تو یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کا تجزیہ فرقہ وارانہ رنگ کے ساتھ شروع کیا گیا اور بتدریج ناسمجھ نوجوانوں کی صحافت سے پرے باتوں کے درجہ تک پہنچ گیا۔ اس ردعمل میں اس حملہ کے سیاسی یا عسکری نتائج کے بارے میں گہری فہم کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔انہوں نے کبھی اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ ایران جیسے آزاد صاحب سیادت ملک کے اپنے کیا حقوق و اختیارات ہیں جن کے استعمال کا ان کو پورا حق ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کی سطحیت تو اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ انہوں نے ایرانی حملہ کو واہیات اور ڈرامہ ہی قرار دیا ہے اور ان کے بس میں جو کچھ تھا ان سب کا استعمال صرف اس نقطہ کو ثابت کرنے میں لگا دیا ہے۔ گویا کہ اس حملہ کا کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔ اس سے بھی بڑھ کر ان عرب تجزیہ نگاروں اور سوشل میڈیا کے ارباب رسوخ نے اپنی توانائی اس ایرانی حملہ کے سلبی پہلوؤں کو گنانے میں صرف کی ہے۔ بعض لوگوں نے ایرانی ردعمل کو بس اس قدر کریڈٹ دینا گوارہ کیا ہے کہ اس کا اثر محض وقتی ہوگا اور تھوڑی دیر کے لئے غزہ سے توجہ ہٹ جائے گی۔ جہاں تک خود اہل غزہ کا تعلق ہے تو وہ اس ایرانی حملہ سے سب سے زیادہ خوش ہوئے کیونکہ 7 اکتوبر کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ غزہ کی فضاء میں اسرائیلی جنگی طیارے منڈلاتے نظر نہیں آئے۔مزید یہ کہ اہل غزہ کو نفسیاتی سکون ملا کہ علامتی طور پر ہی سہی لیکن وہ محاذ پر اکیلے نہیں ہیں۔ بعض عربیوں کے رد عمل سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ ان کے بقول ایرانی حملہ کا سلبی پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے معا بعد امریکہ و مغرب نے اسرائیل کو پوری قوت کے ساتھ دوبارہ مدد فراہم کرنا شروع کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہر طرح کا امریکی و مغربی تعاون اسرائیل کے لئے تھما کب تھا؟

امریکہ و مغرب نے تو اتنی بھی اخلاقی جرأت نہیں دکھائی کہ غزہ پر جاری مظالم کے بارے میں کم سے کم صہیونی روایت پر پورے طورے پر بھروسہ نہ کرتے اور مظلومین کی باتوں کو بھی قابل اعتناء سمجھ کر ان کے درد و کرب میں مزید اضافہ کا سبب نہ بنتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ صہیونیوں کی ہر بات امریکہ نے مان لی جبکہ اہل غزہ کی ہر بات کو پوری بداخلاقی سے ناقابل اعتبار گردان دیا۔ ایرانی حملہ کے بعد بہت سے عرب صہیونی بھی اسی نہج پر چلتے نظر آئے اور انہوں نے صہیونی روایت کو خوشی خوشی قبول کرلیا۔ یہ عرب صہیونی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے فکری دیوالیہ پن اور سستی کی وجہ سے حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی کیونکہ ان عرب صہیونیوں کا تعلق اس خیمہ سے ہے جو اس نظریہ کے حامی ہیں کہ مسئلہ فلسطین سے برائے نام کا بھی واسطہ نہ رکھا جائے اور اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کا رشتہ جوڑ لیا جائے۔

یہ عرب صہیونی اس قدر بے ضمیر اور امت کے دائرہ سے باہر جا چکے ہیں کہ وہ اسرائیل کا دفاع خود صہیونیوں سے بڑھ کر کرتے ہیں اور اگر کبھی اس صہیونی ریاست کے خلاف کوئی طاقت اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور امت کے دل و ضمیر کو جگانے کی کوشش کرتی ہے تو عرب صہیونی سب سے پہلے شور مچاکر اور ان کی تنقیص کرکے ان کو بے حیثیت بنانے کی کوشش سب سے پہلے کرتے ہیں۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ان عرب صہیونیوں کے اندر سب سے زیادہ نفرت یا تو تحریک مزاحمت حماس کے خلاف پائی جاتی ہے یا پھر ایران کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں باوجوداس کے کہ ایران نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین کی حمایت کی ہے اور آج بھی وہی جماعتیں مسئلہ فلسطین کی حمایت میں پیش پیش ہیں جن کو ایران نے مزاحمت کی قوت کے طور پر اس خطہ میں تیار کیا ہے تاکہ مغربی استعمار کے پروجیکٹ کو مشرق وسطیٰ میں مزید پھیلنے سے روکا جائے۔ اس کے برعکس عرب ممالک نے زبانی بیانات اور مذمت کے کھوکھلے الفاظ سے سے زیادہ کچھ بھی پیش نہیں کیا ہے۔ یہ عرب صہیونی کہتے ہیں کہ اسرائیل پر اس حملہ کا کوئی اثر نہیں تھا حالانکہ ایران کے حملہ کا اتنا خوف تھا کہ اسرائیل کی حمایت میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی یہاں تک کہ بعض عرب ممالک بھی اتر آئے، جن میں اردن اور سعودی عرب کا نام تو بین الاقوامی میڈیا میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اگر یہ حملہ اتنا بے اثر تھا تو امریکہ نے چین سے لے کر سعودی عرب اور انقرہ تک ہر ایک سے گزارش کیوں کی کہ ایران کو روکا جائے؟ ان عرب صہیونیوں کو جاکر اسرائیل کے یہودیوں اور صہیونیوں سے پوچھنا چاہئے کہ ایرانی حملہ کے وقت ان کے من میں کونسا سوال گردش کر رہا تھا۔ کیا صہیونیوں کے دل ایک لمحہ کے لئے یہ سوچ کر خوف سے کپکپا نہیں گئے ہوں گے کہ اگر امریکہ و مغرب کی حمایت نہ ملی ہوتی تو ان کا کیا حشر ہوتا؟ اسی طرح اگر ایران کا یہ حملہ اتنا بے وقعت تھا جس کا دعوی یہ عرب تجزیہ نگار کر رہے ہیں تو پھر ایران کے سفراء کو الگ الگ مغربی ملکوں نے بلا کر حملہ کے خلاف اپنا احتجاج کیوں درج کروایا؟

بے وقعت معاملہ پر اتنا ہنگامہ تو کبھی نہیں کیا جاتا۔ اگر ایران کا حملہ غیر موثر ہوتا تو اسرائیل اس کو روکنے کے لئے تقریبا ڈیڑھ ارب ڈالر کا نقصان کیوں اٹھاتا؟ امریکہ و برطانیہ وغیرہ کے جو اخراجات ہیں وہ اس پر مستزاد ہیں۔ اس کے برعکس ایران کو محض ساڑھے تین کروڑ ڈالر اس آپریشن کے لئے خرچ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ جہاں تک ایرانی حملہ کے بارے میں مغرب کے دوہرے معیار کا تعلق ہے تو اس کو سمجھنے کے لئے برطانوی وزیر خارجہ ڈیویڈ کیمرون کا وہ انٹرویو دیکھنا چاہئے جو اس نے اسکائی نیوز کو اس حملہ کے بعد دیا ہے۔ اس انٹرویو میں اینکر نے جب پوچھ لیا کہ اگر برطانیہ کے سفارت خانہ کو کسی نے حملہ کرکے زمیں بوس کر دیا ہوتا تو برطانیہ کا جواب کیا ہوتا؟ کیمرون نے فورا کہا کہ ایسی حالت میں برطانیہ کا جواب بہت سخت ہوتا۔ اینکر نے کہا کہ یہی جواب تو ایران نے دیا ہے تو کیمرون کو سمجھ میں نہیں آیا کہ اس سوال کا جواب کیسے دیا جائے۔

دراصل کیمرون یہ بتانا چاہتے تھے کہ ایسی حالت میں برطانیہ کے لئے پیمانہ مختلف ہوگا اور ایران کے لئے بالکل مختلف۔ اسی دوہرے معیار کے تحت چند اسرائیلی یہودیوں کی خاطر پورے غزہ اور وہاں کے انسانوں کو تباہ کر دیا گیا، لیکن مغرب کے غیر انسانی اور غیر اخلاقی پیمانہ کی وجہ سے اسرائیل کے ظلم کو مسلسل روکا نہیں گیا اور اب غزہ کے ساتھ ساتھ صہیونی قتل کی مشین رفح تک میں تباہی اور قتل و خون کا بازار گرم کر رہی ہے، لیکن کوئی قانون اس پر نافذ نہیں ہو رہا ہے۔ اس پورے واقعہ میں رونا صرف اس بات کا ہے کہ عرب معاشرہ اپنا کردار نبھانے میں بری طرح ناکام رہا ہے اور اس کی تلافی کے بجائے ظالموں کا حامی بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ تاریخ کے اوراق میں انہیں جو جگہ ملے گی وہ کسی بھی طرح ان کے لئے باعث عزت نہیں ہوگی بلکہ عار و شنار کا داغ ہی ان کے حصہ میں آئے گا۔ اس لئے ان کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ ایران کی اہمیت گھٹانے کے بجائے اپنا وقار اور اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرنے پر توجہ دیں تاکہ مزید رسوائی کا سامنا انہیں نہ اٹھانا پڑے۔
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS