شاہد زبیری
مدرسہ شکشا پریشد سے الحاق شدہ مدارس کو خاص طور پر امداد یافتہ مدارس کو سپریم کورٹ سے تھوڑی راحت مل گئی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کے نفاذ پر روک لگا دی ہے اور آئندہ ماہ جولائی میں سماعت کرنے کاحکم دیا ہے جس سے الحاق شدہ مدارس کے17ہزار کے قریب طلبا اور 10 ہزار اساتذہ نے راحت کی سانس لی ہے ۔طلبا کو سرکار ی پرائمری اور جونیئر ہائی اسکولوں میں متبادل انتظام کرنے کیلئے ادھر سے ادھر کئے جا نے میںسرکار نے ہائی کورٹ کے فیصلہ پر بڑی پھرتی اور عجلت دکھائی اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس مسئلہ پر 5اپریل کو سپریم کورٹ سماعت کرنے والا ہے ،4اپریل کو ایک جی او مدارس کو جا ری کردیا اور اس کے لئے ہائی کورٹ کے فیصلہ کی آڑ لی، لیکن سپر یم کورٹ کی طرف سے لگائی گئی روک ( اسٹے) سے جہاں الحاق شدہ مدارس کو کورٹ کے حتمی فیصلہ تک راحت ملی ہے ، سرکار کی بھی کرکری ہوئی ہے ۔اس معاملہ میں سرکار کی بد نیتی اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے سرکار کے 2004کے ایکٹ کا دفاع کرنے کے بجا ئے ہائی کورٹ کے فیصلہ کی حمایت کی اور سرکار کے سالسٹری جنرل نے مدرسہ ایجو کیشن ایکٹ کو سیکو لرسسٹم یا یوں کہیں کہ سیکولر فیبرک یا تانے بانے کو نقصا ن پہنچانے والا ثابت کرنے کیلئے دلائل پیش کئے، لیکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چندر چوڑ والی سہ رکنی بنچ کے آگے ایک نہیں چلی۔سالسٹری جنرل کے دلائل سے بلّی تھیلے سے باہر آگئی اور موجودہ بی جے پی سرکار کی مدارس کے تئیں بد نیتی اور تعصب بھی طشت از بام ہو گیا۔ 25مارچ کے اسی کالم میں ’مدرسہ شکشا پریشد کے مدارس پر تالہ‘کے تحت لکھا جا چکا ہے کہ سنسکرت کی پاٹھ شالائوں کو بھی سرکار مالی امداد دیتی ہے جہاں ایک خاص سنسکرتی ( تہذیب و ثقافت ) کو فروغ دیا جا تا ہے جہاں ملک کی اکثریت کے بچے پڑھتے ہیں سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران اس بھی آگے کی بات کہی اور گروکل کی پاٹھ شالائوں کو بھی اس میں شامل کرتے ہوئے کہا کہ اگر گروکل کی پاٹھ شالائوں سے ہمارے سیکولر فیبرک( SECULAR FABRIC)کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو ان مدارس سے کیسے پہنچتا ہے؟۔ گزشتہ اسی کالم میں عربی فارسی بورڈ الٰہ آباد کے تاریخی پس منظر اور نصابِ تعلیم پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور جب 2004میں عربی فارسی بورڈ ختم کرکے 2004ایکٹ پاس کرکے یوپی سرکار نے مدرسہ شکشاپریشد کی تشکیل کی تھی اور2007میںجب اسکا نفاذ کیا گیا تھا اس وقت بھی اس کے مضمرات کو اجا گر کیا گیاتھا ، ہائی کورٹ کا فیصلہ ان مضمرات کا مظہر ہے ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ تو 22مارچ 2024کو آیا ہے۔ اس سے پہلے یوپی سرکار نے اکتوبر 2023 میں مدارس کی جانچ کیلئے ایس آئی ٹی تشکیل دی تھی اسی وقت سرکار کی منشاء ظاہر ہو گئی تھی کہ سرکار مدارس پر تالہ ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہے ،ہائی کورٹ کے فیصلہ سے اس کی مراد برآئی ہر چند کہ ہائی کورٹ میںاس کیس میں سرکار براہِ راست فریق نہیں تھی بلکہ ایک گمنام شخص انشو مان سنگھ راٹھور نے عرضی دی تھی یا اس شخص سے دلوائی گئی تھی۔
سپریم کورٹ میںہائی کورٹ کے فیصلہ کا دفاع بھی خود سرکار کو کرنا چاہئے تھا، لیکن سرکار کی طرف سے ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں صرف کیوٹ ڈالا گیا، چنا نچہ سرکار کے اٹارنی جنرل نے اس کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ کا فیصلہ اسٹے نہ کرے لیکن کامیابی نہیں ملی ۔ یہ بات مدارس کے بارے میں سرکار کی منشاء پر بھی سوال کھڑے کرتی ہے ۔گو کہ سپریم کورٹ نے ابھی ہائی کورٹ کے فیصلہ کو اسٹے کیا ہے جس کے بعد نہ تو مدارس کے طلبا ادھر سے ادھر کئے جائیں گے اور نہ اساتذہ سے منہ کا نوالہ چھینا جائے گا۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ میں طلبا کے مستقبل کی تو بات کہی گئی ہے اور اس کا حل بھی بتا یا گیا ہے، لیکن اساتذہ کی بابت کوئی گائڈ لائن نہیں دی گئی ہے جو تنخواہ پر ایک ضابطہ کے تحت رکھے گئے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے اور نہ ان اساتذہ کی بابت کچھ کہا گیا جن کو ماڈرن ایجوکیشن کے تحت اعزازیہ ملتا تھا اعزازیہ پانے والے اسا تذہ کی کل تعداد 21,216بتا ئی جا تی ہے ان کو بھی اعزازیہ کبھی ملتا رہا اور کبھی نہیں، تاہم تنخواہیں پابندی سے دی جاتی رہی ہیں، ہائی کورٹ کے فیصلہ سے ان اساتذہ کے روز گار پر سیدھا اثر پڑتا ہے ۔ اساتذہ کی تنخواہوں پر لاکھوں لوگوں کا انحصار ہے اور انکے گھروں کے چولھے جلتے ہیں ابھی ہائی کورٹ کا فیصلہ صرف اسٹے ہوا ہے لیکن تلوار لٹکی ہوئی ہے اور خطرہ ٹلا نہیں ہے جب تک سپریم کورٹ سے کوئی حتمی فیصلہ ایسا نہیں آجا تا جو ہائی کورٹ کے فیصلہ کے نفاذ پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بندش لگا دے۔حکومت کا کہنا ہے کہ ایجوکیشن ایکٹ کے تحت چل رہے ”مدرسہ بورڈ کے مدارس کے اسا تذہ کی تنخواہوں کا سرکار کے خزانہ پر ،1,96کروڑ روپے کا بوجھ پڑتا ہے اور اس ایشو کومذہب کا جامہ پہنا نااپنے آپ میں شک پیدا کرتا ہے’ ‘۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو بادی النظر میں 2004کے ایکٹ کی غلط تشریح قرار دیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اپنی سماعت کے دوران یہ سوال بھی اٹھا یا ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ طلبا اور والدین کو ان کی مرضی کے مطابق تعلیم پانے کے آئینی حق سے بھی روکتا ہے ۔ اسی کے پیشِ نظر سپریم کورٹ نے کہا کہ اس کے خیال میں ہائی کورٹ کی جانب سے دی جا نے والی اس ہدایت کی کوئی ضرورت نہیں کہ الحاق شدہ مدارس کے طلبا کی تعلیم کا متبادل انتظام کیا جا ئے ۔ابھی معاملہ چونکہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے اس لئے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا یہ معاملہ آئندہ کیا رخ اختیار کرے، لیکن ہائی کورٹ کے فیصلہ سے جو فائدہ بی جے پی یا یو پی سرکار لوک سبھا کے انتخابات میں اٹھا نا چاہتی تھی اس پرسپریم کورٹ نے قانون کا ہتھوڑا مارا ہے۔سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل کے سرکار کی طرف سے سرکاری خزانہ پر مالی بوجھ پڑنے اور مذہب کو بنیاد بنا نے کے ایشو سے بھی کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں یہ کہ موجودہ سرکار کی طرف سے کانوڑ یاترا جو خالص مذہبی ہے اس کے انتظام و انصرام پر ہو نے والا خرچ اور دیوی دیوتائوں کے نام پر تعمیر ہونے والی ماں شاکمبر دیوی یو نیورسٹی سہارنپور جیسی یونیورسٹیوںکا خرچ یا سنسکرت کی پاٹھا شالائوں کو دی جا جا نے والی امداد آخر کہاں سے دی جا تی ہے۔کنبھ اور مہا کنبھ پر ہونے والا کروڑوں کا خرچ کہاں سے ہوتا ہے اگر سرکاری خزانہ سے نہیں ہوتا ہے تو کہاں سے ہوتا ہے؟۔پہلے یہ خرچ یوپی سرکاربرداشت کرتی تھی اور اب اترا کھنڈ سرکار برداشت کرتی ہے۔ کیا مسلمان ٹیکس نہیںدیتے، خزانہ نہیں بھرتے ؟ تو مدارس کو سرکاری امداد دینے سے ہی سیکولزم کی روح کیوں مجروح ہوتی ہے یا سیکو لر فیبرک کو نقصان پہنچتا ہے ، سرکاری عمارتوں کی تعمیر کے وقت ایک خاص مذہب کی رسوم بھومی پوجن کے نام سے کی جا تی ہیں ، پولس چوکیوں اور تھانوں میں مندروں کی تعمیر ،کیا سیکولر فیبرک کویہ سب راس آتا ہے ؟ کیا اس سے ہمارا سیکو لر تانا با نا چھن بن نہیں ہوتا؟ بی جے پی تو سیکولرزم کو سوڈو سیکولرزم بتاتی ہے۔
آزادی کے بعد سے ہر سطح پرمسلم اقلیت کیساتھ امتیاز برتا جا رہا ہے ،یہ احساس مسلمانوں کے ہر طبقہ میں پایا جا تا ہے اور یہ بیجا نہیں ہے، حالات اس کے گواہ ہیں۔ ماضی کی سرکارو ںپر مسلمانو ں کے’ تشٹی کرن ‘ یامنہ بھرائی کے الزام کی حقیقت سچر کمیشن کی رپورٹ سے جگ ظاہر ہے ۔سچ یہ ہے کہ مسلم اقلیت کا تشٹی کرن اگر ہوتا تو مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بد تر نہ ہوتی جیسا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کہتی ہے ۔ہاں! بی جے پی سرکار ہندو اکثریت کا تشٹی کرن کر نے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہی ہے۔ بات بات پر مسلم اقلیّت کی چوڑی کسنا اور 80-20کا کھیل اس کا ثبوت ہے ۔ بہر کیف !سپریم کورٹ کا ہائی کورٹ پر اسٹے آڈر جہاں الحاق شدہ مالی امداد یافتہ مدارس کو راحت دینے والا ہے ، مدارس کیلئے بھی امّید کی ایک کرن ہے ۔اسکا سہرہ مدرسہ عزیزیہ اعجاز العلوم کے منیجر انجم قادری کے سر جاتا ہے۔ جو سپریم کورٹ تک گئے اور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کیا۔ اس کیلئے سپریم کورٹ کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ اے ایم سنگھوی ،سلمان خورشید ،حذیفہ احمدی، مکل روہتگی،بی ایس پٹوالیا اور مینکا گو سوامی جیسے وکلاء کی ٹیم بھی مبارکباد کی مستحق ہے۔
[email protected]