کھانے کی بربادی توجہ سنجیدگی سے دینے کی ضرورت

0

انل چمڑیا 40 سال کا صحافتی تجربہ رکھتے ہیں۔ ایک سے زیادہ زبانوں میں لکھتے ہیں۔ دیگر زبانوں کی طرح اردو میں بھی مقبول ہیں۔ وہ کسی ایشو پر بولتے وقت یہ نہیں بھولتے کہ بات انہیں بے باکی سے، بلا امتیاز کہنی ہے۔ انسانوں کے لیے جو صحیح بات ہو وہی کہنی ہے۔ اسی لیے ان کے پبلی کیشن سے ان ایشوز پر بھی کتابیں شائع کی جاتیں ہیں جن پر عام طور پر کتابیں نظر نہیں آتیں۔ ہندی میں ’جن میڈیا‘ اور انگریزی میں ’ماس میڈیا‘ انل چمڑیا کی ادارت میں ہی شائع ہوتے ہیں اور سنجیدہ طبقے کو یہ انتظار رہتا ہے کہ اس بار ’جن میڈیا‘ اور ’ماس میڈیا‘ میں کیا شائع کیا گیا ہے۔ 27 مارچ، 2024 کو اقوام متحدہ کے انوائرمنٹ پروگرام نے کھانے کی بربادی پر جو رپورٹ شائع کی ہے، اس پر انل چمڑیا کی آرا کی اس لیے بھی اہمیت ہے کہ ان کی صحافت کے مرکز میں انسانیت رہی ہے۔ انسانوں کو پرے رکھ کر انل نے صحافت نہیں کی ہے۔ اسی لیے کئی بار ان کے لہجے میں تلخی نظر آتی ہے مگر سچ کی تلخی جھوٹ کی چاشنی سے بہترہوتی ہے۔
کھانے کی بربادی سے متعلق اقوام متحدہ کے انوائرمنٹ پروگرام کی رپورٹ پر انل چمڑیا کا کہنا ہے کہ ’سب سے زیادہ کھانا وہی برباد کرتے ہیں جو زیادہ امیر ہیں۔ یہ امیر ممالک بھی ہو سکتے ہیں اور سماج بھی۔ کھانے کی بربادی پر یو این انوائرمنٹ پروگرام نے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، یہ ہر سال جاری ہونے والے صرف اعداد و شمار نہیں ہیں، ان پر سنجیدگی سے غور کیے جانے کی ضرورت ہے لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ کھانے کی بربادی کا سلسلہ رک نہیں پا رہا ہے ۔ کہیں کھانے کی فراوانی ہے اور کہیں کھانے کی کمی۔ جن لوگوں کے حالات بدتر ہیں، ان کے حالات بہتر نہیں ہو پا رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امیری اور غریبی کا فاصلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ امیروں کی تعداد غریبوں پر انحصار کرتی ہے۔ جتنے زیادہ لوگ غریب ہوں گے، امیر اور امیر ہوگا یعنی امیر بننے کے جو خیالات ہیں، ان میں انسانیت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور جب انسانیت کے لیے ہی کوئی جگہ نہیں ہے تو پھر اس سے وابستہ مذہب، اخلاقیات اور بھائی چارے کی بنیاد پر ہمدردی کی گنجائش کیسے نکل سکتی ہے؟‘
انل چمڑیا کے مطابق، ’استثنیٰ مثالوں کو چھوڑ دیجیے تو امیر انسانی اقدار اور اصولوں کا استعمال صرف اپنے لیے کرتا ہے، خود کو مستحکم سے مستحکم تر بنانے کے لیے کرتا ہے۔ اسی لیے ہم پاتے ہیں کہ ہمارے جو رشتے ہیں، وہ کمزور پڑ رہے ہیں، کیونکہ امیر بننے کے خیالات نے ہمارے رشتوں کے درمیان دراڑیں پیدا کر دی ہیں، یہاں تک کہ ان میں زہر گھول دیا ہے۔ امیر بننے کے خیالات جب تک مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں گے، کھانے کی بربادی ختم نہیں ہوگی ، بھکمری ختم نہیں ہوگی۔ ‘
مشہور تجزیہ کار اور سینئر صحافی انل چمڑیا کا ماننا ہے کہ ’بڑے ممالک، یعنی وہ ممالک جو امیر ہیں، کھانے کی بربادی اور بھکمری پر شائع اعداد و شمار کا استعمال خود کو اور زیادہ امیر بنانے کے لیے کرتے ہیں۔ ان اعداد شمار کے ذریعے غریب ملکوں پر کئی طرح سے دباؤ بناتے ہیں جس کی وجہ سے سماج کا سب سے غریب طبقہ بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اسی لیے کھانے کی بربادی پر یو این انوائرمنٹ پروگرام نے جو اعداد شمار جاری کیے ہیں یا بھکمری پر جو اعداد و شمار جاری کیے جاتے ہیں، وہ صرف رسم کی ادائیگی تک محدود نہ رہیں، صرف بحث و مباحثے تک محدود نہ رہیں، اس کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ کھانے کی بربادی پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور ساتھ ہی دنیا سے بھکمری ختم کرنے پر بھی توجہ دی جائے تاکہ ایک پرامن اور خوشحال دنیا کا خواب پورا ہو سکے۔‘
غریب خود اپنے حالات بہتر سے بہتر کیوں نہیں بنا پاتا ہے تاکہ اسے بھکمری سے نجات ملے؟ اس سوال پر انل چمڑیا کا کہنا ہے کہ ’ جو لوگ غریب ہیں، سماج کی سب سے نچلی سطح پر ہیں، وہ اشیائے خوردنی اور روزمرہ کی چیزوں کے انتظام میں ہی لگے رہتے ہیں۔ ان کی حالت ایسی کر دی گئی ہے کہ کسی اور طرف توجہ ہی نہیں دے پاتے۔ ان کی غریبی ختم کرنے کے طریقے جب انہیں بتائے جاتے ہیں تو وہ ان پر توجہ نہیں دے پاتے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ توجہ دینا نہیں چاہتے لیکن ان کے حالات ہی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا ہی بڑی بات ہوتی ہے۔ یو این انوائرمنٹ پروگرام کی رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کھانے کی بربادی کے منفی اثرات عالمی اقتصادیات پر پڑتے ہیں، موسمیاتی تبدیلی پر پڑتے ہیں۔ ایسی صورت میں ایسا لگتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی تو تمام لوگوں کے لیے مسئلہ ہے، پھر کیا امیر لوگ اس سے اچھوتے رہ جائیں گے؟ لیکن ایسا نہیں ہے۔ انسانوں کی سہولتوں کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے بنی چیزیں کن کے لیے بن رہی ہیں؟ کیا غریبوں کے لیے بن رہی ہیں؟ غریبوں کو جب ٹھیک سے روٹی ہی میسر نہیں ہو پاتی، پھر اپنی سہولتوں کے لیے جدید ٹیکناجی سے بنی مہنگی چیزیں وہ کیا لیں گے۔ یہ چیزیں امیروں کے لیے ہوتی ہیں، اس لیے حالات کی تبدیلیوں کے زیادہ اثرات ان پر نہیں پڑتے۔ گرمی بڑھ جاتی ہے تو انہیں راحت دینے کے لیے اے سی ہے، اسی طرح کی دوسری چیزیں ہیں۔ پھر بھی راحت نہ ملے تو وہ موسم گرما ٹھنڈے مقامات میں جاکر گزار سکتے ہیں مگر غریبوں کو ہر طرح کے موسموں کو جھیلنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، چنانچہ حالات کی تبدیلیوں سے اصل فرق غریبوں پر پڑتا ہے۔ اس کے باوجود، استثنیٰ مثالیں چھوڑ دیں، تو امیروں کو چین نہیں۔ امیر چاہتا ہے کہ دنیا کی آبادی اتنی ہو جائے کہ اس کی امیری کو کوئی چنوتی نہ دے سکے۔ اگر دنیا کے تمام ممالک کوکھانے کی بربادی کی فکرہوتی، اسے وہ سنگین ایشو اس لیے مانتے کہ اس کے اثرات موسمیاتی تبدیلی پر پڑتے ہیں تو اس سلسلے میں مؤثر اقدامات کرتے مگرحالات تو یہ ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی پر اب تک جو معاہدے ہوئے ہیں، ان معاہدوں کو جو نافذ نہیں کر رہے ہیں، وہ امیر ممالک ہیں، البتہ یہ امیر ممالک غریب ملکوں پر ضرور دباؤ بناتے ہیں۔ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ یہ بات ناقابل فہم نہیں۔‘
’جن میڈیا‘ اور ’ماس میڈیا‘ کے ایڈیٹر ، انل چمڑیا کا کہنا ہے کہ ’پوری دنیا کی سیاست اس وقت تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے۔ کئی ملکوں میں جمہوریت کا ختم ہونا اور بھکمری کا بڑھنا یہ دونوں ہی ایشوز ایک دوسرے سے منسلک ہیں، الگ نہیں ہیں۔ اور یہ پوری دنیا کے سامنے بڑی چنوتی بن کے آئے ہیں۔ ایسی صورت میں غریبی اور بھکمری کے ساتھ کھانے کی بربادی واقعی دنیا کے سنگین مسئلے ہیں۔‘n
(نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہارا سے گفتگو پر مبنی)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS