عبدالماجد نظامی
امریکی صدر جو بائیڈن نے جب رمضان کے اس مقدس مہینہ میں منگل کی شب کو مسلمانوں کے لیے دعوت افطار و طعام کا اہتمام کرنا چاہا تو انہوں نے غالباً یہ سوچا ہوگا کہ وہائٹ ہاؤس کی دعوت میں اتنی جاذبیت تو ضرور ہے کہ اس کی طرف مسلمان کشاں کشاں چلے آئیں گے اور وہ بھول جائیں گے کہ بائیڈن کی مکمل حمایت اور امریکی جنگی طیاروں اور بموں سے غزہ کے معصوم بچے اور عورتیں موت کی آغوش میں سلائے جا رہے ہیں اور جو اب تک زندہ بچ گئے ہیں، ان کو بھوک اور پیاس کی شدت سے تڑپا کر ختم کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل نے جو مظالم اہل فلسطین پر گزشتہ 75 برسوں میں ڈھائے ہیں اور جس انسانی سلوک کو قبلۂ اول کے باشندوں کے ساتھ روا رکھا گیا ہے، ان میں سے کوئی ظلم اور کوئی بدسلوکی ایسی نہیں ہے جس کا ذمہ دار مکمل طور پر امریکہ نہ ہو۔ لیکن جن مظالم کا ارتکاب7اکتوبر کے واقعہ کے بعد اسرائیل نے اہل فلسطین کے حق میں کیا ہے، اس کی کوئی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسرائیل نے نہ تو کسی عالمی قانون کا پاس و لحاظ رکھا اور نہ ہی دنیا بھر کے ملکوں میں سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرنے والے انسانیت نوازوں اور عوام کی گہار پر کان دھرنے کو ضروری سمجھا۔ عالمی عدالت برائے عدل کے فیصلے اور سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کو بھی بے معنی و بے حیثیت بنا کر رکھ دیا اور عالمی برادری کو یہ واضح پیغام دیا کہ اسرائیل کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ کیا کہتے ہیں یا کون سا قانون ایسا ہے جس کی پاسداری سے عالمی توازن برقرار رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے اسرائیل کر پا رہا ہے کیونکہ اس کو امریکہ کا تعاون ہر سطح اور ہر محاذ پر بغیر کسی شرط کے حاصل ہے اور یہی وہ بے روک ٹوک امریکی حمایت ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کی ڈھٹائی میں کوئی کمی واقع نہیں ہو رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب امریکی ادارہ کی نظر میں انسانی زندگی سے لے کر حق و ناحق کا دہرا معیار پایا جاتا ہے اور جس کے تحت وہ انسانی زندگیاں زیادہ قیمتی ہیں جو سفید رنگ و نسل کے لوگوں کی ہوں یا اسی کا حق قابل اعتناء اور لائق اعتبار ہے جو امریکی و مغربی یا اسرائیلی ہو تو پھر اس ڈھونگ کی ضرورت ہی کیا ہے کہ مسلمانوں کو دعوت دی جائے اور اس کا دکھاوا کیا جائے کہ وہ مسلمانوں کے عقیدہ و جذبات کی قدر کرتے ہیں؟ حالانکہ دنیا اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ امریکہ نے کبھی بھی کسی دوسری قوموں کی تہذیب و ثقافت یا ان کی آزادی کو پسند نہیں کیا ہے۔ امریکہ چونکہ ایک استعماری قوت ہے جو دنیا کی کمزور و ناتواں قوموں کے سامنے صرف دو آپشنز چھوڑتی ہے:یا تو وہ امریکی جوتوں کے تلے زندگی گزارنے کو قبول کریں یا پھر مزاحمت کی پاداش میں اپنے وجود سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے لیے تیار رہیں۔ اس کے باوجود بھی دنیا کی غیور قوموں نے ویتنام سے لے کر عراق و افغانستان تک کہیں بھی اپنی آزادی کی خاطر استعماری قوتوں سے مقابلہ کرنے سے گریز نہیں کیا۔ انہیں گرچہ بڑی سے بڑی جانی و مالی قیمتیں ادا کرنی پڑیں لیکن وہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہیں اور ایک زندہ و باغیرت قوم کی طرح اپنے دشمن کو اپنی سر زمین سے مار بھگانے میں کامیاب رہیں۔ آج فلسطین کے مزاحمت کار بھی دنیا کی غیرت مند اور آزادی پسند قوموں کی طرح پوری جوانمردی اور ہمت و حوصلہ کے ساتھ لڑ رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں اپنے عزیزوں اور جگر گوشوں کی قربانیاں پیش کر رہے ہیں لیکن وہ کسی بھی طرح ظلم کے سوداگروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کی یہ پامردی و جسارت اور کٹتے مرتے رہنے کے باوجود آگے بڑھنے کا کبھی نہ ختم ہونے والا حوصلہ تاریخ کے صفحات میں تقدس کے قلم سے لکھا جائے گا اور قیامت تک کمزور قوموں میں اپنے حقوق کی بازیابی اور آزادی کی حصولیابی تک انتھک لڑتے جانے کا جذبہ پیدا کرے گا۔ جہاں تک مسلمانوں کا مسئلہ ہے تو یہ جنگ ان کے لیے کوئی نئی جنگ نہیں ہے اور امریکہ و اسرائیل کا جبر و قہر کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ میں ایسے دشمن ہزار بار آئے ہیں جنہوں نے ہر طرح سے کوشش کی کہ اسلامی چراغ کو گُل کر دیا جائے اور اس تار کو کاٹ دیا جائے جو دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے سے مربوط رکھتا ہے تاکہ ایک کا درد دوسرا محسوس نہ کر سکے۔ لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ اپنے اس مقصد میں اسلام دشمن عناصر زیادہ دیر تک کامیاب نہیں رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم حکمرانوں اور دنیا پرست علماء کا ایک طبقہ ضرور ایسا رہا ہے جس نے امت کے بنیادی مقاصد سے رو گردانی کی ہے اور اپنی کمزور نفسیات کی وجہ سے دشمن کے خیمہ میں پناہ لے کر عافیت محسوس کی ہے لیکن اس امت کا عام مزاج ایسا بالکل نہیں رہا ہے۔ یہ پوری امت آج بھی اس دینی اخوت کے تحت جینا پسند کرتی ہے جس کی بنیاد اس کے نبی کریمؐ نے رب کے حکم سے رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بائیڈن نے وہائٹ ہاؤس میں افطار کی دعوت کے لیے مسلمانوں کو بلاوا بھیجا تو ان کا جواب بالکل واضح تھا۔ انہوں نے بائیڈن کی دعوت کو مسترد کر دیا کیونکہ ان کا ضمیر یہ گوارہ نہیں کرسکا کہ جو ہاتھ معصوم فلسطینی بچوں اور عورتوں کے خون سے لت پت ہیں، ان کے ساتھ بیٹھ کر ایک دسترخوان پر کھانا کھائیں۔ ایک طرف رمضان کے مہینہ میں اہل فلسطین ایک ایک دانہ کے لیے مجبور ہیں اور گھاس پھوس کھانے پر مجبور ہو رہے ہیں اور دوسری طرف بائیڈن یہ گھٹیا ڈھونگ کر رہے ہیں کہ ان کے دل میں رمضان کے تقدس کا احترام ہے اور اسی لیے مسلمانوں کو دعوت دے رہے ہیں۔ اگر ان کے دل میں رمضان کا ادنیٰ درجہ میں بھی تقدس ہوتا تو وہ اس بات کو یقینی بناتے کہ اسرائیل جنگ بندی کے لیے سنجیدگی دکھائے اور بھوک و پیاس سے نڈھال فلسطینیوں تک راحت رسانی کے لیے راستے کھولے جائیں۔ لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ سیکورٹی کونسل نے جب رمضان کے مہینہ میں جنگ بندی کے لیے قرارداد پاس کی تو اس پندرہ رکنی کونسل میں امریکہ واحد ایسا ملک تھا جس نے گرچہ ویٹو کا استعمال اس بار نہیں کیا لیکن اس نے جنگ بندی کی اس قرار داد پر اپنا ووٹ بھی نہیں دیا۔ یہ ہے امریکہ کا وہ اصلی اور کریہہ چہرہ جس میں انسانیت و رحم اور حق پسندی کی ادنیٰ جھلک تک نظر نہیں آتی۔ امریکہ اپنی قساوت قلبی اور حق تلفی میں انتہا کو پہنچ چکا ہے اور اس سے کسی خیر کی امید قطعاً فضول ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ عراق پر جنگ کے نتیجہ میں جو رسوائی امریکہ کو جھیلنی پڑی تھی اور جارج ڈبلیو بش نے اس کی تلافی کے لیے مسلم علماء کو وہائٹ ہاؤس بلا بھیجا تھا اور لوگ وہاں چلے بھی گئے تھے، اس بار کم سے کم اتنا ضرور ہوا ہے کہ امریکہ کی مسلم کمیونٹی نے اپنے دینی شعور اور غیرت کا ثبوت دیا ہے اور بائیڈن کی دعوت میں حاضر نہیں ہوئے۔ جو لوگ گئے بھی تھے تو ان کا مقصد ایک خاص پیغام پہنچا کر واپس لوٹ آنا تھا۔ انہوں نے بائیڈن کے دسترخوان سے ایک قطرہ پانی تک پینا گوارہ نہیں کیا۔ ایسے لوگ قابل قدر ہیں جو اتنی اخلاقی جرأت رکھتے ہیں کہ وہ کہہ سکیں کہ ان کا ضمیر اس قدر ابھی ارزاں نہیں ہوا ہے کہ اس کا سودا کیا جاسکے۔ ایسے اہل ضمیر سلامت رہیں کیونکہ ان کے دم سے ہی دنیا میں حق و انصاف کی امید باقی ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]