خواجہ عبدالمنتقم
کلمۂ استقبالیہ شلوم(بمعنی امن) اور السلام علیکم سے سب کا استقبال کرنے والے اور آخرا لذکر ایک بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل سمجھنے والے، قرآن مجید و توریت جیسی مقدس کتابوں کو ماننے والے، آب زمزم اور آب اردن سے اپنی پیاس بجھانے والے، مشترکہ عبادت گاہ میں اپنے اپنے طریقے سے عبادت کرنے والے اور اشیاء خوردنی میں حرام و حلال میں تمیز کرنے والے ماہ رمضان میں یروشلم کی مقدس سر زمین پر دست و گریباں ہیں۔ایک فریق ا پنے انسانیت سوز پر تشدد فعل کی ایسی شدید ترین غیر متناسب سزا بھگت رہا ہے جس کی مثال کم از کم اس صدی میں تو نہیں ملتی تو دوسرا فریق انتقام کی آگ میں جنونی کیفیت کا شکار ہے اور انتقام کی تمام حدیں پار کرنے کے باوجود اپنے غصہ پر قابو نہیں کرپا رہا ہے ۔ کرتا کون ہے اور سزا بھگتتا کوئی اور ہے! بے گناہ لوگوں( بشمول خواتین و اطفال)کی بکھری ہوئی لاشوں کی تصویریں،خواہ وہ کہیں بھی ہو ں، دیکھ کر کس کی آنکھیں نم نہیں ہوں گی ۔ہر انسان کی جان قیمتی ہے،خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب، ملک یا طبقے سے ہو۔
علامہ اقبال نے کہا تھا ’مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر‘۔ شاید انہیں اس وقت اس بات کا اندازہ نہیں ہوگا کہ کبھی کبھی مرد دانا پر بھی کلام نرم و نازک بے اثر ثابت ہوتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال جناب نیتن یاہو ہیں۔ وہ ایک تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے انسان ہیں،ایک تاریخ داں کے صاحبزادے اور ایک ربی(یہودی فقیہ) و مصنف کے نواسے ہیں، جن کے بارے میں ان کے ایک استاد نے ان کی تعین قدر کی کتاب میں لکھا تھا کہ وہ ایک نہایت مہذب، شریف، با ادب، خوش مزاج، مہربان، مددگار، صلح جو و فرمانبردار طالب ہے، مگر نہ جانے وہ زبان خلق کو نقارۂ خدا کیوں نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔
بہتر ہوگا اگررمضان کے اس مبارک مہینے میں دونوں فریق یہ اعادہ کریں کہ وہ اپنی پرانی دشمنی بھلا کر ایک نئی زندگی شروع کریں گے اور حامیان و ہمدردان فریقین جنگ، جو ایک جانب امن کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کر رہے ہیں تو دوسری جانب مہلک ہتھیاروں کی فراہمی کر رہے ہیں، اپنے رویے میں تبدیلی لائیں۔ دونوں فریقین کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کی تازہ ترین تجویز پر کچھ ترامیم کے ساتھ ہی سہی عمل درآمدگی کے لیے پیش رفت کریں۔ آگے سب کے لیے دشواریاں ہی دشواریاں ہیں۔
اب دونوں فریقین کو چاہیے کہ وہ شکست و فتح کے بجائے صرف ان مصیبت زدہ لوگوں کے بارے میں سوچیں جودونوں جانب قید میںہیں، زخمی ہیں یا جن کی بکھری ہوئی لاشیں ہم سب کو یہ سوچنے کے لیے مجبور کر رہی ہیں کہ انسان منفی جذبات کی رو میں بہہ کر کس حد تک انسان دوست ہونے کے بجائے انسان و انسانیت دشمن ہوسکتا ہے۔ فریقین کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تجویز تعدادی 2728 مورخہ25مارچ،2024 پر عمل کرتے ہوئے دنیا کو اس مبارک مہینے میں امن اور انسانیت کا پیغام دیںاور اس تجویز کے مطابق پائیدار جنگ بندی کا اعلان کریں، یرغمالیوں کے ساتھ ساتھ دونوں جانب قیدیوں کو فوری طور پر بلا شرط رہا کریں، سب کے لیے تمام ضروری اشیاء کی فراہمی اور ان تک رسائی کو یقینی بنائیں، زخمیوں اور مریضوں کو ہر طرح کی امداد پہنچانے کے کام میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیں، اس تجویز سے قبل جن تجاویز میں جن جن امور کا احاطہ کیا گیا ہے اور فریقین سے جو توقعات کی گئی ہیں انہیں پورا کریں اور بین الاقوامی قانون کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تکریم انسانیت قانون (International Humanitarian Law) کے تحت جو ذمہ داریاں انہیں سونپی گئی ہیں، ان کا احترام کریں اور انہیں عملی جامہ پہنائیں۔ مذہبی اعتبار سے اب دونوں اہل کتاب فریقین کے ہاتھوں میں،حسب صورت، قرآن مجید ہو اور توریت نہ کہ بم اور دل میں جذبۂ اخوت اور سفارتی اعتبار سے اقوام متحدہ کا چارٹر،جی ہاںوہی اقوام متحدہ،جسے ہم سب نے یعنی اقوام عالم نے درج ذیل صورت حال میں اور درج ذیل اغراض کے لیے قائم کیا تھا:
’پہلی جنگ عظیم میں ہونے والی تباہی اور مالی وجانی نقصان کے ردعمل کے طور پر یکم جنوری، 1920کو مجلس اقوام وجود میں آئی ۔اس کی بنیاد ولسن کے ان چودہ نکات پر تھی جن میں انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کہی گئی تھی۔ ابھی پہلی جنگ عظیم میں ہونے والی تباہی کو دنیا بھلا بھی نہیں پائی تھی کہ دوسری جنگ عظیم نے ایک بار پھر انسانیت کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ تمام دنیا جانتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جو تباہی اور بربادی ہوئی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اس جنگ عظیم میں ناگاساکی اور ہیروشیما میں ایٹم بم کا استعمال کیا گیا اور لاتعداد بے گناہ لوگوں کو ابدی نیند سونا پڑا۔ شاید یہ دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑا وہ واقعہ ہے جس نے دنیا کی تمام مہذب قوموں کو یہ سوچنے کے لیے مجبور کردیا کہ انسانی حقوق،جن میں انسانوں کی جان ومال کی حفاظت بھی شامل ہے، کا تحفظ اشد ضروری ہے۔ اسی تاریخی پس منظر میں 24اکتوبر، 1945 کو اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا اور اقوام متحدہ کے منشور (چارٹر) میں انسانی حقوق کے تحفظ کا اعادہ کیا گیا۔ خود اس چارٹر کی تمہید ہی اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ اقوام عالم کو اقوام متحدہ کے قیام کے وقت یہ مکمل احساس ہوچکا تھا کہ اس مہذب دنیا کو چلانے کے لیے کچھ ایسے اصول درکار ہیں جس سے انسانی عظمت کا تقدس برقرار رکھا جاسکے اور انسانی حقوق کی پامالی جیسی غیر انسانی حرکات کو روکا جاسکے۔ تمہید کے ابتدائی جملے میں ہی یہ بات کہی گئی ہے کہ ’اقوام متحدہ کا قیام آنے والی نسلوں کو جنگ وجدل سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ تیسری جنگ عظیم سے بچا جاسکے اور تمام ممالک اچھے پڑوسیوں کی طرح رہیں۔ ‘
اگر اقوام متحدہ کی تمام فریقین مملکتیںاقوام متحدہ کے چارٹر کی توضیعات پر نیک نیتی سے عمل کریں تو دنیا کے کونے کونے میں انسانی حقوق کا بول بالا ہوگا۔پھر بھی اگر کوئی جان کر انجان بن جائے اور جو پودا اس نے خود لگایا ہو ،اس کی آبیاری کے بجائے اس کی جڑ کاٹنے لگے اور اس جمہوری دور میں فرد واحدکی طرح عمل کرے تو اس پر صرف اظہار افسوس ہی کیا جا سکتا ہے اور راہ مستقیم پر چلنے کی ہدایت یا مشورہ تو کیا، بس اب تو دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
آج کی دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرچکی ہے اور ہم سب ایک دوسرے کے پڑوسی بن چکے ہیں ۔اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اچھے پڑوسیوں کی طرح رہیں۔ عام زندگی میں بھی اگر ہمیں اچھا پڑوسی نہ ملے تو بھی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ چارٹر کی دفعہ97کے مطابق اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو اس تنظیم کے چیف ایڈمنسٹریٹو آفیسر کا درجہ حاصل ہے اور انہیںاعلیٰ ترین بین الاقوامی عوامی خادم کہا جاتا ہے۔ دریں صورت ان کا یہ فرض ہے کہ وہ مزید فعال کردار نبھاتے ہوئے انسانی حقوق کے نگراںاورامن کے سفیر کا مؤثر رول ادا کریں۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]