غزہ(ایجنسی): غزہ میں غذائی قلت کی صورتحال بہت زیادہ سنگین ہوچکی ہے اور اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں اس پر روشنی بھی ڈالی گئی۔اسرائیل کے پیدا کردہ قحط کے نتیجے میں فلسطینی شہری بالخصوص بچے بھوک سے شہید ہو رہے ہیں۔اس صورتحال پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلیٰ ترین عہدیدار Volker Türk نے کہا ہے کہ یہ قابل یقین خیال لگتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غذائی قلت کو غزہ میں جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر Volker Türk نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر اسرائیل کا ارادہ ثابت ہوگیا تو یہ ایک جنگی جرم تصور کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ایسے شواہد سامنے آ رہے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے امداد کی ترسیل کو روکا جا رہا ہے یا اس عمل کو سست کیا جا رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ‘ میرے تمام ساتھیوں کی جانب سے ہمیں بتایا گیا کہ امدادی سامان کی ترسیل میں متعدد رکاوٹیں اور مشکلات ہیں اور سب سے زیادہ الزام اسرائیل پر عائد کیا جا رہا ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ حقیقت خود بولے گی، میں سمجھتا ہوں کہ اس عمل کو کنٹرول کیا جانا چاہیے، مگر اس میں بہت زیادہ تاخیر بھی نہیں ہونی چاہیے’۔Volker Türk نے کہا کہ ‘ہم نے اب تک جتنی بھی پابندیاں دیکھی ہیں
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں جنگ بندی کی قرار داد نظر انداز! مزید 12 فلسطینی شہید
ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ قحط کو خود پیدا کیا گیا ہے یا اسے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے’۔انہوں نے عالمی برادری کی تنقید پر اسرائیلی بے حسی کے حوالے سے کہا کہ ‘میں ان کو بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ ایسا عالمی اتفاق پیدا ہو رہا ہے جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا، اب یہ واضح نظر آرہا ہے’۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں انسانی حقوق کی صورتحال اتنی المناک ہے کہ اسے بہتر بنانے کے لیے فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے۔