پروفیسر اسلم جمشید پوری
بی جے پی کی اس ملک میں حکومت کو دس سال ہوگئے۔ ان دس برسوں میں بی جے پی نے نئے نئے معاملات کو سر انجام دیا ہے۔ہر اہم عہدے پر اب بی جے پی نے اپنے مہرے بٹھا دیے ہیں۔
الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ،سی بی آئی،ای ڈی،سی آئی ڈی،مہیلا کمیشن،اقلیتی کمیشن،فائنانس کمیشن، گورنرز، صدر جمہوریہ،سینٹرل یونیورسٹیز کے چانسلر، وائس چانسلرز، مرکز کے زیر انتظام اداروں کے ڈائریکٹرزسے لے کر نگر نگم کے چیئرمین،میئر،بورڈ کے صدور، گائوں کے پردھان اور مکھیا، ہر چھوٹے بڑے عہدے پر ان کا آدمی ہے یا پھر ان کی مداخلت ہے۔ غرض ہر طرف بی جے پی کے لوگ پھیلے ہوئے ہیں۔ایسے میں بی جے پی والے رات میں خواب دیکھیں یا دن میں،تعبیر حاصل کرنے کے ان کی منصوبہ بندی کی کامیابی کے 90فیصد امکانات ہوتے ہیں۔اس پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی والوں نے 400 پلس کا خواب دیکھا ہے۔
بی جے پی کا یہ خواب مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ہاں! اس خواب کو پورا کرنے کے لیے بی جے پی کو جی توڑ محنت کرنی ہوگی۔بوتھ سطح پر کام کرنا ہوگا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بوتھ سطح پر بی جے پی سے مضبوط کوئی دوسری سیاسی جماعت نہیں۔بی جے پی نے گزشتہ سبھی طرح کے انتخابات میں خود کو ثابت کیا ہے۔فتح و شکست تو ہوتی رہتی ہے۔بی جے پی کسی ریاست میں اگر واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو حکومت بنانے کے عمل میں اپنا ہر طرح کازور لگا دیتی ہے۔ایسی کئی مثالیں ہیں جب بی جے پی حکومت بنانے کے آس پاس بھی نہیں تھی،مگر بالآخر بی جے پی حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔خواہ اسے کانگریس کے علاوہ کسی بھی پارٹی سے ہاتھ ملانا پڑے۔حتیٰ کہ کسی بھی پارٹی کو توڑنا پڑے۔وہ پیسے کے بل پر کچھ بھی کر جاتی ہے۔
بی جے پی کی سیاسی طاقت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ 2023 میں ہندوستان کی 12 ریاستوں میںاس کی حکومت تھی۔ان میں اترپر دیش، اتراکھنڈ، بہار، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور آسام شامل ہیں۔یہ وہ ریاستیں ہیں جو عام انتخابات میں ملک کی تقدیر بناتی یا بگاڑتی ہیں۔بی جے پی کے زیر انتظام ریاستوں میں ملک کی نصف سے زائد آبادی رہتی ہے۔ اگر بی جے پی 35سے 40فی صد ووٹ بھی حاصل کر لیتی ہے تو کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔جس میں کوئی شک نظر نہیں آتا۔ہاںیہ ضرور ہے کہ کانگریس اور اس کی حلیف جماعتیں کتنا اتحاد کا مظاہرہ کرتی ہیں۔جس کا ابھی امکان بہت کم ہے۔اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کی مضبوط کڑی ترنمول کانگریس نے بنگال کی ہر سیٹ پر اپنے امیدواروںکا اعلان کر دیا ہے۔’انڈیا‘ کو ملنے والی کامیابی،بی جے پی کی کامیابی کے گراف کو کم سکتی ہے،لیکن بالکل ختم نہیں کر سکتی۔
بی جے پی کی اصل طاقت اس کے اندر اعتماد اور جوش ہے۔یہ کسی بھی پارٹی کو فائدہ پہنچاتا ہے۔بی جے پی کو اپنے کاموں اور اپنی طاقت( جس میں اقتدار اور پیسہ شامل ہے)پر پورا بھروسہ ہے۔دراصل بی جے پی نے بڑی دوررسی سے اس بات کو بہت پہلے سمجھ لیا تھاکہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے،جہاں غریب اور مسکین خاصی تعداد میں رہتے ہیں۔بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان میں ایسے لوگوں کی تعداد نصف سے زائد ہے۔یوں بھی ہندوستان میں فری کی چیز یا مال لینے والوں کی کثیر تعداد ہے،فری میں ملنے والی چیز کے لیے ایسے لوگ بھی قطار میں لگ جاتے ہیں،جو ٹھیک ٹھاک کما لیتے ہیں۔بی جے پی نے اس نکتے کو پا لیا ہے،اسی لیے اس نے غریبوں کو مفت راشن دینے کی اسکیم ہندوستانی سطح پر لاگو کی۔یہ اسکیم کووڈ 19کے وقت سے اب تک جاری ہے۔ایک اندازے کے مطابق 80 کروڑ لوگ اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اب وہ شخص جو بی جے پی کا نمک کھاتا ہو،وہ اس کے ساتھ نمک حلالی تو کرے گا ہی۔80میں سے نصف فیصد تو اس کو ووٹ کریں گے ہی؟
بی جے پی کا دوسرا بڑا کام شاہراہوں کی تعمیر ہے۔ پورے ہندوستان میں سڑکوں کا ایک جال ہے،جو پھیلا ہے۔شاید ہی کوئی ریاست ایسی بچی ہو،جس کو شاہراہ کے ذریعہ دوسری ریاست کو نہ جوڑا گیا ہو۔ چوڑی، کشادہ سڑکیں،سبزہ اور ناشتے اورکھانے کے ریسٹورینٹ ملک کی شان بڑھاتے ہیں۔اس کام کے لیے مرکزی وزیر نتن گڈکری کی تعریف کر نی ہو گی کہ انہوں نے بلاتفریق مذہب و ملت اس کام کو ملک گیر پیمانے پر کیا۔آج پورا ہندوستان بہترین سڑکوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اب عام لوگوں پر جی ایس ٹی کے علاوہ ٹول ٹیکس کا بوجھ بھی بڑھ گیا ہے۔اور ٹول پلازہ والے من مانی کرتے ہیں۔عام لوگوں کے پاس معلومات ہے نہ فرصت کے وہ ٹول پلازہ والوں سے الجھیں۔ہر ٹول پلازہ پر ٹول وصول کرنے کی مدت بڑے بڑے حرفوں میں لکھی ہونی چاہیے، بہت سے ٹول پلازہ والے مدت ختم ہونے کے بعدبھی ٹیکس وصولتے رہتے ہیں۔اس طرف وزیر موصوف کو دھیان دینا چاہیے۔
ایئر پورٹ کشادہ اور جدید سہولتوں سے آراستہ ہوئے ہیں۔ایئرپورٹس اور جہازوں کی فلائٹس کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔جن شہروں سے اب تک ہوائی راستے اور ایئرپورٹس نہیں تھے۔ اب وہاں سے بھی جہازوں کی پروازیں شروع ہو گئی ہیں۔یہی نہیں ٹرین کی تعداد اور رفتار میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ٹرین کا پرائیوٹائزیشن بھی ہوا ہے۔ نمو بھارت ٹرین میں ہوائی جہاز جیسی سہولیات ہیں۔ لیکن ایک بات ہے جو زور سے کھٹکتی ہے کہ ان پروازوں اور ٹرینوں کے کرائے اتنے مہنگے ہیں کہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔
بی جے پی کا انتخابات سے قبل آدھے ادھورے رام مندر کا افتتاح ہندوؤں کی نظر میں ایک بڑا کارنامہ ہے۔ ایسا کر کے اس نے انتخابی چال چلی ہے،اسے پورا یقین ہے کہ رام مندر ایشو ہر بار کی طرح اس بار بھی کام کرے گا۔اس سے ملک کی اکثریت بی جے پی کی حمایت میں متحد ہوگی۔ اور اگر ایسا ہوا تو بی جے پی کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ یہی نہیں بی جے پی کے پاس مودی جیسا لیڈر موجود ہے،جو جیت کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ابھی انہوں نے وکست بھارت اور مودی کی گارنٹی، جیسی اسکیمیں شروع کی ہیں۔ ہر ریاست کا دورہ کر کے وہاں کچھ نہ کچھ ایسا کیا ہے کہ ان کی ایک بار پھر جیت ہوجائے۔بی جے پی کے پاس امت شاہ جیسا حاضر دماغ بھی ہے۔جو بر وقت ماحول اپنی طرف کرنے کا ماہر ہے۔جو بی جے پی کے لیے بہترین منصوبہ بندی کرنے کے لیے جانا جا تا ہے۔نئے نئے سیاروں کی کامیاب لینڈنگ،چاند کے بعد سورج کی طرف پیش قدمی نے دنیا میں ہندوستا ن کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔
ان سب کے باوجود بی جے پی کے خوابوں کے پورا ہونے کے درمیان بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ یہ رکاوٹیں نہیں بڑے بڑے پہاڑ ہیں۔راہل گاندھی اور ان کی ریلیوں میں امڈنے والی بھیڑ، اکھلیش یادو، لالو یادو، تیجسوی یادو، کجریوال، ممتابنرجی، ہیمنت سورین، ادھو ٹھاکرے، کھرگے، اویسی، فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی، بدرالدین اجمل، سائوتھ کے لیڈر، ریانتھ ریڈی،جگ موہن ریڈی،سدا رمیا،ستیہ پال ملک،راکیش ٹکیت جیسے پہاڑ بی جے پی کے خواب اور تعبیر کے درمیان کھڑے ہیں۔پھر مہنگائی،بے روز گاری،تعلیم،غلط پالیسیاں، ہندو-مسلم منافرت، فرقہ واریت کو بڑھاوا، بیلٹ پیپر سے ووٹ کرانے کی مانگ،سکھوں کی ناراضگی، کسانوں کا غصہ، حزب ِ مخالفین کا اتحاد، ٹکٹ نہ ملنے والے بی جے پی کے باغی وغیرہ بھی بی جے پی کے لیے مشکل ثابت ہو سکتے ہیں۔
اب دیکھنے کی بات ہے کہ بی جے پی آنے والے پارلیمانی انتخابات میں اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے کیا حربے استعمال کرتی ہے کیوں کہ اقتدار کا نشہ بہت برا ہوتا ہے،یہ ایک بار چڑھ جائے تو پھر آسانی سے اترتا نہیں ہے۔ انسان سے وہ سب کروا دیتا ہے جو کسی نے سوچا نہیں ہوتا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ بی جے پی کا خواب پورا ہوتا ہے یاراہل گاندھی کی محنت رنگ لا تی ہے؟
[email protected]