الیکشن کمیشن کی کارروائی

0

لوک سبھا انتخابات کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن حرکت میں آگیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے صاف ستھرے اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے انعقادکے تعلق سے سخت پیغام دیا ہے۔کمیشن نے بڑے پیمانے پر اوربڑی کارروائی کرتے ہوئے ایک ساتھ نہ صرف 6 ریاستوںاترپردیش، بہار، گجرات، جھارکھنڈ، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کے داخلہ سکریٹریوں کو بلکہ مغربی بنگال کے ڈائریکٹرجنرل آف پولیس (ڈی جی پی ) اورہماچل پردیش ومیزورم کے انتظامی امور کے سکریٹریوںکوہٹانے کا حکم دیا ہے، جبکہ برہن ممبئی کے کمشنر اقبال سنگھ چہل، ایڈیشنل سکریٹریوں اور ڈپٹی کمشنروں کو بھی ہٹانے کی ہدایت دی ہے۔ الیکشن کمیشن نے یہ کارروائی اس وقت کی،جب اس نے اس سے پہلے ہی تمام ریاستی حکومتوں کوہدایت دے دی تھی کہ انتخابی امور سے وابستہ ایسے تمام افسروں کا تبادلہ کریں، جو 3سال سے زیادہ عرصے سے ایک ہی عہدہ پرتعینات ہیں یا اپنے آبائی اضلاع میںتعینات ہیں۔ان میں مغربی بنگال کے ڈی جی پی راجیوکمار سب سے اہم نام ہے،جن کو 2016کے اسمبلی انتخابات سے پہلے بھی اور اب 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے بھی عہدہ سے ہٹانے کی ہدایت دی گئی۔ الیکشن کمیشن کی اس کارروائی سے یقینا ان ریاستوں کی حکومتوں کو پریشانی ہوگی،جہاں کے عہدیدار ہٹائے جائیں گے اور وہاں کی اپوزیشن پارٹیاں خوش ہوں گی۔ ظاہر سی بات ہے کہ الیکشن کے اعلان کے 2دن بعد کمیشن کے اس فیصلہ سے انتخابی امور سے وابستہ تمام عہدیداران کے کان کھڑے ہوگئے ہوں گے اوروہ اپنی ذمہ داریوں کو آزادانہ اور غیرجانبدارانہ طریقے سے نبھائیں گے،تاکہ کسی بھی سیاسی پارٹی اورامیدوار کو کوئی شکایت نہ ہو،سبھی کو الیکشن لڑنے کے لیے یکساں مواقع حاصل ہوں اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات ہوسکیں، جو ہرکوئی چاہتاہے۔
کسی بھی طرح کے انتخابات میں انتظامی امور کے عہدیداران اورافسران کا بہت اہم رول ہوتاہے۔ دراصل انتخابی مہم بھی ان ہی کی نگرانی میں چلتی ہے،انتخابات بھی اور ووٹوں کی گنتی بھی وہی کراتے ہیں۔ایسے میں ان کے تعلق سے کوئی بھی شکایت پورے عمل کو مشکوک بنادیتی ہے۔اسی لیے سیاسی پارٹیوں کی سب سے زیادہ نظر ان ہی پر رہتی ہے۔جن عہدیداران وافسران کو ہٹانے کی ہدایت الیکشن کمیشن نے دی ہے، وہ شاید شکایتوں کی بنیاد پر ہی دی ہوگی۔عام طور سے ایک ہی عہدہ پر تعینات رہنے والے افسران سے آزادانہ ومنصفانہ کارروائی کی امید نہیں کی جاتی ہے۔ اسی لیے الیکشن کمیشن نے پہلے ہی سے ایسے عہدیداران کو ہٹانے کی ہدایت دے دی تھی۔ ابھی تو الیکشن کمیشن کی کارروائی کی ابتدا ہوئی ہے، ہوسکتاہے کہ آگے مزید عہدیداران اور افسران کے خلاف کارروائی ہو اوران کو عہدے سے ہٹایا جائے۔اب جو بھی کاررروائی ہوگی، الیکشن کمیشن ہی کرے گا، کیونکہ الیکشن کے اعلان کے بعد پورے ملک میں انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہوچکا ہے۔ اس لیے جو الیکشن کمیشن چاہے گا، وہی مرکزی اورریاستی حکومتوں کو کرنا ہوگا اورحکومتیں ایسا کرنے کی پابند ہوں گی۔جن افسران اور عہدیداران کو ہٹایا گیا ہے، وہ کئی کئی برسوں سے ایک ہی عہدے پر تعینات تھے،اس لیے اپوزیشن پارٹیوں کی آنکھوں میں کھٹک رہے تھے اورحکومت کے قریبی بھی سمجھے جاتے تھے۔ایسے میں ان کو عہدے سے ہٹاکر الیکشن کمیشن نے حکومتوں اوراپوزیشن پارٹیوں دونوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ آزادانہ ومنصفانہ انتخابات کرانے کا پابند ہے، جس کی امید اس سے کی جاتی ہے۔ ایک ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر کارروائی کی امیدکسی کو نہیں تھی، لیکن یہ الیکشن کا موسم ہے، اس میں کمیشن جو بھی مناسب سمجھے گا،کبھی بھی کارروائی کرے گا اوراس پر شاید کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوگا۔یہی تو اس ملک کی جمہوریت ہے۔ الیکشن کمیشن انتخابات کے وقت جو قدم اٹھاتا ہے، اس پر کوئی ناگواری کا اظہارنہیں کرتا۔ یہ اور بات ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں خوش ہوتی ہیں اورحکومتیں پریشان رہتی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے جو قدم اٹھایا ہے یا آگے جو کارروائی کرے گا، وہ نہ ملک کے لیے نیا ہے اورنہ کسی کو حیرت ہوگی۔ ملک میں الیکشن کے اعلان کے بعد ایک طرح سے یہ الیکشن کمیشن کا روٹین ورک ہوتا ہے،جو وہ ضرورت کے مطابق کرتارہتاہے اورآگے بھی کرے گا۔یہ کارروائی خبر اس لیے بن گئی کہ بڑے پیمانے پر اور بڑے افسران کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، جس کی ضرورت الیکشن کمیشن محسوس کررہا ہوگا۔ اس طرح کارروائی سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ صاف ستھرے اورآزادانہ ومنصفانہ انتخابات کی اپنی پالیسی سے الیکشن کمیشن کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS