شاہد زبیری
ملک میں انتخابا ت کا بگل بج چکا ہے قومی الیکشن کی طرف سے تاریخوں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ 4جون کو ووٹ شماری کے بعد نئی حکومت زمامِ حکومت سنبھالے گی۔ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اورنیا سیا سی منظر نامہ ابھر رہا ہے ، الیکٹورل با نڈ کے نام پر چندے کے دھندے نے ہماری سیاست میں بھونچال لا دیاہے۔ بی جے پی، خود وزیر اعظم نریندر مودی پراس کیلئے انگلیاں اٹھا رہی ہے،اپوزیشن جماعتیں بی جے پی اورمودی جی پر حملہ آور ہیں۔ گودی میڈیا کو چھوڑ کر آزاد میڈیا اور عالمی میڈیا میں اس پر جو بحث جا ری ہے اس کے کیا نتائج نکلیں گے اور حالات کس رخ پر جا ئیںگے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں ایس بی آئی سے پوچھا ہے کہ الیکشن کمیشن کو ایس بی آئی نے ابھی تک اس سارے چندے کے دھندے کا مخصوص نمبر سمیت مکمل ڈاٹا کیوں نہیں دیا۔ اس چندے کے دھندے کو چھپانے کے لئے ہر ممکن کو شش کی گئی لیکن ہر کوشش ناکام رہی اور سارے کھیل میں دو سو سالہ قدیم ایس بی آئی کی ساکھ دائوں پر لگ گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملہ جو تاریخ ساز کام کیا ہے 2024کے لوک سبھا انتخابات پر اس کے کیااثرات پڑیں گے کچھ نہیں کہا جا سکتا، اس لئے کہ کوئیں میں بھانگ ملادی گئی ہے ایک بڑے طبقہ پر مودی جی کا نشہ چڑھا ہے۔
مودی جی نے نئے الیکشن کمشنروں کی تقری کا جو طریقہ اپنا یا اس کیخلاف بڑی تعداد میں مفادِ عامہ کی سپریم کورٹ میں رٹیں داخل ہیں اس پر سب کی نگاہیں لگی ہیں اور تو اور الیکشن کی تاریخوں سے عین قبل مودی سرکار کے ذریعہ CAA کے نفاذ نے بھی زلزلہ لا دیا ہے ۔ اس کا نفاذ کیسے ہوگا اس پر امریکہ بھی نظریں جمائے ہیں ہر چند کہ اس پر ہماری حکومت نے دو ٹوک کہا ہے کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے لیکن دنیا اب پہلے والی دنیا نہیں رہی اب ایک گلوبل گائوں کی شکل اختیار کر چکی ہے اگر ہمارے وزیر اعظم امریکہ کے الیکشن میں ٹرمپ کیلئے ووٹ مانگ سکتے ہیں تو امریکہ ہمارے اندرونی معاملات میں دخل دے گا ہی، ہر چندیہ کہ ہمارے قومی مفادات کے خلاف ہے۔ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ سی اے اے این آر سی کا داخلی دروازہ ہے اگر مو دی سرکار تیسری مرتبہ واپس آتی ہے تو این آر سی کے نفاذ کو کون روک سکتا ہے۔ ہماری قیادت اور ملّی تنظیموں کی طرف سے سی اے اے پر شدید ردِّ عمل سامنے آیا ہے ،لیکن کیا صرف زبانی ردِّ عمل مسلمانوں کو اس کے خدشات اور خطرات سے محفوظ رکھنے کیلئے کا فی ہے۔ سوال یہ ہے کہ NRCکا خطرہ اس سے کہیں زیادہ ہے اس لئے اس کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ہماری سیاسی ،ملّی اور مذہبی قیادت اور دانشوروں کی کیایہ ذمّہ داری نہیں بنتی کہ وہ گھر گھر جا کر یا مساجد، مدارس اور خانقاہوں کے ذریعہ شہری اور دیہی علاقوں کے مسلمانوں کو اس کی سنگینی سے آگاہ کریں اور شہریت کیلئے کیا کیا ضروری ہے یہ بتائیں اور ریکارڈ تیار کرا ئیں؟ ۔ شاہین باغ اور ملک کے دیگر حصّوں میں ہماری جدید تعلیم یافتہ خواتین کو ہی میدان میں آنا پڑا تھا اس میں نو عمر لڑکیاں،خواتین بلکہ سن رسیدہ خواتین بھی پیش پیش تھیں ا س وقت ہمار ی ملّی ،سیاسی قیادت یا مذہبی سیادت کہاں تھیں؟دیوبند کی خواتین کے جلسہ میں مولانا محمود مدنی نے ضرور پُر جوش خطاب کیا تھا۔ خواتین تو پیش پیش تھیں ان کے ساتھ یونیورسٹیوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ عمر خالد اور شرجیل امام جیسے نوجوان بھی تھے جو قیدو بند کی صعوبتیں بر داشت کررہے ہیں، جن میں گلفشاں نام کی خاتون بھی ہیں ہماری قیا دت اور ہمارے دانشور طبقہ نے کسی نے ان کی رہا ئی کیلئے رتّی برابر کوشش نہیں کی بلکہ ان سے فاصلہ بنائے رکھا ۔دیگر مسائل پر بھی ہماری قیادت زیادہ تر مسلم کانفرنسوں کے نام پر اپنے اپنے مسالک کی کانفرنسیں کرتے ہیں، قرار دادیں ریزولیشن پا س ہوتے ہیں اور اجتماعی دعائوں کے بڑے بڑے جلسے۔ ہم نے مدارس قائم کئے تو وہاں بھی مسالک کے بورڈ آویزاں کر دئے گئے جن کو اسلام کے قلعے کہا جا تا ہے بقول مولانا رضی الاسلام ندوی یہ مسلکی اسلام کے قلعے ہیں، لیکن مسلکی اسلام کے ان قلعوں سے پڑھ کر نکلنے والوں میں ہمارے ان اکا بر کے نقشِ قدم پر چلنے والے کہاں ہیں جن سے انگریز لرزاں رہتے تھے ۔صرف امامت کر نے، جنازہ پڑھانے اور نکاح پڑھا نے والے مولوی نکل رہے ہیں ۔ بڑی بڑی اصلاحِ معاشرہ کانفرنسوں کے انعقاد سے نہ شادی بیاہ کی رسومات اور بے تحاشہ دولت کے استعمال اور اخراجات پر قدغن لگا ہے، نہ مسلم معاشرہ میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی اور اخلاقی زوال پر روک لگ سکی، ہماری معاشی بدحالی، تعلیمی پسماندگی ہماری زبوں حا لی کی ڈرائونی تصویرپیش کرتی ہے، بات اب سچر کمیٹی کی رپورٹ سے بھی آگے نکل چکی ہے۔تشویش کی صرف یہی بات نہیں کہ ارتداد کا طوفان ہماری لڑکیوں کوہی نہیں لڑکوں کو بھی اڑا ئے لئے جا رہا ہے، اس میں تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ کی کوئی تخصیص نہیں اس کیلئے کون ذمّہ دار ہے۔مسلم بستیوں میں اسمیک کے نشہ کے دھندے میں مسلم خواتین بھی شامل ہیں، ہماری نسل نشہ کی گرفت میں پھنس چکی ہے ،نشہ اسمگلروں کے خوف اور ڈر کا یہ عالم ہے کہ جس درمند طبقہ کی طرف سے پریس ریلیز متعلقہ تھا نہ کو دی جا تی ہے اس پردینے والوں کے نام نہیں ہوتے۔ الزام پولس کے سر مڑھا جاتا ہے کہ پولیس موجودہ سرکار کے اشارہ پر ہماری نئی نسل کو نشہ کا عادی بنا کر اس کو تباہ وبر باد کرنا چا ہتی ہے، ممکن ہے کہ اس میں کچھ سچائی ہو، لیکن ہماری مذہبی سیادت اور ہماری ملّی قیادت یا ہمارے دانشور کہے جانے والا طبقہ کوئی قدم کیوں نہیں اٹھا تا آخر ا ن تمام سنگین مسائل کے حل کیلئے زمین پر ہم کیا کررہے ہیںوہ کہیں نہ کہیں دکھنا تو چا ہئے ؟۔کسی مسلم اکثریتی بستی میں چلے جائیں زمینی حقیقت معلوم ہو جائے گی کہ ہمارا معاشرہ کدھر جا رہا ہے۔ عدالتوں میں شاہ بانو کیس سے لے کر بابری مسجد اور تین طلاق تک کے مسئلہ پر ملت خفت اٹھا چکی ہے، مساجد مداس اور خانقاہوں پر بلڈوزر چل رہا ہے ۔
جس کو ملک کی تقسیم کہا جا تا ہے وہ ملک کی تقسیم نہیںتھی بلکہ ہندی مسلمانوں کی تقسیم تھی، لیکن تقسیم کا چرکہ لگنے کے بعد بھی ہم نہیں سنبھلے مہلت کے 75سال خدا نے ہمیں دئیے تھے اس عرصہ میں ہماری سیاسی قیادت کی کار گزاری یہ ہے کہ مسلمان سیاسی حاشیہ پر ڈال دئے گئے ہیں یا یوں کہیں دیوار سے لگا دئے گئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ہماری کوئی نمائندگی نہیں بچی، اسمبلیوں میں ہماری سیاسی قیادت سیاسی پارٹیوں کا بندھوا مزدور بن کر کام کرتی ہے ، مسلمانوں کے مسائل پر چپّی سادھے رکھتی ہے اس نے یہ سمجھ لیا کہ مسلمانوں کے ایشوز پر مکمل سکوت کا مطلب ہی سیکولرزم ہے اورسیکولرزم کی دعویدار سیاسی پارٹیوں نے بھی یہ مان لیا کہ مسلمانوں کے ایشو پر بو لیں گے تو ہندو ووٹ ناراض ہو جا ئے گا۔ انتخابی موسم جب آتا ہے سیکولزرم کی گھٹری کو ہمارے سروں پر رکھ دیا جاتا ہے اور سیکولر پارٹیوں کی طرف سے آدیش ہوتا ہے کہ بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکنا چا ہتے ہو تو سیکو لرزم کی گٹھری اپنے سروں پر رکھ کر ہمار ے پیچھے پیچھے چلتے رہو، خبردار! ہم سے سوال مت کرناکوئی مطالبہ مت کرنا ورنہ اس کا فائدہ بی جے پی کو پہنچ جائے گا۔ سیکولرپارٹیاں گزشتہ 75سال سے ہمارے ساتھ ایسا ہی کر تی آرہی ہے لیکن بی جے پی پھر بھی نہ صرف اقتدار میں آگئی بلکہ 10سال سے اقتدار پر جمی ہوئی ہے، نتیجہ سامنے ہے کہ بی جے پی نے ہمیں نشانہ پر رکھ لیا اور سیکولر پارٹیوں کے فارمولہ پر عمل کرتے ہوئے اس نے بھی مسلمانوں کا ہوّا دکھا کر ہندو اکثریت کے جوانوں کے ذہن میں ہمارے خلاف جونفرت کی کھیتی کی آبیاری کی تھی وہ کھیتی پک کر تیّا ر ہو گئی ہے۔ آئین ہند کو طاق پر رکھ کر مذہبی امتیاز کر نے والے CAA کے نفاذ کا اعلان کردیا گیا۔NPA آئے گا ممکن ہے کہ اس سے پہلے ہی NRC کا نفاذ نہ کر دیا جا ئے، یہی بی جے پی کی Chronology ہے۔ اگر پھر سے بی جے پی اقتدار میں آئی تو NRC کے نفاذ کا قوی امکان ہے ۔آزادی کے بعد مسلمانوں کیلئے یہ سب سے بڑی آزمائش ہوگی، جس پر ابھی تک مسلم قیادت میں سکوت طاری ہے کہیں کوئی ہل چل، کوئی بے چینی اور کوئی اضطراب نظر نہیں آتا اس کیلئے آسام سے ہمیں سبق لینا چا ہئے تھا لیکن افسوس اس کو لے کر کوئی احساس نہیں ہر طرف مکمل سنّاٹااور زمانہ ہے کہ قیامت کی چال کب کی چل چکا، نہ کوئی اٹھانہ کوئی دوڑ ا ۔
[email protected]