عبدالماجد نظامی
ہندوستان میں اچانک سے سیاسی اتھل پتھل پیدا ہوجانا اور منتخب سرکاروں کو پیسہ یا تحقیقی و تفتیشی ایجنسیوں کا ڈر دکھا کر گرا دیا جانا، اب ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ یہ وہ نیا بھارت ہے جس کی بنیاد 2014میں رکھی گئی ہے۔ اس بھارت میں کچھ بھی ممکن ہے کیونکہ مودی جی برسراقتدار ہیں۔ یہ نعرہ بھی بھارتیہ جنتا پارٹی ہی کی جانب سے چلایا گیا تھا کہ ’’مودی ہے تو ممکن۔‘‘ البتہ کبھی یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا کیا چیزیں ممکن ہیں؟ جو کچھ عام شہری دیکھ پا رہے ہیں، ان سے بس اتنا اندازہ ہو رہا ہے کہ جمہوری ادارے لگاتار کمزور کیے جا رہے ہیں اور خوف کا ماحول چھایا ہوا ہے۔ جمہوریت کا کمزور ہونا ہندوستان جیسے وسیع و عریض اور تکثیری تہذیب کی علامت سمجھے جانے والے ملک کے لیے بالکل درست نہیں ہے۔ جب سے2024کے عام انتخابات کی تیاریاں ملک میں شروع ہوئی ہیں، تب سے لگاتار یہ خبریں آ رہی ہیں کہ اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران کو یا تو ای ڈی اور سی بی آئی کے ذریعہ خوفزدہ کرکے انہیں کمزور اور مجبور کیا جا رہا ہے یا پھر اچھی بھلی چلتی ہوئی سرکار کو بھارتیہ جنتا پارٹی گرا دیتی ہے اور خود اقتدار پر قابض ہوجاتی ہے۔ اس عمل کو ’’آپریشن کمل‘‘ کا بھی نام دیا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں بہار کے اندر اس آپریشن کو کامیابی کے ساتھ انجام دیا گیا ہے۔ ایسا معلوم پڑتا ہے کہ بہار کی پڑوسی ریاست جھارکھنڈ میں بھی اس کا انتظام کیا جا رہا تھا لیکن وہاں ’’آپریشن کمل‘‘کامیاب نہیں ہوپایا کیونکہ وہاں کے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین نے جھکنا گوارہ نہیں کیا اور اسی لیے ان کی پارٹی کی سرکار بچ گئی، یہ اور بات ہے کہ ہیمنت سورین کو اپنی کرسی چھوڑنی پڑی اور اپنی جگہ چمپئی سورین کو وزیراعلیٰ بنانا پڑا۔دہلی میں کجریوال سرکار کو لے کر بھی یہ ہی قیاس آرائیاں ہیں کہ یا تو سرکار ان کے اشارہ پر چلائیں یا پھر جیل جائیں۔ اس سے قبل کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں بھی اسی نسخہ کا استعمال کرکے عوام کے ذریعہ منتخب سرکاریں گرائی جا چکی ہیں۔ امید کی جا رہی تھی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جب طویل مدت تک اقتدار میں رہ جائے گی تو اس کے اندر خوداعتمادی پیدا ہوجائے گی اور اس خود اعتمادی کا استعمال ملک کی جمہوری قدروں کو مضبوط کرنے میں کرے گی، لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ ہمالیہ کی گود میں بسا ہماچل پردیش اب اس کے نشانہ پر ہے۔ وہاں پر27فروری کو جو سیاسی بحران شروع ہوا تھا، وہ وقتی طور پر بظاہر ختم ہوگیا ہے لیکن ابھی بھی اس کے آثار باقی ہیں کہ کہیں کانگریس پارٹی کی سرکار گرا نہ دی جائے۔ دراصل یہ بحران 27فروری کو اس لیے شروع ہوا تھا کیونکہ اس ریاست سے راجیہ سبھا کی واحد سیٹ پر جب ووٹنگ ہوئی تو حیرت انگیز طور پر کانگریس پارٹی کے امیدوار ابھیشیک سنگھوی شکست کھا گئے اور ان کے بجائے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار ہرش مہاجن جیت گئے۔ یہ بات سب کے لیے ناقابل یقین تھی کیونکہ68رکنی ہماچل اسمبلی میں کانگریس پارٹی کے پاس 40سیٹیں تھیں جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس صرف25سیٹیں ہی ہیں۔ دراصل ووٹنگ کے بعد یہ راز کھلا کہ کانگریس پارٹی کے چھ اراکین اسمبلی نے پارٹی وہپ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کے حق میں ووٹ دے دیا تھا۔ کانگریس پارٹی کے ان چھ اراکین کے علاوہ ان تین آزاد اراکین نے بھی بی جے پی کے حق میں ووٹ دیا تھا جو ریاست کے اندر کانگریس پارٹی کی سرکار میں شامل ہیں۔ اس کراس ووٹنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں پارٹیوں کے امیدوار کو34-34 ووٹ حاصل ہوگئے۔ جوں ہی یہ چونکانے والا نتیجہ سامنے آیا، بھارتیہ جنتا پارٹی نے دباؤ بنانا شروع کر دیا اور پارٹی کے ریاستی صدر راجیو بندل نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اخلاقی طور پر کانگریس پارٹی نے اقتدار میں بنے رہنے کا حق کھو دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں پر اگر اخلاق کا درس بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے آئے تو بڑی عجیب بات معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے سیاسی اخلاق کا معیار اتنا بلند نہیں کیا ہے کہ عوام میں اسے بے داغ اعتماد حاصل ہوجائے۔ حالانکہ ملک کے عوام کو اس سے توقع تو یہی ہے کہ وہ سیاست کو مچھلی بازار میں تبدیل نہ کر دے جہاں صرف شور و ہنگامہ ہو اور مال و زر سے ہی منصب و حکومت خریدے اور بیچے جاتے ہوں۔ ایسا کرنا ملک کے مستقبل کے لیے درست نہیں ہے۔ آج نریندر مودی اور ان کی پارٹی اقتدار کی بلندی پر ہیں تو انہیں اپنے اقتدار کا استعمال اس ملک کی جمہوری روایات اور قدروں کو پروان چڑھانے کے لیے کرنا چاہیے نہ کہ جمہوریت پر تیشہ زنی کے لیے تمام حربے اختیار کیے جانے چاہئیں۔ کانگریس پارٹی کو بھی اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ وہ ہر وقت چوکنا رہے اور اندرون خانہ جو کھٹ پٹ چل رہی ہے وہ اس قدر نہ بڑھ جائے کہ اس کا استعمال کرکے اسے اقتدار سے ہر بار باہر کیا جانا آسان ہوجائے۔ ایسا لگاتار ہوتا رہا تو اس پر سے عوام کا بھروسہ مزید اٹھتا چلا جائے گا۔ ہماچل پردیش میں بھی یہی کہانی چل رہی ہے۔ وہاں کے وزیراعلیٰ سُکھویندر سنگھ سُکھو اور ہماچل پردیش کانگریس کی صدر پرتیبھا سنگھ کے درمیان تناؤ جاری ہے۔ کانگریس پارٹی کی اندرونی جمہوریت سخت مسائل سے دوچار ہے اور پارٹی اعلیٰ کمان بار بار اس پہلو کا مؤثر حل پیش کرنے میں ناکام ہورہا ہے۔ اسی داخلی انتشار کے نتیجہ میں پنجاب اور راجستھان کی قربانی انہیں پیش کرنی پڑی۔ ابھی وقتی طور پر ہماچل پردیش کا مسئلہ اس طرح سے حل ہوگیا ہے کہ پارٹی وہپ کی مخالفت اور بجٹ سیشن میں غیرحاضری کی پاداش میں ان چھ اراکین کو کانگریس پارٹی نے رکنیت سے محروم کر دیا ہے جنہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اب عدالتی چھان بین کے بعد ان کا آگے کا مرحلہ طے ہوگا۔ سکھو کی سرکار کو بھی بظاہر کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ اسمبلی کی طاقت68سے62پر آگئی ہے اور کانگریس پارٹی اپنے موجودہ34ممبران اسمبلی کی مدد سے سرکار چلا سکتی ہے۔ لیکن اگر مؤثر طور پر اس مسئلہ کو نہیں سلجھایا گیا تو اس کا خطرہ بنا رہے گا کہ ریاست میں کانگریس کی سرکار گر جائے گی۔ کیونکہ اس کی ضمانت کون دے گا کہ باقی ماندہ اراکینِ اسمبلی نہیں بکھریں گے؟ ایک مضبوط جمہوریت کے لیے مضبوط اپوزیشن کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ایک مضبوط سرکار کا۔ ایسا نہ ہو کہ کانگریس کی یہ کمزوریاں2024کے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے400پار کا مقصد حاصل کروانے میں معاون ثابت ہوجائیں۔ ایسا ہونا ملک کے جمہوری نظام کی صحت کے لیے بالکل اچھا نہیں ہوگا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]