الیکشن بانڈ کی منسوخی سے انتخابات میں شفافیت یقینی: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

عدالت عظمیٰ کی آئینی بنچ نے ’الیکشن بانڈ اسکیم‘ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کردیا۔ بانڈ دینے والے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے مزیدبانڈس جاری کرنے پر روک لگادی اور سیاسی جماعتوں کوکیش نہیں ہونے والے بانڈس، خریداروں کو واپس کرنے کی تاکید کی۔چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں جسٹس سنجیو کھنہ،جسٹس بی آر گوائی، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی5رکنی بنچ نے اسکیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر 2علیحدہ اور متعلقہ فیصلے سنائے۔سی جے آئی کے مطابق اسکیم آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو متاثر کر رہی تھی۔اس سے دستور کی دفعہ 19(1)(a) کے تحت آزادیٔ تقریرو اظہار کے دستور ی حق کے علاوہ حق معلومات کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو12 اپریل 2019 سے اب تک خریدے گئے انتخابی بانڈس کی مکمل تفصیلات 6مارچ تک الیکشن کمیشن کومہیا کرانے اور الیکشن کمیشن کو اسے 13مارچ تک اپنی ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کرنے کا حکم دیا۔
2017کے بجٹ میں وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے سیاسی جماعتوں کو ملنے والے چندے میں ’کالا دھن‘ روکنے کے لیے ’ انتخابی بانڈ اسکیم‘ پیش کی تھی۔ مودی حکومت نے اسے سیاسی فنڈنگ میں شفافیت کے دعوے کے ساتھ 2 جنوری 2018 کو نافذکیا۔اس میں عام شخص، صنعت کار، کاروباری اور کمپنیاں اسٹیٹ بینک آف انڈیا سے انتخابی بانڈ خرید سکتی ہیں۔ یہ ایک ہزارروپے، 10 ہزار روپے، ایک لاکھ روپے،10لاکھ روپے اور ایک کروڑ روپے کے ہوتے ہیں ۔ انہیں15روز کے اندر کیش کرنا ضروری ہے۔ پہلے چندے کو اُس شخص،صنعت کار یا کاروباری گھرانے کی جانب سے ظاہر کرنا لازمی تھا۔ سیاسی جماعت کو بھی اعلان کرنا ہوتاتھا کہ اُس نے کس سے کب اور کتنا چندہ لیا۔ ’انتخابی بانڈ اسکیم‘ میں بانڈ کے خریدار کی شناخت جاری نہیں کی جاتی۔کوئی بھی فرد،صنعت کار یا کمپنی بانڈ خرید کر اپنی پسند کی جماعت کو عطیہ کر سکتی ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ اس سے انتخابی عطیات میں شفافیت آئے گی۔ آج ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ایسے دور میں حالات کا مشاہدہ کیا جارہا ہے، جس میں گھر کی چہاردیواری کے اندر سے چہاردیواری کے باہر تک کسی بھی شعبے میں کسی شخص کی جاسوسی کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا سکتاہے۔ وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب، کہاں اور کس کے موبائل سیل فون،لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر کو کس سافٹ ویئر کے ذریعہ مانیٹر کیا گیا،کیا جا رہا ہے یا کیا جائے گا؟ ایک معمولی اور غیر واضح چِپ کے ذریعہ کسی شخص کے بینک اکاؤنٹ، شناختی کارڈ، پسندو ناپسند، آمدورفت،سیاسی و سماجی رجحانات کا انتہائی مختصر اوقات میں پتہ لگا نا کافی آسان ہے۔
مرکزی حکومت نے دوران سماعت اسکیم کے دفاع میں کہاکہ یہ ’کالے دھن‘ کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔سپریم کورٹ نے دلیل کو نامنظور کیا اور کہا کہ الیکٹورل بانڈ اسکیم ’سیاہ دولت‘روکنے کا واحد ذریعہ نہیں ہے،اس پر قدغن کے کئی متبادل انتظامات ہوسکتے ہیں۔ عوامی نمائندگی اور انکم ٹیکس قوانین میں کی گئی ترامیم کو غیر قانونی بتایا۔جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا کہ کمپنیز ایکٹ اجازت دیتا ہے کہ کوئی کمپنی سیاسی جماعتوں کو چندہ دے سکتی ہے،لیکن اسے لا محدود عطیات میں تبدیل کردیاگیا۔کوئی کمپنی عطیات دے کر انتخابی عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔ ملکارجن کھرگے نے فیصلے کا خیرمقدم کرکے اسے نوٹوں کے مقابلے ووٹوں کی طاقت کو مضبوط کرنے والا بتایا۔راہل گاندھی نے بانڈ اسکیم کو رشوت اور کمیشن کا ذریعہ ہونے پر سپریم کورٹ کی مہر لگنا بتایا۔ سیتارام یچوری بانڈ اسکیم کو بدعنوانی کی قانونی حیثیت سمجھتے ہیں۔ آدتیہ ٹھاکرے نے کہا کہ فیصلے سے الیکشن میں شفافیت آئے گی۔ روی شنکر پرساد نے عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے کہا کہ اسکیم کا مقصد انتخابی فنڈنگ میں شفافیت لانا تھا۔ سپریم کورٹ نے2نومبر2023کو فیصلہ محفوظ کیا اور 15فروری 2024کو سنایا ۔کرپٹ ذرائع سے جمع ہونے والی رقم کو انتخابی بانڈس کے نظام کے ذریعہ کنٹرول کرنے کی دلیل عجیب تھی۔ شفافیت کی جس سطح کو نظرانداز کیا گیا وہ خود بدعنوانی کو فروغ دینے کابالواسطہ طریقہ ہے۔بدعنوانی کے خلاف مہم چلانے والے زیادہ تر اداروں کو بھی عطیات کی شکل میں رقم کے خفیہ طریقے سے لین دین پر کوئی رُکاوٹ نہیں تھی۔حالاں کہ خریدے گئے بانڈاور عطیہ کرنے کی معلومات اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو تھی،لیکن عام آدمی کو معلوم نہیں تھا کہ کس فرد یا کمپنی نے کتنے روپے کے بانڈ خریدے اور کس سیاسی جماعت کو دیے؟ انتخابی بانڈس میں معطی کی شناخت خفیہ رکھی جانے سے بدعنوانی کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے۔ کہا گیا کہ یہ اسکیم کارپوریٹ گھرانوں کو اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر رقم عطیہ کرنے میں مدد کے لیے بنائی گئی تھی۔ہندوستانی سیاست میں انتخابات کی شفافیت کا اکثر مطالبہ کیا گیا،لیکن لازمی عمل کو یقینی بنانے میں کبھی سنجیدگی نہیں دکھائی گئی۔سوال یہ ہے کہ کوئی شخص،کاروباری یا صنعت کار کسی جماعت کو چندہ کیوں دے گا؟ کیا اس میں عطیہ دینے والے کا مفاد پوشیدہ نہیں ہے؟ وہ پوشیدہ چندہ کیوں دینا چاہتا ہے؟ کیا اس کا تعلق ’کالے دھن‘ سے نہیں ہوسکتا؟ اگر آج بڑے کارپوریٹ گھرانے کسی جماعت کی چندے سے مدد کرتے ہیںتو کل اقتدار میں آنے پراُس سے کمپنی کے لیے سودمندسہولیات کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن اور ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس کے مطابق مارچ 2018سے جنوری 2024 تک 16,518.11 کروڑ روپے کے انتخابی بانڈس فروخت ہوئے۔ سیاسی جماعتوں کو تقریباً 50 فیصد چندہ بانڈس سے آیا۔ریاستی علاقائی جماعتوں کو90فیصد تک چندہ بانڈس سے ملا۔ کارپوریٹ گھرانوں سے سیاسی جماعتوں کو 2016-17 سے 2021-22 تک 3,895 کروڑ روپے کا چندہ ملا۔ سب سے زیادہ 84فیصد بی جے پی کو ملا۔ بی جے پی کو 3,299.850کروڑ روپے،کانگریس کو406.4570 کروڑروپے،این سی پی کو 109.5980 کروڑ روپے، مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کو29.1615 کروڑ روپے، ترنمول کانگریس کو 49.7660کروڑروپے اوربھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کو 0.0055 کروڑروپے ملے ۔ 2016-17 میں 563.253کروڑروپے، 2017-18میں 422.010 کروڑروپے ، 2018-19 میں 881.260کروڑروپے، 2019-20 میں 921.950 کروڑ روپے ، 2020-21 میں 480.649کروڑروپے اور 2021-22 میں 625.716کروڑ روپے کے عطیات دیے گئے۔ مارچ2018سے جولائی2023تک27 مرحلوں میں ایک کروڑروپے کے 12,999،10لاکھ روپے کے 7,618،ایک لاکھ روپے کے3,088،10ہزارروپے کے 208 اور ایک ہزارروپے کے99بانڈس فروخت ہوئے۔ فروخت 24,012 بانڈس کی کل رقم 13,791,.8979کروڑروپے ہے۔انتخابی بانڈ سے اُس سیاسی جماعت کو چندہ لینے کا حق ہے،جو عوامی نمائندگی قانون 1951- رپریزینٹیشن آف دی پیوپلس ایکٹ کی دفعہ29کے تحت رجسٹرڈ ہو اور جسے پارلیمانی یا اسمبلی الیکشن میں کم سے کم ایک فیصد ووٹ ملا ہو۔ 1900سیاسی جماعتیں ہیں۔ان میں سیکڑوںپارٹیوں کا کبھی انتخابات نہیں لڑنا بدعنوانی کی جانب اشارہ ہے۔ رجسٹرڈسیاسی جماعتوں کو انکم ٹیکس قانون 1961 کی دفعہ13-Aکے تحت ٹیکس سے چھوٹ ہے۔ عطیہ کی حد محدود نہیں ۔ 20ہزار یا زیادہ کی رقم کا حساب دینا ہوتا ہے۔ عدالتی فیصلے سے قبل ’الیکشن کمیشن‘ اور’ریزرو بینک آف انڈیا‘ نے انتخابی بانڈ اسکیم پر تنقید کی ۔ شفافیت کے لیے قومی سطح پر فنڈ قائم ہونا چاہیے،جس میں کوئی بھی چندہ دے۔ رقم کو سیاسی جماعتوں میں ملے ووٹوں کے تناسب میں تقسیم کیا جائے۔اس میں معطی کی شناخت پوشیدہ رہے گی۔اگر یہ ممکن نہیں تو پھر حکومت یہ خرچ اُٹھانے کی ہمت جٹائے۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ الیکشن کی آزادی اور غیرجانبداری کی راہ تو ہموار کرے گا ہی، سیاسی نظم کو بھی شفاف بنانے میں مددگار ثابت ہو گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS