عالمی نظام کی بے ضمیری اور اہل فلسطین کی استقامت: ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

دنیا کا کوئی بھی نظام ہو اس کی افادیت یا عدم افادیت کا فیصلہ اس وقت کیا جاتا ہے جب مسائل کی سنگینی کے موقع پر وہ اپنا کردار نبھاتا ہے۔ اس معیار پر اگر موجودہ عالمی نظام کو پرکھا جائے تو بلاشبہ اور ادنی تامل کے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ نظام جس کی قیادت امریکہ اپنے مغربی حلیفوں کے ساتھ مل کے کر رہا ہے نہ صرف بری طرح ناکام ہوچکا ہے بلکہ اس نے اپنی بے ضمیری اور بے ایمانی کا پختہ ثبوت پیش کیا ہے۔ موجودہ عالمی نظام جنگل کے قانون کی اتباع میں قائم کیا گیا ہے جہاں کمزوروں کے لئے کوئی جگہ نہیں رکھی گئی ہے۔ امریکہ و مغرب کی پشت پناہی اور بے روک ٹوک دفاع کی شہ پر اسرائیل نے غزہ و فلسطین کے ساتھ جس بربریت و وحشت کا مظاہرہ گزشتہ 75 برسوں میں کیا ہے اور لگاتار تاہنوز جاری ہے اس سے بس یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہاں جنگل کا وہ قانون نافذ ہے، جس میں مضبوط و طاقتور اور خوں خوار جانور اپنی قوت کے نشہ میں کمزور و بے بس جانوروں کا شکار کرتا ہے اور اسے زندگی کی ڈور سے کاٹ دیتا ہے اور کوئی چیز اس کے لئے مانع نہیں ہوتی ہے۔ وہاں صرف قوت کا معیار ہی کام کرتا ہے۔ یہی نظام سمندر میں جاری رہتا ہے جہاں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کا شکار کرتی ہیں۔ کہنے کو تو اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ ہے جہاں 192 اراکین اپنی باتیں کہنے کا حق رکھتے ہیں، عالمی عدالت قائم ہے جہاں حق و ناحق کے فیصلہ کا تماشہ چلتا ہے، عالمی میڈیا ہے جس میں حقیقت سے پردہ اٹھانے اور مظلوموں کے حق میں مضبوطی سے آواز بلند کرنے اور انہیں انصاف دلانے کے دعوے کئے جاتے ہیں، لیکن ان اداروں کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے اور ان کی اصل روح کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اندازہ ہوگا کہ چند طاقت ور اور شہ زور اوباشوں کا ایک یہ ایسا کلب ہے جس میں کمزور اراکین کو صرف تماشائی کے طور پر شامل کرلیا گیا ہے۔ آپ اقوام متحدہ کو ہی لے لیجئے۔ اس کی اصل حیثیت اور حقیقت اس کے سوا بھلا کیا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، روس، چین اور فرانس جیسے چاہیں اس کا استعمال کریں کیونکہ ان کے ہاتھ میں ویٹو نام کی وہ کلید ہے جس سے وہ اپنے اور اپنے حلیفوں کے لئے جو دروازہ چاہیں کھول لیں اور جس دروازہ کو چاہے بند کردیں۔ فلسطین کے مسئلہ پر دنیا نے بار بار اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوتریس کی بے بسی کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ جب انٹونیو گوتریس نے اہل غزہ کے ساتھ روا رکھی جا رہی درندگی پر اپنی رائے دی اور اسرائیل کے جرائم کو آشکار کیا تو اسرائیلی نمائندہ کو اتنی جرأت ہوگئی کہ اس نے سکریٹری جنرل کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا اور سخت قسم کا دباؤ ان پر بنایا گیا کہ وہ اپنے بیان کو واپس لیں۔ ظاہر ہے کہ اس میں یہ جرأت اسی لئے پیدا ہوئی کہ اس کو معلوم ہے کہ جنگل کا راجہ میرا حامی ہے۔ یہی حال اقوام متحدہ کے ادارہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کیا گیا ہے جو مستقل دنیا کو باخبر کر رہا ہے کہ اسرائیلی بمباری میں شدید طور پر زخمی ہونے والے عام لوگوں تک دوا و علاج کی سہولیات مہیا نہیں ہو پارہی ہیں، ڈاکٹروں، نرسوں، مریضوں یہاں تک کہ خود ہاسپیٹلوں تک کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ ادارہ مسلسل بتا رہا ہے کہ معمولی علاج کے وسائل سے بھی فلسطینیوں کو محروم کیا جا رہا ہے اور غزہ میں کوئی ایک انچ زمین بھی وہاں بسنے والوں کے لئے محفوظ نہیں چھوڑی گئی ہے، لیکن کچھ اثر نہیں ہوا۔ حقوق اطفال کے تحفظ کے لئے کام کرنے والا ادارہ یونیسیف نہ جانے کتنی بار یہ گْہار لگا چکا ہے کہ بچوں کی حفاظت کا انتظام کیا جائے کیونکہ ہر دس منٹ میں ایک بچہ موت کا شکار بنایا جا رہا ہے اور جو بچے زندہ ہیں وہ بھوک سے مرنے کے دہانے تک پہنچ چکے ہیں لیکن ان تمام اپیلوں، گزارشوں اور التجاؤں کا اس عالمی نظام کے ٹھیکیداروں پر ایک ذرہ بھر کا اثر اب تک نہیں ہوا ہے۔اس کے برعکس جب اسرائیل نے UNRWA (اونروا) پر جھوٹا الزام بغیر کسی ثبوت کے یہ عائد کیا کہ اس کے 13 ملازمین بھی 7 اکتوبر کے حملہ میں حماس کے ساتھ تھے اور اسی لئے اس کی فنڈنگ پر روک لگائی جائے تو اور امریکہ اور یوروپ کے بعض ممالک نے بالکل تاخیر نہیں کی اور دوسرے ہی دن سے اونروا کو فنڈ دینا بند کر دیا، حالانکہ انہیں خوب معلوم ہے کہ فلسطین کے بکھرے ہوئے پناہ گزینوں کے لئے اونروا کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے، لیکن چونکہ وہ اسرائیل کے پلان کو آنکھ بند کرکے نافذ کرنے میں یقین رکھتے ہیں اس لئے اس معاملہ میں بھی اسرائیل کے ساتھ چلے گئے اور فلسطینیوں کو بھوکا مارنے کے اسرائیلی منصوبہ میں اپنی شراکت درج کرالی اور اپنی بے ضمیری اور انسانیت کشی کا ایک اضافی ثبوت پیش کر دیا۔ جن ملکوں نے اونروا کو فنڈ دینا بند کیا ہے ان میں امریکہ، جرمنی، سویزرلینڈ، کناڈا، برطانیہ، اٹلی، آسٹریلیا اور فن لینڈ سر فہرست ہیں۔ حالانکہ اقوام متحدہ نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ جن ملازمین پر اسرائیل نے الزام لگایا ہے ان کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے اور تحقیق جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ نے سخت حیرت و استعجاب کا اظہار کیا کہ ایسے شدید انسانی بحران کے وقت بعض مغربی ممالک نے اس سرعت کے ساتھ اونروا کی فنڈنگ بند کیسے کر دی؟ اونروا نے لاکھ اپیلیں کیں کہ فنڈنگ نہ روکی جائے ورنہ صورتحال بدتر ہوجانے کا خطرہ ہے کیونکہ اونروا کے پاس جو وسائل ہیں وہ مارچ تک ختم ہوجائیں گے۔ البتہ اس گزارش کو نظر انداز کر دیا گیا اور لاکھوں اپیلوں کی طرح اس اپیل کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا اور تادم تحریر یہ دل دوز خبر آ چکی ہے کہ دو سالہ فلسطینی بچہ بھوک کی وجہ سے تڑپ کر مر چکا ہے۔ حالات اس قدر ناگفتہ بہ ہیں کہ پانچ پانچ سال کے نونہال زندگی کے مقابلہ موت کی تمنا کرنے لگے ہیں۔ آپ ذرا تھوڑی دیر اس مسئلہ پر رک کر غور کیجئے کہ آخر اس عالمی نظام کی بے ضمیری کس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اونروا کے 13 ملازمین میں سے چند لوگوں پر حماس کے اراکین ہونے کا الزام اسرائیل لگاتا ہے جبکہ اس کا کوئی ثبوت بھی پیش نہیں کیا جاتا ہے اس کے باوجود پورے اونروا کے وجود کو مجرم بنا دیا جاتا ہے اور فنڈنگ روک دی جاتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں دنیا کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں عوام نے سڑکوں پر اتر کر مہینوں تک یہ مطالبہ نہ کیا ہو اور آج بھی کر رہے ہیں کہ فوراً جنگ بندی کا اعلان کیا جائے کیونکہ معصوموں کا قتل عام ہو رہا ہے، لیکن اس آواز کو قابل اعتناء نہیں سمجھا گیا۔ اسرائیل کے ہاتھوں معصوم فلسطینیوں کا قتل عام ایسا واضح مسئلہ جس میں ثبوت کی کوئی کمی نہیں ہے۔
جنوبی افریقہ نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کو باضابطہ ڈھنگ سے تمام ثبوت بھی فراہم کروائے اور عدالت نے اسرائیل کو حکم بھی دیا کہ وہ قتل عام کی روک تھام کا انتظام کرے لیکن جنگل کے قانون پر مبنی عالمی نظام اس قدر اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوگیا ہے اور اس کی بے ضمیری اس درجہ تک پہنچ گئی ہے کہ اس میں انسانیت نوازی اور عدل گستری کے سارے سوتے خشک ہوگئے ہیں اور اسی لئے ظلم و خون میں ڈوبے اسرائیل کے ہاتھوں کو روکنے کا کوئی انتظام کرنے کے بجائے دائرۂ قتل و خون کو بڑھانے میں اس کا ساتھ دینے کا اعلان کیا گیا۔ کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ مغرب کا عالمی نظام صرف اہل مغرب کے مفادات کے تحفظ کے لئے بنایا گیا تھا جس میں کمزور ملکوں اور طبقوں کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے؟ حقائق تو اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ ایک عالمی نظام نہیں بلکہ مغرب کا ’پاور کلب‘ ہے جہاں قانون کے بجائے ڈنڈہ کا زور چلتا ہے۔ مغربی نظام کی گرفت ہر شئی پر اتنی مضبوط بنائی گئی ہے کہ صرف انہی آوازوں کو باہر آنے کی اجازت ہے جو مغربی نظام کے کانوں کو مانوس لگے اور جن سے اس کی بے پناہ وحشیت کو عظمت کا احساس پیدا ہو۔ اس کے علاوہ اگر کوئی آواز مظلوم کے حق میں اٹھ جائے تو اس کو گھونٹ دینے کا پورا انتظام کیا گیا ہے۔ اس کا مظاہرہ امریکہ نے اپنے جمہوری نظام کے مرکز تک میں کیا ہے جہاں امریکی عوام کے ذریعہ منتخب نمائندہ فلسطینی نژاد امریکی رشیدہ طلیب کی آواز کو گھونٹ دیا گیا۔ یہی حال مغربی میڈیا اور وہاں کی بڑی ٹکنالوجی کمپنیوں کا ہے جو ظلم و جور میں اپنے سیاسی آقاؤں کے بالکل نقش قدم پر گامزن ہیں اور غیر مغربی اقوامِ عالم کی آواز کو اپنی مرضی کے مطابق گھونٹ دیتی ہیں۔ لیکن کیا ایسا ہوگا کہ مستقبل کا مورخ جب ان حالات کی روداد آئندہ نسل کے لئے تیار کرے گا تو وہ بھی صرف مغرب کے عالمی نظام کی زبان میں اور اس کے دلائل کی ہی روشنی میں لکھے گا؟ کیا مستقبل کا مورخ اس واضح حقیقت کو نظر انداز کر دے گا کہ اس ’جنگلی نظام‘ میں بھی انسانی قدروں اور اعلی خوبیوں کی حامل ایک جماعت موجود تھی جس نے اپنی زمین، اپنی انسانیت، حق کی خاطر قربانی، مظالم کے سامنے سرنڈر کرنے کے بجائے خود اعتمادی اور ایمانی بلندی کی ایسی مثال قائم کی تھی کہ دنیا کی پوری انسانی تاریخ میں اس کا بدیل تلاش نہیں کیا جا سکتا؟ مجھے یقین ہے کہ مستقبل کا مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ امریکی و اسرائیلی ظلم و نا انصافی اور وحشت و بربریت کے اس طوفان میں بھی اہل غزہ نے استقامت کی شاندار مثال قائم کی تھی۔ یہی مثال دنیا کی حق پرست قوموں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگی اور انہی مزاحمت کاروں کے شوقِ جنوں سے آزادی و حریت کے نئے ترانے لکھے جائیں گے جن کو گاکر مظلوم قومیں نئی قوت و حوصلہ حاصل کریں گی اور ایک نیا عالمی نظام قائم کریں گی جو ظلم و بربریت کے بجائے عدل و انسانیت پروری کے عناصر سے عبارت ہوگا۔ اکیسویں صدی میں اہل فلسطین یقینا اس راہ کے سرخیل اول تسلیم کئے جائیں گے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS