ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندویؔ
مولانا آزاد 11نومبر1888ء کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ان کا تاریخی نام فیروز بخت، اصل نام محی الدین احمد، کنیت ابوالکلام اور تخلص آزاد تھا۔آپ کے والد محترم مع اہل و عیال بغرضِ علاج مکہ سے ہجرت کرکے کلکتہ چلے آئے تھے اور کلکتہ ہی میں مستقل قیام رہا۔ اس لئے مولانا آزاد نے اپنی تعلیمی و سیاسی سرگرمیوں کا مرکز کلکتہ ہی کو بنایا ، اس طرح آپ کا علمی و سیاسی سفر 15 سال کی عمر میں جریدہ ’’لسان الصدق‘‘جاری کرکے ہوتا ہے ، یہ رسالہ اپنی طرز کا انوکھا اور بے مثال جریدہ تھا جس کی تعریف مولانا الطاف حسین حالی نے بڑے انوکھے انداز میں کی ہے۔
مولانا آزاد کی شخصیت اتنی کثیرالجہت اور ہمہ گیرو عالمگیر ہے کہ کسی شخص کیلئے آپ کی زندگی کا مکمل احاطہ کرنا بڑا مشکل ترین امر ہے آپ کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ ذہانت و فطانت عطا فرمائی تھی ایک طرف آپ دینی و عصری علوم کا بحر ذخار تھے تو دوسری طرف ایک مایہ ناز شاعر تھے آپ کی ادبی خدمات کی وجہ اردو دنیا پر رہتی دنیا تک آپ کا احسان رہے گا آپ ایک بہترین قلم کار انشاء پرداز اور سلیم الفطرت شخصیت کے حامل انسان تھے ، آپ ایک بہترین سیاست داں تھے اور سیاسی بصیرت میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے یہ آپ کی سیاسی سوجھ بوجھ ہی کا نتیجہ تھا کہ گاندھی جی اور جواہر لعل نہرو جیسے سیاست داں آپ کی بڑی قدر کرتے تھے اورآپ کوکانگریس کیلئے ریڑھ کی ہڈی سمجھتے تھے چنانچہ جب ملک عزیز کو فرنگیوں کے ظالم ہاتھوں سے آزادی نصیب ہوئی اور ملک کے لوگوں پر اپنے ملک کا قانون نافذ ہوا تو آپ کو ملک کا پہلا وزیرِ تعلیم نامزد ہونے کا شرف حاصل ہوا 15؍اگست 1947ء تا یکم فروری 1958ء تک آپ اس عہدہ پر فائز رہے ، وزارتِ تعلیم کے عہدہ پر متمکن ہونے کے بعد بطور خاص تعلیمی میدان میں آپ کی سرگرمیاں بڑھ گئیں ، اور ممکنہ حد تک باشندگانِ ہند کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر دامن گیر رہتی تھی اور خاص طور پر مسلم معاشرہ میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے کیلئے آپ نے بڑی جد و جہد کی اور مسلسل ان کی توجہ تعلیم کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے رہے ، جہاں تک تعلیم نسواں کی بات ہے تو آپ اس پر بہت زور دیا کرتے تھے کہ حدود میں رہتے ہوئے خواتین کیلئے بھی یکساں طور پر تعلیم کا نظم ہونا چاہئے اور انہیں بہتر سے بہتر تعلیم سے مزین کرنا چاہئے اور تاریکی و جہالت سے باہرآنا چاہئے۔
عصری علوم کو جزو لاینفک کے درجہ میں شمار کرتے تھے اور بالخصوص تعلیم صنعت و حرفت پر خوب زور دیا کرتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ آپ نے مختلف تعلیمی و تحقیقی مراکز قائم کئے جو آج بھی ملک میں موجود ہیں ، اس طرح آپ اپنی قوم کو تعلیم کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے اور بڑھانے کی کوشش میں لگے رہے ، آپ نے ترقی و زوال کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کے بعد کہا تھا کہ ہر حال میں سب سے ضروری کام عوام کی تعلیم ہے جس سے ہم دورہیں۔
جنگ آزادی میں آپ کا کردار بہت نمایاں نظر آتاہے ، تاریخ جنگ آزادی آپ کے ذکر کے بغیر ناقص ہے ، جس کیلئے آپ کی ایک بڑی اور اہم کوشش ہندو مسلم کے درمیان اتحاد کی رہی ہے ،آپ ہندو مسلم اتحاد کے علم بردار تھے جس کیلئے زندگی بھر کوشش کرتے رہے۔تقسیم ہند کے وقت فرقہ وارانہ کشیدگی اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی آپ نے اس کشیدگی کو دور کرنے کیلئے بہت اہم اقدامات کئے۔
بہت سارے حالات سے گزرنے اور تجربہ و مشاہدہ کے بعد آپ نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا ،اگر دنیا دس ہزار سال یا دس لاکھ سال مزید قائم رہے پھر بھی اس ملک سے دو چیزیں ختم نہیں ہوں گی، ایک تو ہندو قوم کی تنگ نظری ، دوسرے مسلمان قوم کی اپنے سچے رہنماؤں سے بد گمانی جس کا مشاہدہ ہم آج بھی کر رہے ہیں ،مولانا آزاد ایک ہمہ گیر ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے ، یہ شخصیت مختلف پہلوؤں پر محیط تھی، ان کی زندگی مختلف اور متضاد حیثیتوں میں منقسم نظر آتی ہے، وہ بیک وقت بے باک مجاہد آزادی ہیں ،مصنف بھی ہیں، عظیم خطیب بھی ہیں، مفکر بھی ہیں، فلسفی بھی ہیں، ایک طرف ادب کے شہسوار ہیں تو دوسری طرف ماہر عالم دین ، ان تمام خوبیوں کے ساتھ ایک عظیم قومی لیڈر اور سیاسی میدان کے شہنشاہ ہیں۔ مختصراً اگرہرفن مولا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ، آپ کی ایک خاصیت تھی کہ شرعی معاملات کو چھوڑ کر دیگر معاملات میں تقلیدی اور رواجی ذہن نہیں رکھتے تھے بلکہ تخلیقی ذہن کے مالک تھے۔
مختصراً آپ نے تقریباً ہر میدان میں اپنے نقوش چھوڑے ہیں خواہ وہ شعر گوئی ہو یا نثر نویسی ، تقریر و خطابت ہو یا تصنیف و تالیف ، سیاسی میدان ہو یا علمی میدان الغرض آپ کی شخصیت مختلف پہلوؤں پر محیط ہونے کی وجہ سے اس مختصر تحریر میں احاطہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
تاریخ 22 فروری 1958کو ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کے سب سے اہم رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کا انتقال ہوگیا۔ قوم کیلئے ان کی انمول شراکت کے لئے، مولانا ابوالکلام آزاد کو 1992 میں ہندوستان کے سب سے بڑے شہری اعزاز، بھارت رتن سے نوازا گیا۔
مولانا مذاہب کے باہمی وجود پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ ان کا خواب ایک متحد آزاد ہندوستان کا تھا جہاں ہندو اور مسلمان پر امن طور پر شریک تھے۔ اگرچہ آزاد کا یہ نظریہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد بکھر گیا تھا جس کاآپ کوبہت صدمہ تھاجس کااظہار آپ نے اپنی جامع مسجد دہلی کی تقریرمیں بڑے دردکے ساتھ کیا ہے، اس خواب کے بکھرنے کے بعد بھی آپ مایوس نہیں ہوئے بلکہ مستقل آپ قوم و ملت کی ترقی کے لئے کوشاں رہے۔ وہ دہلی میں جامع ملیہ اسلامیہ انسٹی ٹیوشن کے بانی تھے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلمانوں کے رہنما بھی تھے۔ ان کی سالگرہ، 11 نومبر، ملک میں قومی یوم تعلیم کے طور پر منائی جاتی ہے۔
مولانا آزادؒ کے نظریات اور ہندوستان کے موجودہ حالات : ڈاکٹرمحمدسعیداللہ ندویؔ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS