عبدالماجد نظامی
امین سیانی (1932-2024)کی پیدائش مہاراشٹر کے شہر بمبئی میں ہوئی تھی لیکن ان کا گھرانہ اصلاً گجرات سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کے والد جان محمد سیانی تھے جبکہ والدہ کا نام کلثوم سیانی تھا۔ ان کے والد جان محمد سیانی پیشہ سے ڈاکٹر تھے جبکہ ان کی والدہ کلثوم سیانی نہ صرف مجاہدآزادی تھیں بلکہ گاندھی جی کے اصولوں اور ان کی قیادت سے گہرے لگاؤ کی وجہ سے گاندھی جی سے قربت رکھتی تھیں۔ ان کی والدہ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ’’رہبر‘‘ نامی رسالہ بھی شائع کرتی تھیں جس میں وہ ’’ہندوستانی‘‘کا استعمال کرتی تھیں۔ یہ ایک ایسے دور کی بات ہے جب ہندی اور اردو کا جھگڑا شروع ہوگیا تھا اور ایک زبان کو دوسری زبان پر فوقیت دینے والے عناصر پنپ رہے تھے۔ ایسے وقت میں ہندوستان کے لوگوں کو مربوط رکھنے اور انہیں محبت و یگانگت کے دھاگے میں پروئے رکھنے کا یہ ایک اچھا طریقہ تھا کیونکہ ’’ہندوستانی‘‘ میں ہندی اور اردو دونوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گاندھی جی نے کلثوم سیانی کے رسالہ ’’رہبر‘‘اور اس کے مشن کی بڑی تعریف کی تھی اور باضابطہ خط لکھ کر کلثوم سیانی کی ان کوششوں کو سراہا تھا۔ امین سیانی اسی ماں کی گود میں پلے بڑھے اور تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوئے۔ وہ فطری طور پر ایسے ہندوستان کے امین تھے جس میں ملک اور سماج کو جوڑنے، زبان و تہذیب کو پروان چڑھا کر اہل وطن کو قریب لانے اور ذیلی اختلافات کو پس پشت ڈال کر اعلیٰ مقاصد کے لیے ذہن و دماغ کو تیار کرنا جیسی قدروں کو فروغ دینے کی بات کہی جاتی تھی۔ امین سیانی نے گرچہ تاریخ کے موضوع پر بمبئی یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی لیکن ان کا اصل ذوق و شوق زبان و ادب سے وابستہ تھا۔ جب وہ بالکل نوعمر تھے اور ابھی عین شباب کی دہلیز پر قدم نہیں رکھ پائے تھے، اس وقت بھی وہ اپنی والدہ کے رسالہ کی تیاری میں مدد کیا کرتے تھے۔ ان کی والدہ نے ان کی جو پرورش و پرداخت کی تھی، اس میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بقاء باہم کے گراں قدر اصولوں کو خاص اہمیت دی گئی تھی۔ امین سیانی نے اپنے والدین سے ملی وراثت کی مکمل آبیاری کی اور اسے ایسی بلندی تک پہنچا دیا کہ جدید ہندوستان کی تاریخ میں ابھی تک کسی کو وہ مقام نصیب نہیں ہوا ہے۔ یہ مقام انہیں اس ریڈیو پروگرام سے ملا جس کو ہندوستان کا ہر ذی شعور انسان ’’بناکا گیت مالا‘‘ کے نام سے جانتا اور پہچانتا ہے۔ امین سیانی نے 1952 میں اس پروگرام کا آغاز کیا تھا جس میں وہ بالی ووڈ کے مشہور و معروف فلمی نغموں کو پیش کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اس پروگرام کو سب سے پہلے ’’ریڈیو سیلون‘‘ سری لنکا سے نشر کرنا شروع کیا تھا۔ ’’ریڈیو سیلون‘‘ کو دنیا کے سب سے قدیم ریڈیو اسٹیشنوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ’’آل انڈیا ریڈیو‘‘ پر انہوں نے جب اپنا پروگرام نشر کرنا شروع کیا تو اس وقت کے وزیر ابلاغ نے یہ کہہ کر اس کو بند کروا دیا تھا کہ اس میں بے حیائی اور مغربیت کی چھاپ پائی جاتی ہے۔ یہ دور آزادی کے فوراً بعد کا تھا، اس لیے مغربیت کی معمولی جھلک بھی ناگوار گزرتی تھی کیونکہ برطانوی سامراج کے بوجھ سے ہندوستان نیا نیا آزاد ہوا تھا اور طویل سامراجی ثقافت کے غلبہ سے ملک کو آزاد کرنے کا سلسلہ ابھی جاری ہی تھا۔ بہرکیف 1989میں اسے دوبارہ ’’آل انڈیا ریڈیو‘‘سے نشر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور آخر کار 1994 میں بند ہوگیا۔ لیکن جب تک یہ پروگرام چلتا رہا، اس کے شائقین کی اتنی بڑی تعداد ملک اور بیرون ملک پائی جاتی تھی کہ اس کا کوئی حساب و کتاب تیار نہیں کیا جا سکتا۔ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امین سیانی اپنی دلکش آواز، بے مثال طرز گفتگو اور رنگ و آہنگ میں ڈوبے نغموں کے انتخاب سے پورے ملک کو زبان و ادب اور مشترک تہذیبی اثاثہ کے تحفظ کا درس دیتے رہے۔ ان کا یہ کام کس قدر اہمیت رکھتا ہے، اس کا اندازہ تو بہتر طور پر وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے ہندوستان کی دونوں تصویروں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ایک ہندوستان وہ تھا جس میں زبان کبھی تقسیم و تنفر کے لیے استعمال نہیں کی جاتی تھی بلکہ اس کو ہمیشہ باہمی رابطے اور وسیلے کے طور پر ہی دیکھا جاتا تھا۔ امین سیانی کی اپنی زندگی بھی خود انہی عناصر سے عبارت تھی۔ وہ گجراتی زبان بولنے والے خاندان میں پیدا ہوئے لیکن پرورش مراٹھا تہذیب کے مرکز میں پائی اور انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کی تھی۔ البتہ جب اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا تو اردو، ہندی اور ہندوستانی کا استعمال کیا اور دلوں پر راج کرنے لگے۔ یہی اس ملک کی روح ہے۔ تنوع اور تہذیبی تکثیریت اس کی رگ رگ میں ودیعت ہے۔ جو شخص بھی ہندوستان کو اس کی اس روح سے جدا کرنے کی کوشش کرے گا اور اسے ایک خاص رنگ میں رنگنے کی بیجا سعی کرے گا، وہ اس عظیم ملک کی روح کو اذیت پہنچانے کا کام کرے گا۔ امین سیانی نے اپنی زندگی سے یہ ثابت کیا کہ مشترک ہندوستانی تہذیب کی پاسبانی کا کردار ہر حال میں کس خوبی سے نبھایا جا سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ امین سیانی کو اپنی زندگی کے آخری ایام میں اس بات کا قلق ضرور رہا ہوگا کہ اپنے محبت بھرے نغموں کی حیات بخش برسات سے جس ملک کو وہ کئی دہائیوں تک سیراب کرتے رہے تھے، اس میں اب فرقہ واریت کا ایسا زہر گھول دیا گیا ہے جس سے جانبر ہو پانا بہت مشکل لگ رہا ہے۔ یہ مقدر بھی امین سیانی کا ہی ہونا تھا کہ وہ گاندھی جی کے عہد میں ان کے اصولوں پر کاربند گھرانہ میں پلے بڑھے لیکن جب اس دار فانی سے رخصت ہوئے ہیں تو گوڈسے کا نظریہ گاندھی اصولوں پر فتح پا چکا ہے۔ امین سیانی واقعی ایسی تہذیبی علامت تھے جن کے جانے کا دکھ ہمیشہ رہے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]
امین سیانی مشترک ہندوستانی تہذیب کے امین تھے : عبدالماجد نظامی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS