پروفیسر اسلم جمشید پوری
آج کے حالات کا جائزہ لیں۔آج ایک بار پھر ویسے ہی حالات ہیں،جس نے سید احمد جیسے شخص کو سر سید بنایا۔ جس نے پوری قوم،یہاںقوم سے مراد ہندوستان ہے،کو تعلیم کی طرف راغب کیا۔ملک کی ترقی کے لیے کالج اور یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔دشمن کو سمجھا،پرکھا۔اس کی طاقت اور کمزوری کا پتہ لگایا۔اس کی ترقی کا راز پایا۔پوری دنیا پر حکومت کرنے کے اسباب و علل کا پتہ لگایا۔اس کے بعد اس ملک کے نو جوانوں کو تعلیم کی طرف گامزن کیا۔انہیں تعلیم کی اہمیت بتائی۔حکمت اور وقت کے تقاضے کے عین مطابق خود کو اور ملک کے نوجوانوں کے اندر انتقام کی آگ کو ایک سمت دی۔قوم اور ملت کو صبر کرنے اور مناسب وقت کے انتظار کی تلقین کی۔
سر سید نے اس وقت یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ ہندوستان کی سب سے بڑی طاقت آپسی اتحاد ہے۔ہند و-مسلم اتحاد کے بل بوتے ہی ہم ہندوستانیوں نے پہلی جنگ آزادی کی منصوبہ بندی کی تھی۔منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ہم ہندوستانیوں نے مل کر اس پر عمل بھی کیا تھا۔ ایک بار کو برٹش انڈیا حکومت ہل گئی تھی اور انہیں ایسا لگنے لگا تھا کہ ہندوستان چھوڑ کے جانا ہوگا۔ یہ ہمارے اتحاد کا ہی کمال تھا۔اسی لیے سر سید نے پورے ہندوستان کو ایک نئی نویلی دلہن سے تشبیہ دی اور کہا کہ ہندو ستان ایک نویلی دلہن ہے اور ہندو مسلم اس کی دو آنکھیں ہیں۔دلہن کی اگر ایک آنکھ بھی خراب ہو جائے تو دلہن کانی ہوجائے گی۔یعنی دلہن کا حسن داغدار ہوجائے گا۔ ہندوستان کی دلکشی اور خوبصورتی امن و امان میں ہی ہے۔
ہندوستان دنیا میں اپنی الگ شناخت رکھتا ہے۔تعلیم کے معاملے میں ہندوستان پرانے زمانے سے ہی اپنی مضبوط و مستحکم پہچان رکھتا ہے۔سر سید نے ایک ایسی درسگاہ کی بنیاد رکھی،جس نے آگے چل کر تعلیمی اداروں کے لیے ایک نمونے کا کام کیا۔پورے ہندوستان میں تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آنے لگا۔ہندوستانیوں میں تعلیم کے تئیں دلچسپی اور لگن میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا،جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد تعلیم سے آراستہ ہو کر عملی میدان میں آنے لگے، جنہوں نے اپنے ملک کی جنگ ِآزادی کی باگ ڈور تھام لی اور انگریزوں کے دانت کھٹے کر دیے۔غور کریں اور سنجیدگی سے سوچیں تو ان سب کے پیچھے آپ کو سر سید کی حکمت،مصلحت اور فکرمستقبل نظر آئے گی۔ سرسید نے اے ایم یو کا جوخواب دیکھا تھا،اس نے عملی تعبیر پیش کی۔راجہ رام موہن رائے،سرسید،دیانند سرسوتی،وویکا نندوغیرہ نے جدید ہندوستان کی بنیاد رکھی تھی، آج ہم ماڈرن انڈیا کی بات کرتے ہیں۔ سرسید جیسے تعلیمی اور سماجی رہنمائوں نے عملی طور پر اس ملک کی حالت بدل کر انقلاب پیدا کیا،جس کے باعث ہم نہ صرف آزاد ہوئے بلکہ چاند،ستاروں اور سورج پر کمندیں ڈال رہے ہیں۔سرسید نے آج سے دو صدی قبل سائنس کی بات کی تھی، جب عام طور پر لوگ سائنس کے بارے میں جانتے بھی نہیں تھے۔سر سید کے سائنسی نظریے کے بارے میں افتخار عالم خاں اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔
’’ سرسید نے تجرباتی سائنس کے میدان میں پیش رفت کی خاصی کوشش کی تھی،جن میں تجرباتی زراعت کاشعبہ قائم کرنااور تجربات کر کے دکھلانے کے لیے ایک عمدہ لیبارٹری کا قیام،اہم اقدام تھے۔سر سید نے 1864میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کرنے کے بعد جدید علوم(بشمول نیچرل سائنس)کی کتابوں کا ترجمہ ورناکیو لر(یعنی اردو)میں کرواکر شائع کرنا شروع کر دیا تھا۔‘‘ [ سر سید کی لبرل،سیکولراور سائنسی طرزِ فکر،افتخار عالم خاں، ص-146، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی،2018]
لندن کے سفر سے واپسی کے بعد سرسید نے قوم کا مزاج بدلنے اور ان میں اچھے اخلاق و کردار پیدا کر نے کے لیے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ نامی رسالے کا اجرا کیا۔اس رسالے نے اس زمانے میں قوم کوکاہلی،سستی،نا امیدی،مایوسی جیسی بیماریوں سے باہر نکالا اور ان میں حوصلہ، ہمت، بے باکی، امید اورآگے بڑھنے کی لگن پیدا کی۔یہ بات قطعی غلط ہے کہ انہوں نے ’ تہذیب الاخلاق ‘ صرف مسلمانوں کی تعلیم و ترقی کے لیے جاری کیا،انہوں نے عموماً ہندوستانیوں اور خصوصاً مسلمانوں کے لیے یہ پرچہ جاری کیا۔اس کی زبان اردو تھی،جو اس عہد کی عمومی زبان تھی اور عوام میں زیادہ لکھی، پڑھی اور بولی جاتی تھی۔اگر تہذیب الاخلاق صرف مسلمانوں کے لیے ہوتا تو اس کی زبان قرآن و حدیث کی زبان،یعنی عربی ہوتی۔
سر سید کاسب سے بڑا انقلابی اقدام ’علی گڑھ تحریک ‘ تھا۔یہ ایک ایسا اقدام تھا،جس نے پورے ہندوستان کے ادب اور سماج کو متاثر کیا۔سر سید اور ان کے ساتھی،سب نے مل کر بامقصد ادب کی بنیاد رکھی۔ایساادب جو سماج میں اصلاح کرے نہ کہ بس حسین خواب دکھائے۔اسی لیے اس نے بہت ہی آسان اور قابلِ فہم زبان میں عوام کے سامنے اپنی بات رکھی۔انہوں نے پوری قوم کی بات کی۔سب کو قعرذلت سے نکالنے کی کو شش کی۔آج سر سید پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں صرف مسلمانون کی سماجی اور تعلیمی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کام کیے۔ایسا نہیں تھا،حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پورے ملک کی حالت کی بہتری کی کوشش کی۔اگر اسے ایک فیصد صحیح بھی مان لیا جائے تو جز کا خیال رکھنا،کل کا خیا ل رکھنا ہے۔جب جسم کے ایک خاص عضو کا حال اچھا ہوگا تو پورے جسم کی صحت اچھی رہے گی۔
سر سید نے کبھی فرقہ پرستی کو ہوا نہیں دی۔انہوں نے دیگر مذاہب (ہندو، سکھ، بودھ، جین) کا احترام کیا اور ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کو مذہب کے خانوں میں نہیں رکھا بلکہ ان کو ہندوستانی ہی سمجھا اور سب کی ترقی کے لیے کوشش کی۔بلکہ انہوں نے ہندوئوں کے بجائے مسلمانوں کو تعلیم کے لیے زیادہ خوار کیا۔
’’ ہمارے وطن کے ہندو اور کمبخت مسلمان بھائی اب تک کوئے جہالت میں پڑے ہیںاور ہماری آئندہ مدت تک پڑے رہیں،کہ پھر وقت اور زمانہ ان کی ترقی اور شائستگی کا باقی نہ رہے اور جو اب مرض ہے وہ علاج پذیر نہ رہے کیونکہ ان کو یعنی مسلمانوں کو جہل ِ مرکب نے گھیرا ہے۔‘‘ [مکاتیب سرسید احمد خان، مرتب : مشتاق حسین، ص-27، فرینڈس بک ہائوس،علی گڑھ،]
سرسید نے اے ایم یو کی بنیاد ایک مدرسہ،مدینۃالعلوم کی شکل میں 1875میں رکھی تھی۔یہاں کسی بھی مذہب کے ہندوستانی کے داخلے کی اجازت تھی۔سرسید نے ہندوئوں اور مسلمانوں دونوں سے مدرسے کے لیے چندہ لیا تھا۔مہا راجہ پٹیالہ نے مدرسے کو سالانہ چندہ دینے سے قبل مدرسے کا معائنہ کیا۔معائنے کے بعد جیسا سناتھاکہ مدرسے میں ہندو مسلمان کوئی بھی داخلہ لے سکتا ہے،ویسا ہی پایا اور ہر سال ایک خطیر رقم دیے جانے کا انتظام کیا۔
یہی نہیں سر سید خواتین کی تعلیم کے بہت بڑے حمایتی تھے،بلکہ انہوں نے خواتین کی تعلیم کے لیے عملی کوشش کی اور کافی جدو جہد کے بعد اس زمانے میں خواتین کی تعلیم کے لیے فضا سازگار کرسکے۔سر سید مغربی پردہ دار خواتین کی ہمیشہ قدر کرتے تھے۔انہوں نے عورتوں کی تعلیم پر انگریز دانشوروں کے کئی لیکچر کروائے جن کی رپورٹ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع ہوئی تھی۔وہ اپنے خطوط میں لکھتے ہیں۔
’’ پس ہندوستان میں ہندوئوں اور مسلمانوں کو کون منع کرتاہے کہ خود بلامداخلت لڑکیوںکے پڑھانے کا انتظام کریںاور تمام مذہبی اخلاق اپنے اپنے مذہب کو موافق تعلیم دیں۔کیا ہندوستان ایسا نہیں کرسکتا۔بے شک کر سکتا ہے۔ کسی طرح ان کاموں کے لیے بلکہ اور اس سے بڑے بڑے کاموں کے لیے وہ محتاج نہیں ہے،صرف شوق اور ہمت اور ارادہ چاہیے۔‘‘ [مکاتیب سرسیداحمد خان، مرتب : مشتاق حسین، ص-53، فرینڈس بک ہائوس،علی گڑھ،]
حکومت کے بارے میں ان کا خیال بالکل الگ ہے۔ وہ حکومت اور اس کے ذمہ داروں کو عوام کا نمائندہ مانتے ہیں،اسی لیے ان سے بہت ساری توقعات رکھتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ حکومت اپنی سلطنت میں رہنے والے باشندوں کی خیر خوا ہ ہوتی ہے۔اس پر عوام کے ہر طرح کے حقوق کی پاسداری فرض ہے،دراصل وہ عوام کے فروغ اور ترقی کی نہ صرف ذمہ دار ہوتی ہے بلکہ اس کا فرض عوامی فوائد کا تحفظ بھی ہے۔ایک جگہ وہ حکومت کے متعلق اپنی رائے رکھتے ہیں:
’’گورنمنٹ کا فرض یہ ہے کہ جن لوگوں پر وہ حکومت کرتی ہے، ان کے حقوق کاخواہ وہ حقوق مال و جائداد سے متعلق ہوں،خواہ کسب و پیشہ و معاش،خواہ آزادیٔ مذہب و آزادیٔ رائے اور آزادیٔ زندگی سے ان کی محافظ ہو،غیر مساوی قوتوں سے کسی کو نقصان نہ پہنچنے دے،کمزور اور مستحق کو،غیر مستحق زور آور سے پناہ میں رکھے۔‘‘ [ سر سید کی لبرل، سیکولر اور سائنسی طرزِ فکر،افتخار عالم خاں،ص-60،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی،2018]
درج بالا تمام باتوں کی روشنی میںجب ہم آج کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو آج کے زمانے میں سر سید جیسے باحکمت اور مصلحت پسند سیاسی،سماجی اور تعلیمی رہنما کی اشد ضرورت محسوس ہو تی ہے۔ سر سید تو نہیںمگر سر سید مشن ہمارے ساتھ ہے۔ موجودہ حالات بے حد خراب ہیں۔ مسلمانوں کا تشخص ختم کیا جارہا ہے۔مسجدیں مسمار کی جارہی ہیں۔مدرسے ڈھائے جارہے ہیں۔شہروں کے نام تبدیل کیے جارہے ہیں۔اقلیتی اسکیموں میں سے بعض کو ٹھنڈے بستے میں ڈالا جارہا ہے۔مسلم نوجوانوں کو کسی معاملے میں پھنسا کر طویل مدت تک جیل میں رکھا جارہا ہے۔مسلم کمپنیوں کے مالکان کو پریشان کیا جا رہا ہے۔وہ تعلیمی ادارے جن کو ہم نے بنایا تھا،ان پر کسی نہ کسی بہانے تعلیمی نظام کو درہم برہم کیا جارہا ہے۔فسادات میں دونوں فریقین کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلایا جارہا ہے۔مسلمانوں سے فسادات میں ہوئے سرکاری نقصان کی بھر پائی کی جارہی ہے۔اذان پر یا تو پابندی یا اسپیکر کی آواز کم کرائی جارہی ہے۔مسجد احاطے یا بالکل سامنے ہنومان چالیسا پڑھنے کی اجازت عدالتیں یا مقامی انتظامیہ دے رہی ہے یا مخالفین کو منع کرنے کے بجائے،انہیں شہ دے رہی ہے۔
ان حالات میں اگرسر سیدہوتے تو کیا کرتے؟اول تو سرسید حالا ت کا جائزہ لیتے۔دوم حکومت سے حکمت اور مصلحت سے بات کر تے۔یہ ملک مخلوط آبادی والا ملک رہا ہے۔کثرت میں وحدت ہندوستان کی بڑی خوبی رہی ہے۔ سر سید اس ملک کی 30کروڑ آبادی کو سمجھاتے کہ یہ ملک جتنا اُن کا ہے،اس سے کم تمہارا نہیں ہے۔اس ملک کی ترقی میں حصہ لو۔تعلیم،سائنس،فلسفہ،ایجادات سے اس کی شان بڑھائو۔ تعلیمی ادارے بنائو اور تعلیم کو بطور ہتھیار اپنا لو۔ موجودہ تعلیمی فیصد سے دوگنا فیصد کرنے سے ہی بچوں کا اور اس دیش کا مستقبل محفوظ رہے گا۔ اپنے تشخص کے ساتھ تعلیم اور ترقی کی طرف دھیان دینا چاہیے۔ مساجد، مدرسوں، قبرستانوں اورتعلیمی درسگاہوںکے تحفظ کے لیے ملک گیر پیمانے کی ایک تنظیم بنائی جائے۔یہ تنظیم ملک گیر پیمانے پر کام کرے اور ملک کے مسلمان متحد ہو کر ہر مصیبت اور پریشانی کا سامنا کریں۔یہی سر سید کا مشن ہے اور وقت کا تقاضا بھی۔
[email protected]