شاہنواز احمد صدیقی
امریکہ کے صدرجوبائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم کے درمیان اختلافات سے سب واقف ہیں۔ 7اکتوبر سے قبل جوبائیڈن اورنتن یاہو کے درمیان ملاقات مسلسل ٹلتی رہی اوراب جو صورت حال ہے اور اس قدر غیر یقینی ہے کہ نتن یاہو بالکل قابو سے باہر ہیں۔ اسرائیل نے امریکہ اور مغرب کی فلسطینی ریاست کی تجویز کو مسترد کردیا ہے۔ نتن یاہو کو بھروسہ ہے کہ پوری دنیا ان کی انگلی پرناچ رہی ہے اور اسی وجہ سے وہ اقوام متحدہ اوراس سے وابستہ تمام اداروں کے موقف، بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھ رہے ہیں۔ وہ کسی کی بھی نہیں سن رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک پوری طرح اسرائیل کو براہ راست یا بالواسطہ مددپہنچارہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں اقتدار کی لگام ہے اور وہ7اکتوبر سے فلسطینیوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مار رہے ہیں اور جو بچے ہوئے ہیں، ان کے سر پر ہروقت موت کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اس پوری صورت حال میں امریکہ اور امریکہ کی موجودہ قیادت کی پوزیشن بہت زیادہ خراب ہے۔ امریکہ کے صدر جوبائیڈن لگاتار اور بہت سخت انداز سے اسرائیل کی قیادت کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ غزہ میں اندھادھند بمباری بند کرے مگر اسرائیل کی قیادت ان کی بالکل نہیں سن رہی ہے۔عربوں اور عالمی برادری کی نکتہ چینی کے باوجود امریکہ اسرائیل کو ہر قسم کی مدد پہنچا رہا ہے۔ امریکی سیکورٹی کے ترجمان جان کربی نے ابھی بھی اسرائیل کویقین دلایا ہے کہ اسرائیل کی سیکورٹی ضرورتوں کے لیے ان کا ملک ’سرخ لکیر‘نہیں کھینچ رہا ہے۔ یہی موقف فساد کی اصل جڑ ہے۔ اپنی معتبریت کھونے کے باوجود امریکہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ مصالحت کے لیے ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ دوروز قبل اردن کے فرمانروا شاہ عبداللہ (دوم) کے ساتھ بات چیت میں انھوں نے ایک آزاد خودمختارفلسطینی ریاست کے قیام کی بات کہی ہے۔ مگر جس دن وہ اس بابت وہائٹ ہاؤس میں اپنا موقف رکھ رہے تھے تودوسری جانب اسرائیل کی کابینہ اور پوری اسرائیلی قیادت قیام امن فارمولے کو مسترد کررہی تھی۔
امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن بھی درپردہ اور کھلے عام اسرائیل کی قیادت کو بار بار ٹوک رہے ہیں کہ وہ ظلم اوربربریت سے باز آئے مگر ساتھ ساتھ وہ اسرائیل کو ہتھیار، اخلاقی حمایت اور مالی مدد فراہم کررہے ہیں۔ اسرائیل کوہتھیاروں کی سپلائی نہ ٹوٹے، وہ یمن کے حوثیوں کو سبق سکھانے کے لیے تقریباً ایک درجن ملکوں کے اتحاد کے ساتھ بحراحمر میں جنگی مہم چلائے ہوئے ہے۔دوسری جانب لبنان میں ایک ایسا آتش فشاں تیار ہوگیا ہے جس کی تپش دور تک محسوس کی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ میں انتخابات کی گہماگہمی تیزہوچکی ہے۔ مسلم اور عرب دنیا کا امریکہ اورموجودہ عالمی نظام میں اعتماد ٹوٹا ہے۔ اسرائیل کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ موجودہ امریکی قیادت اپنی امیج بچانے اور امریکہ کی پوزیشن اپنی پوزیشن بنانے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ اسی بے یقینی کی صورت میں اسرائیل کے لیے ضروری نہیں کہ وہ امریکہ کی قیادت یا کسی دوسری عالمی ادارے کی رائے یاناراضگی کو اہمیت دے ، مگر ان حالات میں امریکی قیادت کے لیے وقت گزرا جارہا ہے، امریکی انتظامیہ کی ناکامی کا اثر وہاں کی داخلی سیاست پرنہ پڑے، اس کا امکان نہیں ہے۔n