ڈاکٹراخلاق احمد
آج کے دور میں ایک صحت مند معاشرہ کا تصور کالعدم اور ہمارے ارد گرد ماحول غیرصحت مند ہو کر رہ گیا ہے۔آبادی میں بے پناہ اضافہ کی وجہ سے گلیوں ،محلوںاور بازاروں میں بھیڑ رہنے لگی ہے۔ جس کی وجہ سے ہر قسم کی پریشانی پیدا ہو گئی ہے۔ ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگنے والی بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ آبادی کے اضافہ کے ساتھ معمولی معمولی جگہوں میں کثیر منزلہ عمارتوں کی تعمیر نے صحت کے لئے ضروری ہوا اور روشنی کو چھین لیاتودوسری طرف علاقوں میں سینٹری کا مناسب رکھ رکھائو نہیں ہو پار ہا ہے۔ گندے آب و ہوا سے پھیلنے والی بیماریاں گنجان رہائشی علاقوں میں بکثرت دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ رہائشی علاقوں میں مختلف قسم کی کثافت اور آلودگی پھیلانے والے یونٹ بکثرت ملیں گے جن سے فضاء میں طرح طرح کی آلودگی کے علاوہ صوتی ارتعاش پڑھنے لکھنے والوں کے لئے ذہنی اذیت سے کم نہیں ہوتا۔ قرب و نواح میں بچوں سے لے کر بڑوں تک سانس کی الرجی اور کھانسی کے مریض پائے جا رہے ہیں۔ پولوشن کے نام پر شور تو بہت سننے میں آتا رہتا ہے لیکن عمل ندارد ہے۔ جبکہ پولوشن بہت ہی عام اصطلاح ہے اور زیادہ تر لوگ اس سے واقف ہیں، اور حکومتی سطح پر بھی اس سے نمٹنے کے بہت سے طریقہ اپنائے جاتے ہیں۔ عوامی سطح پر بھی بیداری پیدا کی جاتی ہے۔پولوشن (کثافت) کئی قسم کی ہوئی ہے۔ پانی کا پولوشن، آواز کا پولوشن، فضائی پولوشن یعنی کہ آلودگی اور یہ سب مضر صحت ہیں اور آج کل تو ہم مختلف قسم کی تابکاری (ریڈی ایشن) سے اپنے آپ کو نہیں بچا پا رہے ۔ جس کی مثال موبائل فون کا ہر وقت کنٹیکٹ ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں بھی آپ دیکھ رہے ہوں گے۔ پہلے یہی ماحول صحت بخش تھا سانس لینے کے لئے روشنی اور پانی کی کمی نہیں تھی۔ علاقوں میں زیادہ بھیڑ بھاڑ نہیں تھی جس سے کہ سانس کے ذریعہ لگنے والی بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ بھی کم ہوا کرتا تھا اور آج کی طرح انسانی صحت کو خطرات در پیش نہیں تھے۔ وہ ایک طریقہ سے حفظان صحت (ہائی جین) پر عمل ہوتا تھا۔
موسمیات کا موزوں نہ ہونا، صاف ہوا اور پانی کا نہ ملنا اشیاء خورد و نوش میںفلیور، کلر اور پریزروٹیو کے نام پر کیمیکل اجزاء کا پایا جانا۔ رہائشی علاقوں میں سنیٹری کی بد سے بدتر صورت حال ہماری صحت کے لئے نہایت خراب ثابت ہو رہی ہے۔ حفظان صحت کے اصولوں پر چلنا دشوار ہو گیا ہے۔ فضاء میں صوتی آلودگی۔ ہمارے دماغ پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ فضاء میں کثافت اور زہریلے اجزاء کا پایا جانا ہمارے عام صحت کے لئے مضر ثابت ہو رہاہے۔ سانس لینے میں پریشانی اور جلدی امراض دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
مختصراً عام انسان کے لئے ایک صحت مند زندگی گزارنے کا تصور کا لعدم ہو کر رہ گیاہے جبکہ ایک صحت مند زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں صحیح، صاف ستھرا اور متوازن کھانا ملے۔ جس میں اناج ، سبزی، پھل، ڈرائی فروٹ وغیرہ شامل ہوں۔ غذا میں چکنائی اور شکر کا استعمال کم سے کم ہو اور کھانے میں نمک کا استعمال بھی کم کیا جائے۔ پورے دن میں 5سے 6گرام تک نمک جسم میں جانا چاہئے۔ ہلکی پھلکی جسمانی ورزش کو عادت میں شامل کریں۔ اور وزن پر قابو رکھیں۔ نیند کو خراب نہ کریں بلکہ 6۔8گھنٹے رات بغیر کسی خلل کے سونے کی عادت ڈالیں کیونکہ نیند کے پورے ہونے سے جسمانی درستگی اور دماغی تندرستی بحال رہتی ہے۔ دماغی تنائو (اسٹریس) پر قابو پائیں۔ اگرآپ چاہیں تو دوستوں یا اپنے مناسب رشتہ داروں سے اپنے رشتوں کو بحال رکھیں بشرطیکہ ان سے آپ کو کسی قسم کی ذہنی اذیت نہ ہوتی ہو۔ تمباکو نوشی اور دیگر منشیات سے پرہیز کریں اور اپنے منتخب طبیب سے ایک مقررہ وقت کے اندر اپنا جسمانی چیک اپ ضرور کراتے رہیں۔
تندرستی مکمل طور سے دماغی و جسمانی صحت کا نام ہے اور آج کے دور میں مختلف خطرات کے چلتے یہ امکان سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ نہ صرف بڑوں بلکہ بچوں کے لئے بھی۔ اُن کا مستقبل ایسے حالات میں تندرستی کے بنا ء پریشان کن نظر آتا ہے۔اکثر ایسا دیکھتے میں آتا ہے کہ جھنجھلاہٹ، غصہ اور بد مزاجی ایک خاص عمر کے بعد یا بیماری میں پیدا ہو جایاکرتی تھی۔ لیکن آج ذہنی اذیت اور فضاء میں صوتی آلودگی (نوائز پولوشن) راتوں کا جاگنا اخلاقیات سے مستثنیٰ فلموں کا دیکھا جانا اور اسی قسم کے فحش مناظر نئی عمر کے دماغوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ذہنی کیفیت خراب ہوکر رہ گئی ہے کوئی بھی بات برداشت نہیں کی جاتی اور فوری طور سے غصہ اور جارحانہ انداز دیکھنے کو ملنے لگا ہے جو کہ قابل غور اور تشویشناک بات ہے۔ کیونکہ ایک صحت مند ماحول ہی بیماریوں کے خطرات کو کم کر سکتا ہے اور اچھی صحت مند زندگی گزارنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ ٭٭٭