ڈاکٹر مرضیہ عارف
ہندوستانی معاشرہ آج جن برائیوں کا شکار ہے ۔ ان میں سرفہرست جہیز کا لین دین ہے۔ اس برائی نے سماجی جرم کی شکل اختیار کرلی ہے، جس سے پورا معاشرہ متاثر ہورہا ہے۔ جہیز کا انتظام نہ ہونے سے لڑکیاں گھروں میں بیٹھی ہیں، ماں باپ زندگی بھر کی کمائی صرف کرکے اپنی جن بیٹیوں کی شادی کردیتے ہیں، وہ بھی سسرال جاکر ظلم وزیادتی کا شکار اس لئے بنتی ہیں کہ لڑکا اور اس کے گھر والوں کی نظر میں دیا گیا جہیز کم ہوتا ہے لہٰذا بہو کو طرح طرح سے پریشان کیا جاتا ہے، سسرال سے مزید مطالبات ہوتے ہیں اور وہ پورے نہ ہونے پر نئی نویلی دلہن کیلئے بیاہتا زندگی عذاب بن جاتی ہے۔
ہمارے سماج میں عورت ذات پر ظلم وزیادتی اس وقت سے شروع ہوجاتی ہے۔ جب لڑکی ماں کے پیٹ میں ہوتی ہے، اس وقت بہت سے ماں باپ حمل کا ٹسٹ کرواکر معلوم کرلیتے ہیں کہ کوکھ میں لڑکا ہے یا لڑکی، اگر لڑکا ہے تو اسے خوش ہوکر پیدا ہونے کا حق دے دیا جاتا ہے اور لڑکی ہوئی تو قبل اس کے کہ گوشت کے اس لوتھڑے میں جان پڑے، حمل ضائع کردیا جاتا ہے۔ عورت دشمنی کے اس رویہ نے ہزاروں لاکھوں لڑکیوں کو جنم لینے سے پہلے موت کا شکار بنا دیا ہے۔ بعض خاندان تو ایسے ہیں جہاں برسوں سے کوئی لڑکی پیدا نہیں ہوئی اور نہ اس کی پرورش ہوتے کسی نے دیکھا۔ اس سفاک عمل کے پیچھے بھی یہی خوف کام کررہا ہے کہ اگر ان کے گھر لڑکی پیدا ہوگئی تو اس کی پرورش وتعلیم کے بعد شادی کرتے وقت جہیز کی صورت میں ماں باپ کو زیر بار ہونا پڑے گا۔
کہنے کو آج ہم اکیسویں صدی کے متمدن سماج میں سانس لے رہے ہیں، ہمارے ملک کی ترقیات کا پوری دنیا میں غلغلہ ہے لیکن لڑکیوں کے ساتھ یہ بے رحمی ایسی ہے جسے انسانی ضمیر پر تازیانہ ہی کہا جاسکتا ہے، ساری دنیا میں ہمارے جمہوری نظام کی شہرت ہے، یہاں کی تہذیب کو ہزاروں برس پرانی قرار دیکر ایک مہذب معاشرہ کا درجہ دیا جاتا ہے لیکن عورت ذات پر مختلف طریقوں سے جو ظلم وزیادتی روا رکھی جارہی ہے، اس کی ہیبت ناکی دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہے اور اس کے تدارک کی ہرکوشش اب تک ناکام ہوچکی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مردم شماری کے مطابق ہمارے یہاں مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کی تعداد مسلسل گھٹ رہی ہے۔
جہیز کے لین دین اور شکم مادر میں لڑکیوں کی نسل کشی کے خلاف جو قانون بنائے گئے وہ بھی اب تک کارگر ثابت نہیں ہوئے ہیں کیونکہ قانون کی موجودگی میں مذکورہ جرائم پوری شدت سے جاری ہیں اور اب تو انہوں نے ایک ناسور اور ایک طاعون کی شکل اختیار کرلی ہے، یہ بھیانک مسئلہ کسی مخصوص فرقہ یا طبقہ تک محدود نہیں بلکہ اس میں سماج کے مختلف خاندان پھنسے نظر آتے ہیں اور جب بھی اس مسئلہ پر ہمارے دانشور، سیاست داں اور سماجی تنظیمیں غور کرتی ہیں تو ان کا ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ قوانین کو سخت بنایا جائے لیکن اس پر شاید ہی کسی کی نظرجاتی ہو کہ قوانین جو پہلے سے موجود ہیں کیا ان پر موثر طور سے عمل ہورہا ہے ، آخر کیا وجہ ہے کہ موجودہ قوانین مجرموں کو سزا دینے سے قاصر ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے عورتوں پر ظلم وزیادتی، جہیز کے لئے ان کو ستانا، جلانا، مارنا جاری ہے۔
شادی بیاہ ایک ایسی رسم ہے، جس کو خاندان والے خوشی خوشی انجام دیتے ہیں اور اس کے ذریعہ سماج کی افزائش کا اہم کام ہوتا ہے ۔ اس لئے شادی سے قبل عورت کی سلیقہ مندی، قبول صورت اور تعلیم وتربیت دیکھی جانی چاہئے، لیکن آج زیادہ توجہ اس پر مرکوز ہے کہ لڑکی بیاہ کر سسرال آئے تو اس کے ساتھ بڑی مقدار میں جہیز بھی ہو، جب جہیز کم ملتا ہے تو معصوم زندگی کی جان پر بن آتی ہے ۔ کبھی وہ زندہ جلادی جاتی ہے تو تنگ کبھی آکر خود کشی کرلیتی ہے اور قانون وانتظام منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
ہمارے سماج کی زیادہ تر برائیوں کیلئے مغربی تہذیب وتمدن کو نشانہ بنایا جاتا ہے کہ مغرب کی نقل میں ہم نے اپنی خوبیوں سے منہ موڑ لیا ہے، لیکن لڑکیوں پر جہیز کیلئے ظلم اور ان کی پیدائش پر ناگواری، ایسی برائیاں ہیں، جو مغرب تو کیا، دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی نہیں پائی جاتیں، یہ ایک مقامی رسم ورواج ہے جس کے پنپنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہمارے یہاں بہت پہلے سے ماں باپ کی جائیداد میں لڑکیوں کو حصہ دینے کا چلن نہیں رہا، اس لئے ان کی شادی کے وقت سازوسامان اور رقم دیکر بھرپائی کردی جاتی ہے اور اس کا نام ’’کنیا دان‘‘ رکھا گیا ہے ، پہلے یہ کام خوش دلی کے ساتھ ہوتا تھا، اب اس عمل نے جبر کی صورت اختیار کرلی ہے اور دن بدن یہ خطرناک صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔
مغرب کی طرح مسلم ملکوں میں بھی لڑکی بیاہتے وقت جہیز کی روایت نہیں ہے، وہاں یہ ذمہ داری مردوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ شادی سے پہلے بیوی کیلئے گھر اور گرہستی کا انتظام کرے، ہمارے سماج کی طرح وہاں لڑکی کی پیدائش کو بھی بدشگونی نہیں مانا جاتا۔
اسی ذہنیت کی روک تھام کیلئے سپریم کورٹ نے ملک کی مرکزی اور ریاستی سرکاروں کو ایک فیصلہ میں یہ ہدایت دی تھی کہ وہ سبھی سرکاری ملازموں اور نوکری کی خواہشمند نوجوانوں کیلئے شادی میں وصول کئے گئے جہیز کی تفصیلات مہیا کرانا ضروری قرار دیں اور جہیز کی رسم پر قابو پانے کیلئے ایماندارانہ مشنری تیاری کرنے کے ساتھ ، اس کے خلاف عوام میں بیداری لانے کی مہم بھی چلائیں، لیکن افسوس کہ سپریم کورٹ کے اس مشورہ پر ضروری توجہ نہیں دی گئی۔
آج ضرورت یہ ہے کہ جہیز لینے والوں کو ہی نہیں دینے والوںکو بھی مجرم سمجھا جائے، جو لوگ اپنی حیثیت سے زیادہ جہیز دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی اتنے ہی پڑے مجرم ہیں جو جہیز کیلئے مول بھائو کرتے ہیں، کیونکہ وہ اس پر توجہ نہیں دیتے کہ ان کی حرکات سے دوسروں کو بھی اس جرم کی ترغیب ملتی ہے، ایک اور ضرورت یہ کہ لڑکیوں کی تعلیم ذہنی اور پیشہ وارانہ تربیت کیلئے کی جانے والی کوششوں کوتیز کیا جائے۔ اس طرح سماج میں ان کی اہمیت بڑھے گی اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی ان میں صلاحیت پیدا ہوجائے گی، لڑکیاں ماں باپ کیلئے بوجھ نہیں بنیں گی، سسرال جاکر بھی ان کی اہمیت میں اضافہ ہوگا۔
جہیز،ہندوستانی معاشرہ کیلئے ناسور: ڈاکٹر مرضیہ عارف
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS