دوسری کسان تحریک!

0

ہندوستان کے کسان ایک بار پھر ناراض ہیں۔ کھیتوں سے نکل کر دہلی کی سرحدوں پر پہنچ گئے ہیں۔یوں تو مرکز کی مودی حکومت کے 10 برسوں میں کسان اپنے مطالبات کیلئے کئی بار مظاہرے کر چکے ہیں، لیکن اس دوسرے دور حکومت میں تین سال کے اندر کسانوں کی یہ دوسری تحریک ہے۔ایک طرح سے اسے سابقہ کسان تحریک کا ہی تسلسل سمجھاجاناچاہیے کیوں کہ یہ دہلی مارچ سابقہ تحریک کے دوران حکومت کے وعدوں کی تکمیل نہ ہونے پر ہے۔سال 2020-21 کی کسان تحریک کے دوران جب گیارہ مہینوں کے بعد حکومت نے تین زرعی قوانین کو واپس لیاتھا، اس وقت کسانوں سے کئی وعدے کیے گئے تھے لیکن دو برس گزرجانے کے باوجود وہ وعدے پورے نہیں ہوئے ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ2020-21 میں تحریک کے وقت حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) پر قانون بنائے گی لیکن یہ وعدہ آج تک پورا نہیں ہوا۔ اس دوران سیکڑوں قوانین بنائے گئے لیکن کسانوں کی فصل کی قیمت کے سلسلے میں کوئی قانون نہیں بنا۔ یادرہے کہ ایم ایس پی کسانوں کیلئے ایک قسم کا بیمہ ہے تاکہ فصل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے ہونے والے نقصان کو روکا جا سکے۔ یہ کسانوں کو ضمانت دیتا ہے کہ وہ اپنی فصلوں سے مالی نقصان نہیں اٹھائیں گے۔فی الحال ملک میں کسانوں کو 23 فصلوں پر ایم ایس پی ملتا ہے۔ ایم ایس پی قانون کے نفاذ کی صورت میں حکومت تمام فصلوں کیلئے ایم ایس پی دینے پر مجبور ہوگی۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں سوامی ناتھن کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر تمام فصلوں پر ایم ایس پی دیا جانا چاہیے بلکہ ان کے اور مزدوروں کے قرض مکمل طور پر معاف کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ملک میں بڑے پیمانے پر قرضوں سے نجات کا پروگرام چلایا جائے۔کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حصول اراضی ایکٹ 2013 کو قومی سطح پر دوبارہ لاگو کیا جائے۔ اس قانون میں زمین حاصل کرنے سے پہلے کسانوں کی تحریری رضامندی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں سرکاری نرخ سے 4گنا زیادہ معاوضہ دینا شامل ہے۔مطالبات میں کسانوں اور مزدوروں کیلئے پنشن اسکیم، گزشتہ تحریک میں مرنے والے کسانوں کے خاندانوں کیلئے معاوضہ اور نوکری، منریگا کے تحت 100 دن کے کام کی گارنٹی کے بجائے 200 دن کام کی گارنٹی اور 700 روپے یومیہ اجرت وغیر ہ شامل ہیں۔
لیکن حکومت کسانوں سے کیے گئے وعدے پورے کرنا نہیں چاہتی ہے اور کسان تحریک کو کچلنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔کسانوں کو قومی راجدھانی دہلی تک پہنچنے سے روکنے کیلئے حکومت نے پوری طاقت جھونک رکھی ہے۔دہلی سے متصل ہریانہ اور پنجاب کی سرحدوں پر بھاری فورس کسانوںپر اشک آور گولے داغ رہی ہے تو انہیں آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے پہلے کی ہی طرح سڑکوں پر خاردار باڑلگائے گئے ہیں، سیمنٹ اور بھاری پتھروں سے سڑکوں کو بند کردیاگیا ہے تو بعض سڑکوں کو میخیں اور کیلیں گاڑ کرچلنے کے لیے ناقابل بنادیا گیا ہے۔ پنجاب و ہریانہ کے دیہاتوں میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اعلانات کیے جارہے ہیںاور کسانوں کو مارچ میں شرکت نہ کرنے کی بالواسطہ دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ اسے طرفہ تماشا کہیں یا قول و فعل میں تضاد کی عملی تصویر کہ ایک جانب حکومت کسان رہنما چودھری چرن سنگھ اورایم ایس سوامی ناتھن کو ’بھارت رتن ‘ سے نوازرہی ہے تو دوسری جانب ان کے نظریات پر عمل کرنے والے کسانوں پر طاقت کا استعمال کررہی ہے۔
کسانوں سے دھوکہ دہی اور وعدہ خلافی پرشرمندہ ہونے کے بجائے کسانوں کے پرامن مارچ پر طاقت کا بے رحمانہ استعمال بتا رہا ہے کہ وہ کسانوں، مزدوروں، محنت کشوں کے معاملے میں اپنی سرمایہ نواز پالیسی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ چند ایک صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے خزانہ بھرنے کیلئے وہ نہ تو فصلوں کی ایم ایس پی کا قانون بنانے کا ارادہ رکھتی ہے اور نہ ہی سوامی ناتھن کمیشن کی رپورٹ کودرخوراعتنا سمجھتی ہے۔
زرعی معیشت کے حوالے سے مودی حکومت کارویہ شروع سے ہی منفی رہاہے۔ وہ زراعت کو کسانوں کے ہاتھوں سے لے کر سرمایہ داروں کو سونپنا چاہتی ہے اور اسی منصوبہ کی تکمیل کیلئے زراعت سے متعلق قوانین بھی بنائے گئے تھے،جس کی مخالفت میں تحریک کے دوران700سے زائد کسانوں نے اپنی جان دے کر حکومت کو یہ قوانین واپس لینے پر مجبور کردیاتھا۔ اس بار بھی کسانوں کے تیور دیکھ کر یہی محسوس ہورہاہے کہ وہ حکومت کی طاقت کے سامنے جھکنے کے بجائے اپنے دیرینہ مطالبات کی تکمیل تک تحریک جاری رکھیں گے۔بہتر تو یہ ہوتا کہ کسانوں پر مظالم دوہرانے کے بجائے حکومت اپنے وعدے وفا کرتے ہوئے ایم ایس پی قانون بنانے کے ساتھ ساتھ کسانوں کے دیگر مطالبات پر ہمدردانہ غور کرتی تاکہ بعد کی فضیحت سے بچ سکے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS