خواجہ عبدالمنتقم
دَل بدل قانون سے قبل بھی ہمارے آئین میں پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے اراکین کی دیگر وجوہات کی بنا پر نااہلیت سے متعلق دفعات موجود تھیں لیکن آئین (52ویں) ترمیم ایکٹ،1985 میں دل بدل سے متعلق دسواں شیڈیول شامل کرنے کے بعد دیگر وجوہات کا چرچا بہت کم ہوا۔دفعات 102(2)و دفعہ191(2)بالترتیب پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی رکنیت کے لیے نا اہلیت سے متعلق ہیں۔ان دفعات کا لب لباب یہ ہے کہ کوئی بھی شخص پارلیمنٹ اور اسمبلی کے دونوں ایوانوں میں سے کسی ایوان کے رکن کی حیثیت سے چنے جانے اور اس پر بنے رہنے کا اہل نہ ہوگااگر وہ حکومت ہند یا کسی ریاستی حکومت یا کسی ریاستی حکومت کے تحت کسی نفع بخش عہدے پر اس عہدہ کے سوا فائز ہو،جس کی بابت بذریعہ قانون یہ قرار دیا گیا ہوکہ اس پر فائز شخص نااہل نہ ہوگا، وہ فاتر العقل ہو اور کسی مجاز عدالت کا اس کی بابت ایسا استقرار برقرار ہو، وہ غیر بری الذمہ دیوالیہ ہو، وہ بھارت کا شہری نہ ہو یا اس نے کسی دیگر ملک کی شہریت رضا کارانہ طور پر حاصل کرلی ہو یا کسی دیگر ملک سے اقرار وفاداری کرے یا کسی دیگر ملک سے وابستگی رکھے یاوہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے کسی قانون کی رو سے یا اس کے تحت نااہل ہو لیکن کسی شخص کا محض اس وجہ سے حکومت ہندیا کسی ریاست کی حکومت کے تحت نفع بخش عہدے پر فائز ہونا متصورنہ ہوگا کہ وہ یونین یا ایسی ریاست کا وزیر ہے۔
جہاں تک دل بدل قانون کی بات ہے، یہ قانون سیاسی بدعنوانی پر قابو پانے اور سیاسی استحکام کی نیت سے بنایا گیا تھا لیکن جس غرض سے یہ قانون بنایا گیا تھا وہ پوری نہیں ہوئی بلکہ پہلے تو دل بدلنے کے اکا دکا واقعات ہوا کرتے تھے مگر اب تو ایسا ’با جماعت‘ کیا جانے لگا ہے۔ نااہلیت سے بچنے کے لیے دو تہائی اراکین کا اپنے دل سے الگ ہونا اور دوسرے دل میں ضم ہونے کی صورت میں horse trading یعنی خرید و فروخت کے عمل کو مزید تقویت حاصل ہوئی ہے۔ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے۔اس سے سیاسی استحکام کے بجائے عدم استحکام کی مثالیں بار بار سامنے آتی رہی ہیں۔ کرناٹک، مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔اس قانون کو سرے سے غیر ضروری یا غیر مؤثر تو نہیں کہا جاسکتا لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قانون کو ایسی شکل دی جائے جس سے اراکین کی خرید و فروخت کا سلسلہ بند ہو۔اس ضمن میں بہتر یہ ہوگا کہ اس شیڈیول میں یا آئین میں کوئی ایسی بات یا دفعہ شامل کی جائے کہ اراکین کو اس سیاسی جماعت کے تئیں کم از کم اس مدت کے لیے جس کے لیے اسے منتخب کیا گیا ہے، وفادار رہنے کے لیے قانونی طور پر پابند کیا جائے جس نے اسے اپنا امیدوار بنایاتھا۔کرسی پر بنے رہنے یا کرسی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی طرح کی خرید و فروخت پر قدغن لگانے کے لیے سخت قانون بنانے کی ضرورت ہے ورنہ دل بدل کا یہ غیر جمہوری سلسلہ نام نہاد جمہوری شکل میں اسی طرح جاری رہے گا۔
دل بدل قانون سے متعلق دسویں شیڈیول کے اہم نکات ہیں، پارلیمنٹ یا قانون ساز اسمبلی کے کسی ایوان کا کوئی رکن،جس کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے،ایوان کا رکن ہونے کے لیے نا اہل ہوگا:
٭اگر وہ ایسی سیاسی جماعت کے ذریعے، جس سے اس کا تعلق ہے، یا اس سلسلہ میں اس کے ذریعہ مجازکردہ کسی شخص یا حاکم کے ذریعے دی گئی کسی ہدایت کے خلاف، دونوںہی صورتوںمیں،ایسی سیاسی جماعت،شخص یا حاکم کی ماقبل اجازت کے بغیر،ایسے ایوان میں ووٹ دیتا ہے یا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے اور اس طرح ووٹ دینے یا ووٹ دینے سے باز رہنے کو ایسی سیاسی جماعت،شخص یا حاکم نے اس طرح ووٹ دینے یا ووٹ دینے سے باز رہنے کی تاریخ سے پندرہ دن کے اندر اندر اسے معاف نہیں کیا ہے۔
٭اگر کوئی آزاد امید وار کے طور پر منتخب رکن انتخاب کے بعد کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوجاتا ہے۔بہ الفاظ دیگر ایوان کا کوئی منتخب رکن، جو کسی سیاسی جماعت کے ذریعے کھڑے کیے گئے امیدوار کے علاوہ دیگر حیثیت سے منتخب کیا گیا ہے، ایوان کا رکن ہونے کا نااہل ہوگا اگر وہ ایسے انتخاب کے بعد کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جاتا ہے۔
٭ایوان کا کوئی نامزد رکن، ایوان کا رکن ہونے کے لیے نا اہل ہوگا اگر وہ دفعہ99 (جو پارلیمنٹ میں نشست سنبھالتے وقت حلف لینے یا اقرار صالح کرنے سے متعلق ہے ) یا دفعہ 188(جو اسمبلی میں نشست سنبھالتے وقت حلف لینے یا اقرار صالح کرنے سے متعلق ہے )،جیسی بھی صورت ہو، کے احکام کی تعمیل کرنے کے بعد نشست سنبھالنے کی تاریخ سے چھ ماہ کی مدت ختم ہونے کے بعد کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جاتا ہے۔
دل بدل کی بنا پر نا اہلیت کا انضمام پر اطلاق نہ ہونا: ٭ایوان کا کوئی رکن اس صورت میں نا اہل نہیں ہوگا جب اس کی اصل سیاسی جماعت کا کسی دوسری سیاسی جماعت میں انضمام ہوجاتا ہے مگر یاد رہے کہ کسی رکن کی اصل سیاسی جماعت کا انضمام ہوگیا ہے یہ تبھی سمجھا جائے گا جب متعلقہ لیجسلیچر پارٹی کے کم از کم دو تہائی رکن ایسے انضمام کے لیے راضی ہوگئے ہوں۔
استثنائی صورت حال: اس شیڈیول میں کسی بات کے ہوتے ہوئے بھی، کوئی شخص جو لوک سبھا کے اسپیکر یا نائب اسپیکر یا راجیہ سبھا کے نائب چیئرمین یا کسی ریاست کی لیجسلیٹو کونسل کے چیئرمین یا نائب چیئر مین یا کسی ریاست کی قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر یا نائب اسپیکر کے عہدے پر منتخب ہوا ہے، اس شیڈیول کے تحت نااہل نہیں ہوگا اگر وہ ایسے عہدے پر اپنے انتخاب کی وجہ سے ایسی سیاسی جماعت کی، جس سے اس کے ایسے انتخاب سے عین قبل تعلق تھا،اپنی رکنیت قصداً چھوڑ دیتا ہے اور اس کے بعد جب تک وہ ایسے عہدے پر قائم رہتا ہے، تب تک اس سیاسی جماعت میں دو بارہ شامل نہیں ہو تا ہے یا کسی دوسری جماعت کی رکنیت اختیار نہیں کر لیتا ہے یا اگر وہ ایسے عہدے پر اپنے انتخاب کی وجہ سے ایسی سیاسی جماعت کی،جس سے اس کا ایسے انتخاب سے عین قبل تعلق تھا، اپنی رکنیت چھوڑ دیتا ہے اور ایسے عہدے پر نہ رہنے کے بعد ایسی سیاسی جماعت میں دوبارہ شامل ہو جاتا ہے۔
دل بدل کی بنیاد پر نا اہلیت کی بابت فیصلہ کرنے کا اختیار: اگر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایوان کا کوئی رکن اس شیڈیول کے تحت نااہل ہوگیا ہے یا نہیں تو اس کا فیصلہ، حسب صورت، چیئرمین یا اسپیکر کریں گے اور ان کا فیصلہ قطعی و حتمی ہوگا لیکن اگر یہ سوال اٹھتا ہے کہ چیئرمین یا اسپیکر ہی نااہل ہوگئے ہیں تو اس کا فیصلہ ایوان کا ایسا رکن کرے گا، جس کا متعلقہ ایوان اس سلسلہ میں انتخاب کرے اور اس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔
یاد رہے کہ کسی بھی عدالت کو دسویںشیڈیول کے تحت ایوان کے کسی رکن کی نااہلیت سے متعلق کسی امر کے بارے میں کوئی اختیار سماعت نہیں ہوگا اور اس طرح کی تمام کارروائیوں کو، حسب صورت، پارلیمنٹ یا ریاست کی قانون اسمبلی کی کارروائیاںسمجھا جائے گا۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]