شاہد زبیری
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو سر سیّداحمد خاںؒ کے خوابوں کی تعبیر مانا جا تا ہے جو مسلمانوں نے قائم کی تھی اس کا اقلیتی کردار آزادی کے بعد سے ہی فرقہ پرستوں کے نشانہ پر ہے۔ ملک کے موجودہ سماجی اور سیاسی تناظر میں جہاں ذیلی عدالتوں سے لے کر عدالت عظمیٰ تک اقلیتوںکے عائلی مسائل اورعبادت گاہوں کے خلاف عدالت کے فیصلے صادر ہورہے ہیں۔ بابری مسجد سے لے کر گیان واپی مسجد تک ہر فیصلہ مسلمانوں کوایک نیا زخم دے رہا ہے ۔ اب مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ پرمسلم اقلیت کی نگاہیں ٹکی ہیں جس کو سپریم کورٹ کی 7ججوں کی بینچ نے فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد محفوظ کر لیا ہے ۔اس فیصلہ کا سب کو انتظار ہے۔ یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے بہی خواہوں کو بھی اور اس کے مخالفین کو بھی لیکن اس دوران اس کیس کی سماعت کرنے والی بینچ کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے حوالہ سے دورانِ سماعت جرح میںجو بات سامنے آئی ہے کہ’’ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ایک اقلیتی ادارہ بھی قومی اہمیت کا حامل ادارہ ہو سکتا ہے اور پارلیمنٹ بھی ایک اقلیتی ادارے کو قومی اہمیت کا درجہ دے سکتی ہے۔ ہم اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں کہ علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کا قیام مسلمانوں کیلئے ہوا تھا اور جب اسے بنایا گیا تھا تو یہ بنارس ہندو یونیورسٹی کی طرز پر ہوا تھا اور یہ ایک مثال تھی۔ (بحوالہ روزنامہ راشٹریہ سہارا 2فروری 2024) اب یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر حتمی فیصلہ کیا سامنے آتا ہے اس کا انتظار سب کو ہے۔
اس تناظر میں اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کوسر سیّد ؒ کے خوابوں کی تعبیر اور ان کے تعلیمی نظریات اور مقاصد کی عملی تصویر مانا جا تا ہے۔ 24مئی 1875 کو سر سیّدؒ نے جس مدرستہ العلوم کی بنیاد رکھی تھی وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی خشتِ اوّل تھی یہ سب آج تک کہتے اور مانتے آئے ہیںاوریہی مسلم یو نیورسٹی سر سیّد ؒ کی ہشت پہلو اور ہمہ جہت شخصیت کی اصل شناخت قرار پائی۔ سر سیّد ؒ اور مسلم یونیورسٹی ایک دوسرے کی پہچان بن گئے۔ سر سیّد ؒ کے اس عظیم کارنامہ نے اور ان کے تعلیمی وژن نے بر صغیر کے مسلمانوں میں بالخصوص اور ہندستانیوں میں بالعموم تعلیمی بیداری کے ساتھ ساتھ جو سماجی اور سیاسی شعور پیدا کیا ہے اس کا سوائے تنگ نظراور فرقہ پرستوں کے سب اعتراف کرتے ہیں ۔اپنے دستورِ اساسی کے اعتبار سے مسلم یونیورسٹی اپنے قیام کے وقت سے ایک اقا متی ادارہ ہے،لیکن سرسیّدؒ کی تحریروں سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ اس کو اقامتی کے ساتھ الحاقی درجہ کا ادارہ بھی بنا نا چاہتے تھے جس کو انگریز حکمرانوں نے تسلیم نہیں کیا ۔سر سیّدؒ انگلینڈ کے سفر 1869) (سے پہلے تعلیم کو صرف طبقۂ اشراف EliteClass) ( کے لیے ضروری خیال کرتے تھے لیکن انگلینڈ کے سفر کے دوران انہوں نے مغربی نظامِ تعلیم کا گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کیا اور مغربی معاشرہ کا قریب سے مشاہدہ کیا تو وہ یہ سمجھنے اور ماننے لگے تھے کہ تعلیم یا علم پر کسی خاص طبقہ یا برادری کا حق مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔چنانچہ 1872میں سر سیّد ؒ کی ایماء اورمنشاء پر ’کمیٹی خواستگارانِ تعلیم وترقی مسلمانانِ ہند‘ نے مسلمانوں کی تعلیمی حالت کے گہرے مطالعہ اور مشاہدے پر مبنی رپورٹ پیش کی ، جس کا حاصل یہ تھا کہ مسلمانانِ ہند اگر جدید علوم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو تعلیم کا انتظام خود کریں، شہر قصبات جہاں جہاں مسلمانوں کی خاصی تعداد موجود ہے وہاں اپنے تعلیمی ادا رے قائم کریں اور محکمہ تعلیم کے انتظامی اور تعلیمی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایک مرکزی کالج ’ مدرستہ العلوم‘ قائم کریں جس سے مقامی ،ضلعی اسکولوں کا الحاق (Affilation) ہو اور یہ سب محکمہ تعلیم کے مقررشدہ نصابِ تعلیم کے مطابق ہو اور ملک کے نظامِ تعلیم سے مربوط اور منسلک ہو ۔
در حقیقت یہ رپورٹ سر سیّدؒ اور ان کے رفقاء کے اقامتی اور الحاقی یو نیورسٹی کے ابتدائی خاکہ اور ان کی دور اندیشی اور دوربینی کا مظہر تھی۔اس رپورٹ کی روشنی میں سر سیّدؒ نے مدارس کے عنوان سے علیحدہ ایک تحریر تیار کی کہ ’ایسے مدرسے ہرضلع ، شہر اور ہر قصبہ میں جہاں جہاں مسلمانوں کا قیام ممکن ہو اور مناسب ہو قائم ہو نے چاہئے اوران میں تعلیم صرف ان قائدوں کے مطابق ہو جو ’ اردو مدرسہ‘کے لیے ہی دی جائے اور ایک سیکنڈ لینگویج انگریزی ہی اختیار کی جائے۔سر سیّدؒ کے مطابق ان مدرسوں میں ایک حدِ معیّنہ تک علوم پڑھائے جائیں گے اور جب اس حد تک طالب علم پہنچ جائیں گے تو مدرسہ سے خارج ہو جائیں گے اور ان کو اختیار ہوگا کہ اس سے اعلیٰ درجہ کی تعلیم اگر چاہئیں تو مدرستہ العلوم میں داخل ہوں یہ مدرسہ ا س مراد (مقصد)سے ہوں گے کہ مدرستہ العلوم کے لیے لڑکے تیار کریں گے۔ ابتدائی 2درجات کیلئے سر سیّدؒ کے مطابق کہ یہ وہ تعلیم ہے جو مدارسِ مجوّزہ ( ماتحت مدارس)میں تجویز کی گئی ہیں۔ درجہ 3سے درجہ 5 کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ پچھلی تینوں قسم کی تعلی میں وہ ہیں جو مدرستہ العلوم سے تعلق رکھتی ہیں ۔سر سیّدؒ کے اس تعلیمی خاکہ اور مضبوط منصوبے کی بنیاد میں 32تعلیمی رسالے بھی تھے جو ’’کمیٹی خواستگارانِ تعلیم وترقی مسلمانانِ ہند‘‘ نے ملک کے ماہرین تعلیم اور دانشوروں سے لکھوائے تھے جو اس کمیٹی کی رپورٹ 1872کی بنیاد بنے تھے ۔سر سیّد ؒ کے اس تعلیمی خاکہ سے صاف ظاہر تھا کہ وہ ایسی یو نیورسٹی چاہتے تھے جو اقامتی بھی ہو اور الحاقی بھی ہو۔ سر سیّدؒ ایسے مکاتبِ دینیہ اور ِ قرآنی مکاتب کے بھی خواہاں تھے جہاں اردو کے ساتھ انگریزی کی بھی تعلیم دی جاتی ہو وہ ان کا الحاق بھی یو نیورسٹی سے چاہتے تھے،لیکن آج مسلم یونیورسٹی صرف اقامتی ہے سوائے علی گڑھ میں واقع5گرلس اور بوائز کالجوں کے ۔
سر سیّد ؒ کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے جسٹس سیّد محمود نے سر سیّدؒ کے تعلیمی خاکہ میں رنگ بھر نے کی کوشش کی تو انہوں نے بھی اقامتی اور الحاقی یونیورسٹی کا خاکہ پیش کیا۔ مولانا حالی نے ’ حیاتِ جا وید‘ میں اس کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ ’میں (جسٹس محمود)سوچتا ہوں کہ جو ہم لوگ قائم کرنا چاہتے ہیں وہ کالج نہیں بلکہ یو نیورسٹی ہو گی، لفظ کالج کو یونیورسٹی میں بدل دینا چاہئے ۔جسٹس محمود کی اسکیم جن نکات پر مشتمل تھی ان میں یہ کہ یونیورسٹی کا انتظام حکومت کے کنٹرول سے آزاد ہو ،خود کفیل تعلیمی ادارہ ہو ،تعلیمی اور امتحانی ضابطوں کی پابندی اور معیاری تعلیمی امتحانی ضابطے ،ملک کے نظامِ تعلیم کے نصاب کی پابندی معیاری نصابِ تعلیم کی توجہ کے ساتھ ضلعی ملحقہ اسکولوں کالجوں پربھی اتنا ہی دھیان دیا جا ئے گا جتنا اقامتی طلبا مرکزی طلبا پر ہو گا۔‘
کمیٹی خواستگارانِ تعلیم وترقی مسلمانانِ ہند کے نتیجہ میں مسلم یو نیورسٹی فائونڈیشن کمیٹی اور مسلم یو نیورسٹی کانسٹی ٹیوشن کمیٹی قائم کی گئی فائونڈیشن کمیٹی کے صدر راجہ صاحب آف محمودا ٓباد اور صاحب زادہ آفتاب احمد خاں سکریٹری بنا ئے گئے تھے ۔سر آغا خاں سر پرست تھے، ان دونوں کمیٹیوں نے اقامتی اور الحاقی یونیورسٹی کے قیام کی جدو جہد کی تھی اور اس کے لیے تحریک شروع کی گئی تھی جس نے 1912تک آتے آتے مسلمانوں میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے جوش اور ولولہ پیدا کر دیا تھا اور شہروں میں ہی نہیں دیہات اور قصبات میں بھی اس یو نیورسٹی کا چرچہ ہونے لگا تھا اور چندہ بھی کیا جا نے لگا تھا۔ میلاد کے لیے جو چندہ کیا جاتا تھا، اس میں ایک حصہ یو نیورسٹی کے لیے چندہ کا بھی تھاجو یونیورسٹی کی فائونڈیشن کمیٹی کو بھیج دیا جاتا تھا ۔ان کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریز حکومت مسلم یو نیورسٹی کیلئے تیار ہو گئی۔ سر آغا خاں کی سر برا ہی میں فائونڈیشن کے ذمہ داران نے حکومت کے نمائندوں سے بات کی اور گفتگو کے کئی دور چلے۔ حکو مت اقا متی یونیورسٹی کے لیے تو مان گئی لیکن اسکول اور کالجوں کے الحاق کے لیے راضی نہیں ہوئی ۔ 27جولائی 1912کو سر بٹلر نے ایک خط کے ذریعہ فائونڈیشن کمیٹی کو مطلع کیا کہ دو قومی یونیورسٹیاں بنائی جائیں گی ۔مسلم یو نیورسٹی اور ہندو یو نیورسٹی لیکن دونوں یو نیورسٹیوں کو اپنا دائرہ وسیع کر نے کی اجا زت نہیں ہوگی۔ کوئی کالج ان سے ملحق نہیں ہو گا ۔ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے لیے بنا ئی کمیٹیوں کے سربرآوردہ شخصیات کی جہد مسلسل اورمسلمانوں کے موٹے چندے سے سر سیّدؒ کے خواب نے مسلم یو نیورسٹی کی عملی شکل اختیار کی لیکن 1967 میں ایس عزیز پاشا کیس میں یو نیورسٹی کا اقلیتی درجہ یہ کہہ کر ختم کردیا گیا کہ اے ایم یو ایک مرکزی یو نیورسٹی ہے، اس لیے اسے اقلیتی ادارہ نہیں مانا جا سکتا۔ اقلیتی کردار کی بحالی کیلئے مسلمانوں خاص طور پر یونیورسٹی کے طلبا نے شدید مخالفت کی اور طلبا سڑکوں پر نکل آئے۔ جگہ جگہ احتجاجی جلسے ہو ئے، اس میں محمد عارف خان جو اس وقت کیرل کے گورنر ہیں ۔معروف دانشور پدم شری پرو فیسر اخترالواسع ،جاوید حبیب ،ظفرالدین خاں فیضان، ظفر یاب جیلانی اور اعظم خاں وغیرہ پیش پیش تھے۔ آخر کار اس وقت کی کانگریس سرکار نے1981 میںپارلیمنٹ میں ایکٹ پاس کیا جس کے تحت اقلیتی کردار بحال ہوا ۔ بعد میں پھر اقلیتی کردار کے خلاف فرقہ پرستوں نے شور مچایااو ر یہ معاملہ مختلف سرکاری اور عدالتی مراحل سے گزرتا ہوا سپریم کورٹ پہنچا۔ 20مئی 2019 کو سپریم کورٹ نے اس کیس کو ا نتہائی اہم مانتے ہوئے 7رکنی ججوں کی بینچ کے سپرد کردیا جس پر حالیہ دنوں میں سماعت کے بعد بینچ نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
[email protected]