عرب ممالک : لسانی اور ثقافتی سفارت کاری پر توجہ دینے کی ضرورت

0

فرانس اور فرانسیسی زبان یوروپ میں منفرد مقام اور اہمیت رکھتی ہے۔ دنیا کی بڑی سامراجی طاقتوں میں برطانیہ، بلجیم، اٹلی کے ساتھ ساتھ فرانسیسی حکمرانوں نے ایشیا اور افریقہ کے بڑے علاقوں پر اپنی حکومتیں قائم کیں۔ برطانیہ کی طرح فرانس نے بھی ان تمام علاقوںمیں جہاں ان کی حکومتیں قائم ہوئی تھیں اپنی زبان اورکلچرکو فروغ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ افریقہ اور مغربی ایشیا کے کئی علاقوں میں انگریزی کے علاوہ فرانسیسی تہذیب اور زبان کے گہرے اثرات ہیں۔ لبنان ، مصر، لیبیا، الجیریا، تیونس اور افریقہ کے بیشتر علاقوںمیں جہاں آج مسلم اورعرب حکمراں اقتدار میں ہیں فرانسیسی زبان بہت زیادہ مستعمل ہے۔ فرانس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جن ملکوں کو آزاد کیا ان میں افریقہ کے مذکورہ بالا مشہور اور معروف ممالک کے علاوہ سینٹرل افریقہ، مغربی افریقہ اور ساحل کے ممالک کہے جانے والے وہ حصے بھی شامل ہیں جن پر ابھی تک فرانس کا اثر ورسوخ اوریہاں تک کہ بالواسطہ اقتدار قائم ہے۔ فرانس نے گزشتہ کئی سالوں میں افریقہ کے کئی ممالک میں اپنا اثرورسوخ ختم کیا ہے۔ ان میں برکینیافاسو، مالے اورکوسٹ بھی شامل ہیں۔ ان علاقوں سے فرانسیسی فوج کو انخلا کے لئے مجبور کیا گیا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ فرانس پر یہ الزام تھا کہ وہ دہشت گردی کی سرکوبی کے بہانے ان علاقوں کے معدنی اور قدرتی وسائل کو ہڑپ رہا تھا اور اس کی وجہ سے یہاں کی نہ تو غربت ختم ہورہی ہے اورنہ ہی سیاسی عدم استحکام۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں کئی ایسے ممالک کے اتحاد کی فوجیں بھی افریقہ کے کئی ممالک میں ہنوز قائم ہیں، لیکن اب حالات بدل رہے ہیں ، وہاں کے لوگوںکی آنکھیں کھل رہی ہیں اورفرانس کوکئی ملکوں سے اپنا بوریا بستر سمیٹ کر جانا پڑ رہا ہے۔ مگر فرانس کے دانشور اور ماہر سفارت کار مختلف طریقوں سے اپنا اثرورسوخ اور تہذیبی ولسانی تعلقات اور روابط برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پچھلے دنوں فرانس نے ایک اہم میٹنگ بلائی تھی جس میں پیرس میں ان تمام ملکوںکے سربراہان اور سربراہان مملکت شامل ہوئے تھے جن میں فرانسیسی زبان ابھی بھی بولی جاتی ہے۔ یہ اکیلا فرانس ہی نہیں بلکہ کئی ممالک اورکئی تہذیبیں اسی فارمولے پر عمل کر رہی ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ سال قبل ترکی نے ان تمام ممالک کی ایک کانفرنس بلائی تھی جس میں ان ممالک کے سربراہان مملکت شامل ہوئے تھے جہاں ترکی زبان بولی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کانفرنس میںسینٹرل ایشیائی ممالک آذربائیجان، قزاقستان، کرگستان، ترکمانستان، ازبکستان، کے علاہ قبرص اور ہنگری کے کئی لیڈر بھی شامل ہوئے تھے جہاں آج بھی ترکی زبان بولی اورسمجھی جاتی ہے۔ لسانی اور ثقافتی، سفارت کاری اس دورکا نیا خارجی پیمانہ ہے۔ پچھلے دنوںمیں نئی دہلی میںمنعقد جی-20کانفرنس میں ہندوستان نے پوری دنیا کو اپنے تہذیبی ورثے سے آگاہ کرایا تھا۔ یہ ایک غیرمعمولی ایونٹ تھا جس میں ہندوستان کی تہذیب اور ثقافتی ورثے کو پوری دنیا کے سامنے وزیراعظم نریندرمودی نے پیش کیا تھا۔ تمام بڑی طاقتیں اور ثقافتی ممالک اپنی تہذیبی ورثے کو متعارف کرانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔
اس وقت پوری دنیا میں عربی زبان بولنے والوںکی کثیر تعداد ہے۔ 22عرب ممالک جوکہ عرب لیگ کا حصہ ہیں دنیا میں ایک بڑی طاقت ثابت ہوسکتے ہیں۔ عرب ممالک تہذیبی، ثقافتی اور لسانی دولت سے مالامال ہیں۔ دنیا کے نقشے پر وہ ایک بڑی طاقت ہیں، ان کے پاس وسائل موجود ہیں، وسائل کے ساتھ مسائل کے انبار ہیں، مگر ان مسائل کو وسائل اور دوراندیشی کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے۔ تہذیبی وراثت کو آگے بڑھانا اوردنیا کومتعارف کرانا ان ملکوں کی ترقی، خوشحالی کا سبب بن سکتا ہے۔ ان ممالک کے پاس اسلام کی ایک بڑی طاقت ہے جوکہ دنیا کی ایک عظیم آبادی کو متحد اور ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے میں ایک اہم رول ادا کرسکتی ہے۔ مگر 22ممالک کی یہ طاقت و تنظیم اپنی تہذیبی اورلسانی ورثے کو آگے بڑھانے میں اتنی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتیں جتنی دلچسپی کا مظاہرہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اوریہاں تک کہ جرمنی کے لوگ کرتے ہیں۔ دنیا کی مختلف راجدھانیوں میں ان ممالک کے سفارت خانوں کے ساتھ ساتھ ثقافتی مراکز بھی قائم ہیں۔ دہلی میں بھی برطانیہ کا ثقافتی مرکز جسے برٹش کونسل لائبریری کہا جاتا ہے قائم ہے۔ یہ ادارہ جو انگریزی زبان کی توسیع، ترقی او ر ترویج میں اہم رول اداکر رہا ہے۔ اسی طرح امریکی سینٹر بھی اپنی زبان، ثقافت اور معیشت کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کر رہا ہے۔ جرمنی کے سفارت خانے جرمنی کی تہذیبی وراثت اور زبان کی ترویج و ترقی میں مصروف ہیں، مگر 22 ملکوں کا عرب اتحاد ایک عرب کلچر سینٹر یا اسی قسم کا کوئی ادارہ قائم کرنے میں ناکام ہے۔ ان ممالک کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ نئی دہلی میں عربی زبان و ادب کی ترقی وترویج کے لئے انفرادی طورپر مراکز قائم کرسکتے تھے مگرایسا نہیں ہے۔ 3دہائیوں قبل دہلی میں عرب کلچر سینٹر نام کا ایک ادارہ قائم تھا جس میں عرب تہذیب وثقافت کو متعارف کرانے کے لئے پروگرام ہوتے تھے اور عربی سکھانے کے لئے باقاعدہ اساتذہ کا انتظام تھا۔ یہ اساتذہ مختلف عرب ممالک سے تعلق رکھتے تھے اورخالصتاً عربی لہجے میں عربی پڑھاتے تھے۔ مگر یہ کلچر سینٹر بہت سال قبل بند ہوگیا ہے۔ عرب ممالک کو اور تمام دیگر تہذیبوںکے ممالک کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ تعلیم وتدریس، تہذیبی وثقافتی اور اقتصادی ترقی کا باعث ہوسکتی ہے۔
افریقہ کے 52ممالک میں 29ممالک ایسے ہیں جہاں فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے۔ ان میں 29ممالک میں سے 21ممالک کو Phrancophore ممالک کہتے ہیں۔ فرانس کواپنی زبان اور ادب پر فخر ہے اور وہ اس عظیم ورثہ کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ اس وقت بھی پوری دنیا میں 300 ملین لوگ فرانسیسی زبان بولتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑی تعداد افریقیوں کی ہے۔ افریقہ میں فرانسیسی بولنے والے سب سے زیادہ لوگ رہتے ہیں۔ فرانس اپنی ڈوبی ہوئی نیا اس سفارتی کاوش کے ذریعہ بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
فرانس نے اب ہندوستان کو بھی اپنے ورثہ کو فروغ دینے کے لئے منتخب کیا ہے۔ اس کا حدف 2030تک فرانس کے اندر ہندوستان کے طلبا کی تعداد 30ہزار کرنے کا حدف مقرر کیا ہے اوراس حدف کو حاصل کرنے کے لئے فرانسیسی زبان کی تدریس کو فروغ دینے کا پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ ٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS