ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں گزشتہ75برسوں کے دوران کئی اتحاد بنے،بکھرے اورپھر دوبارہ بنے۔ان نام نہاد اتحادوں میں مختلف الخیال سیاسی جماعتیں چند ایک نکات پر متفق ہوئیں، مشترکہ پروگرام بنائے گئے۔بعض اتحادوں نے انتخابات میں کچھ کامیابی بھی حاصل کی، مشترکہ طور پر حکومت بنائی لیکن چند ماہ بعد ہی اختلاف شروع ہوئے، حمایت واپس لی گئی، اتحاد ٹوٹا اور حکومت ختم ہوگئی۔ اندرکمار گجرال کی حکومت، دیو گوڑا کی حکومت، اٹل بہاری باجپئی کی پہلی حکومت جیسی کئی مثالیں موجود ہیں جنہیں دیکھ کر یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ سیاسی اتحاد کا مقدر ہی ٹوٹنا اور بکھرنا ہے۔ایسے اتحادوں میں شامل ہونے والی علاقائی سیاسی جماعتیں کسی نظریہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ ’اقتدار‘ کی لالچ میں اکٹھی ہوتی ہیں۔ان کا مقصد نہ تو ملک کی ترقی ہوتی ہے اور نہ عوام کی بھلائی۔ایسی جماعتیں اقتدار کیلئے ہر طرح کے صحیح اور غلط اتحاد میں شامل ہوتی ہیں اور اقتدار کیلئے ہی ان سے منحرف بھی ہوجاتی ہیں۔
لیکن جو صورتحال آج کے اپوزیشن اتحاد ’ انڈیا‘ کی ہے، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ اس اتحاد کے قیام میںپیش پیش رہنے والے یایوں کہیں کہ اس اتحادکے معمار اول نتیش کمار نے ہی اس کے ساتھ دھوکہ، دغا، اعتمادشکنی اور اخلاقی گراوٹ کے بنیاد گزار بن کر اس کے وجود پر ہی سوالیہ نشان کھڑاکردیا ہے۔بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے ہی مرکز کی بی جے پی حکومت کے خلاف حزب اختلاف کو متحد کرنے اور ایک پلیٹ فارم پر لانے میں معمار کا کردار ادا کیا تھا۔ اب وہ این ڈی اے شامل میں ہوچکے ہیں۔
اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کی دوسری آواز ترنمول سپریمو ممتابنرجی بھی اس اتحاد کو فنا کے گھاٹ اتارنے کی تیاری کرچکی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ ان کی پارٹی ترنمول کانگریس اس سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں تنہا مقابلہ کرے گی۔ مغربی بنگال میں لوک سبھا کی کل 42سیٹوں پرا ن کی ہی پارٹی کے امیدوار ہوں گے، وہ اتحاد میں شامل کانگریس اور بایاں محاذ کو ایک بھی سیٹ دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مغربی بنگال میں داخل ہونے والے راہل گاندھی کی ’ بھارت جوڑونیائے یاترا‘ کی راہ میں روڑے بھی اٹکانے شروع کردیے ہیں۔راہل گاندھی کو کانگریس کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں میں جانے سے روکابھی جارہاہے۔
تیسری جانب عام آدمی پارٹی بھی اس اتحاد کی ہوا خیزی کا کام کررہی ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت مان نے اعلان کردیا ہے کہ ان کی پارٹی پنجاب میں اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑے گی۔کانگریس کے ساتھ سیٹوں کے معاملے میں کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔
لوک سبھا کی 80سیٹوں والی ریاست اتردپردیش میں بھی ’انڈیا‘ کا وجود لڑکھڑا رہاہے۔ سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو بھی اس اتحاد کو دھچکا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑرہے ہیں۔ اکھلیش یادو نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اترپردیش میں کانگریس کو صرف11 سیٹیں دیں گے حالانکہ ملک کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس کو اس سے زیادہ کی امید تھی اور وہ بجاطور پر اس کی مستحق بھی ہے۔
شمالی اور مشرقی ہندوستان میں نتیش کمار، ممتابنرجی، اروند کجریوال، اکھلیش یادو ایسے سیاسی لیڈران ہیں جنہوں نے مشترکہ اور متحدہ اپوزیشن کے تصور کو زندگی دی تھی جو تقریباً مردہ ہوچکی تھی۔7-8ماہ پہلے ان لیڈران نے اس سلسلے میں بات چیت کا آغاز کیاتھا اور نتیش کمار کی پہل پر بہار کی راجدھانی پٹنہ میں ’ انڈیا‘ اتحاد کی پہلی میٹنگ ہوئی تھی۔ وہ نتیش کمار ہی تھے جنہوں نے کانگریس کی بالادستی قبول کرنے میںپہل کی تھی اور یہ کہتے رہے تھے کہ ’ انڈیا‘ میں کنوینریا وزیراعظم کے امیدوار کے نام پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان کی ان باتوں پر ممتابنرجی، اکھلیش یادواور اروندکجریوال بھی مہر تصدیق لگاتے رہے لیکن اچانک نتیش کمار کواحساس ہوا کہ کانگریس ان کی امیدوں پر پوری نہیں اترے گی۔بہار میں سماجی انصاف کی علامت کرپوری ٹھاکر کو ’بھارت رتن‘ سے نوازنے کے مرکز کے فیصلے نے نتیش کمار کو بی جے پی کے قریب ہونے کا ایک آسان بہانہ فراہم کیا ہے۔ نتیش کمار نے کہا کہ وہ 2006 سے اس سماجوادی لیڈر کو بھارت رتن سے نوازنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے بالواسطہ طور پر کانگریس پر الزام لگایا جو اس وقت اقتدار میں تھی، ان کے مطالبے کو نظر انداز کر رہی تھی۔اس کے ساتھ ممتابنرجی اور بھگونت مان کو اپنی اپنی ریاستوں میں اپنی طاقت کا احساس ہوا اور وہ کانگریس کو حصہ دار بنانے سے مکر گئے۔
رام مندر کی لہر پر سوار بی جے پی اپنی جارحانہ حکمت عملی کے سبب پہلے سے ہی اپوزیشن کے ہر وار کو کند کرتی آرہی ہے، اب جب کہ لوک سبھا انتخابات میں صرف تین ماہ ہی رہ گئے ہیں، علاقائی پارٹیاں اتحاد سے انحراف اور سیٹوں کی تقسیم کے نام پر اپنی اپنی ’ نام نہاد سیاسی قوت‘ کاانفرادی مظاہرہ کررہی ہیں۔ ان کا یہ عمل بدترین موقع پرستی اور اخلاقی گراوٹ کے ساتھ یہ بھی ثابت کررہا ہے کہ ملک اور عوام کی بھلائی سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ ان کا واحد سیاسی نظریہ و مقصد بلکہ ان کا وجود ہی فقط وقتی اقتدار کاحصول ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ علاقائی پارٹیوں کا یہ عمل ہندوستان کی جمہوریت سے کھلادھوکہ اور دغا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔
[email protected]
علاقائی پارٹیوں کی جمہوریت سے دغا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS