شاہنواز احمد صدیقی
اسرائیل دنیا کی تمام طاقتوں اوراداروں کو اپنی سہولت، مرضی اور مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتا رہا ہے مگر ابھی چند مسلم اور عرب ملک پوری طرح اس کے ہتھے نہیں چڑھے ہیں۔ ان میں سعودی عرب،یواے ای، قطر اورمصر بھی ہیں۔ اسی طرح انڈونیشیا کے انتہائی سخت رویہ نے اسرائیل کے سرپرست اعلیٰ امریکہ کو بے چین کرکے رکھ دیا ہے۔ انڈونیشیا کے صدر جوکوویدودو(Joko Vidodo)نے بہت برملا اور بے باکی کے ساتھ پورے عالمی میڈیا اور امریکی صدر کے سامنے غزہ میں مظالم روکنے اور جنگ بندی کرانے کا مطالبہ زورشور سے رکھا تھا۔ خیال رہے کہ ان کا یہ مطالبہ 14نومبر 2023میں اس وقت ہوا تھا جبکہ مغربی ممالک اسرائیلی سفاکی کی پرزور انداز میں حمایت کررہے تھے اور امریکی وزیرخارجہ تو اپنی منصبی ذمہ داریاں بالائے طاق رکھ کر اپنی مذہبی شناخت پر زور دے رہے تھے۔ اس دوران فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے والے انڈونیشیا کے صدر کے جرأت رندانہ کی ستائش کی گئی تھی۔ انڈونیشیا میں مسلمانون کی سب سے بڑی آبادی رہتی ہے۔ امریکہ انڈونیشیا سے تعلقات کو وسعت دے کر جنوبی ایشیا میں چین کے اثرورسوخ کوکم کرنے کی کوشش کررہاہے۔ اسی طرح قطر پر بھی امریکہ اوراس کے حواریوں نے چاروں طرف سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو پر اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اندرون ملک دباؤ بڑھتا ہی جارہاہے مگر حماس کے ذریعہ مکمل جنگ بندی کے مطالبہ کو پورا ہونے پریرغمالیوں کو رہا نہ کرنے کی بات نے نتن یاہو کو تلملا کررکھ دیا ہے۔ اب وہ اپنا غصہ قطر کے حکمرانوں پر اتار رہے ہیں۔
پوری دنیا کے سکون اورامن کے لیے خطرہ بنے نتن یاہو کا ایک مشتبہ ٹیپ منظرعام پرآیاہے جس میں انھوںنے قطر کو پریشان کن قرار دیا ہے۔ نتن یاہو کا کرب یہ ہے کہ قطر پردباؤ ڈال کر اپنی من مرضی کے نتائج حاصل نہیں کرپارہے ہیں۔ قطر کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو اپنے بہت چھوٹے رقبہ کے باوجود عالمی،سیاسی اور سفارتی منظرنامہ پر بہت سرگرم رول ادا کررہاہے۔ افغانستان میں بحران کو جس مستقل مزاجی اور خوبصورتی سے قطر نے ختم کرانے میں امریکہ اوراس کی قیادت والی بین الاقوامی فوج کی مدد کی، اس کااعتراف پوری دنیا نے کیا۔ لبنان میں قطر غیرمعمولی رول اداکررہاہے۔ اس کے تعاون اور تال میل کی وجہ سے وہاں کافی حد تک خانہ جنگی کوروکنے اور مسائل میں اضافہ ہونے سے روکنے میں کامیابی ملی ہے۔
دراصل یہ پہلا موقع نہیں کہ نتن یاہو قطر کے خلاف اس قدر سخت زبان استعمال کررہے ہیں۔ اس سے قبل بھی قطر میں حماس کے دفتر اورحماس کے لیڈروں کی موجودگی کو لے کر وہ ناراضگی کا اظہار کرچکے ہیں۔ قطر نے اس توہین آمیز رویہ پرناراضگی کااظہار کرتے ہوئے نتن یاہو پر کوئی براہ راست نکتہ چینی نہ کرتے ہوئے ان کو یاد دلایاہے کہ ان کے تبصرے اور تصادم یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کیے جانے والے مصالحتی کوششوں میں رخنہ ڈال رہے ہیں۔ وزارت خارجہ کے ترجمان مجیدالانصاری نے کہا ہے کہ اگر مذکورہ تبصرہ درست ہے تویہ قدم معصوم زندگیوں بشمول اسرائیلی یرغمالیوں کی زندگی کوبچانے کی ترجیحات کے خلاف ہے۔ انھوںنے کہا کہ وہ اپنے سیاسی کریئر پرزیادہ توجہ دے رہے ہیں نہ کہ ان ترجیحات پرقطر کو لے کر اسرائیل کا رویہ نیانہیں ہے۔ قطر کی راجدھانی دوحہ میں قائم عالمی میڈیا ادارے الجزیرہ نے فلسطینی آلام اور مصائب پر پوری دنیا کی توجہ مبذول کرانے اور اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو نبھانے میں جو کلیدی رول اداکیا ہے، وہ اسرائیل کے ناپاک عزائم کو طشت از بام کرنے اور ان کوناکام بنانے والا ہے۔ غزہ اور دیگر مقامات پراس جارحیت اوراس سے قبل کی تمام جارحیتوں میں اسرائیل نے ان تمام ذرائع ابلاغ کے کارکنان کوبطور خاص نقصان پہنچایا، صدمات سے دوچار کیا اورملک عدم پہنچایا جن کی موجودگی اور کارکردگی پیشہ ورانہ فرائض کے تئیں ایماندارانہ تھی۔
تین ماہ قبل الجزیرہ کی امریکہ نژاد عیسائی خاتون صحافی شیرین ابوالعاقلہ کی سفاکانہ موت،ان کے جنازے کی بے حرمتی اور اس پرتمام میڈیا اداروں اور شخصیات کا محدود ردعمل اور اب 7اکتوبر سے آج تک جتنے صحافی مارے گئے ہیں، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اظہار خیال کی آزادی کس قدر آزادانہ ہے۔ دراصل خطرہ یہی ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اسرائیل کی سفاکی اور’مظلومیت‘ کو طشت ازبام کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوگیا ہے۔ یہی درد ہے جو اسرائیل کے ارباب اقتدار کو کھائے جارہاہے۔
اسرائیل کے اندر خاص طورپر وہ خاندان جن کے کچھ افراد حماس کے چنگل میں ہیں یا مارے گئے ہیں، نتن یاہو بہت سے بہت ناراض ہیں۔ نتن یاہو نے مذکورہ بالاجملے انہی لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے ادا کیے جو ان سے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے ان کے پاس آئے تھے۔
اسرائیل کی جھنجھلاہٹ یہی ہے کہ نفسیاتی جنگ میں اس کا پلہ کمزور پڑتادکھائی دے رہاہے۔ داخلی سیاست میں نتن یاہو اور ان کا سیاسی اتحاد اپنی وقعت کھوچکا ہے۔ اب وہ اپنی ناکامی کے لیے قطر کو کبھی ترکی کو اور کبھی عالمی اداروں کو موردالزام ٹھہراکر اپنا پلہ چھڑاناچاہتے ہیں۔
اس سے قبل نتن یاہو حکومت کے ایک اوروزیر بیزل اسمورچ(Bezalel Smotrich)بھی 7اکتوبر کے حملوں کے لیے قطر کوذمہ دار قراردے چکے ہیں۔ قطرمیں حماس کے لیے کئی لیڈر مقیم ہیں اور ان یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت کررہاہے۔نومبر میں اسرائیل کو فوجی کارروائی سے روکنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اس کے بدلے میں اسرائیل کے 110لوگ رہاہوگئے تھے۔ اسرائیل نے اس وقت اپنی قید میں صعوبتیں جھیل رہے 240فلسطینیوں کو بھی رہا کردیاتھا۔ قطر کی ارباب اقتدار کے خلاف اسرائیلی شروع سے ہی نکتہ چینی کررہے ہیں۔ حماس کے حملہ کی موسادجیسی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی کو بھنک نہ لگی۔ اس کا قلق ہے مگر اس ناکامی پر جھنجھلاہٹ قطر پرہی اتاری جارہی ہے۔ اسرائیل کے وزیر برائے سلامتی امور شین بیٹ (Shin Bet)نے بیان دیاتھا کہ حماس کے لیڈروں کوڈھونڈ ڈھونڈ کر ماراجائے گا۔ان کااشارہ قطر اور دیگر ملکوں (مصر، اردون وغیرہ) کی طرف تھا، جہاں بڑی تعداد میں فلسطینی اورفلسطینی کاز کے لیڈر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
دراصل اسرائیل 7اکتوبر کے سانحہ کا استعمال ان تمام ملکوں کے خلاف ’اعلان جنگ‘ کرنے میں کررہاہے جو سرگرمی کے ساتھ فلسطینیوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس میں قطر کے علاوہ ترکی، لبنان شامل ہیں۔
حملے کے بعد اسرائیل کی ٹیلی ویژن ’کان‘(KAN)نے ایک بیان نشر کیاتھا،جس میں کہاگیاتھا کہ ’کابینہ نے اپنے سامنے ایک نصب العین طے کیاہے۔ حماس کا نام ونشان مٹاناہے۔ یہ ہمارا میونخ ہے۔یہ کام ہم ہرجگہ کریں گے۔ غزہ میں مغربی کنارے پر، لبنان میں،ترکی اورقطر میں بھی۔‘
اس بیان کے بعد قطرنے کوئی ردعمل ظاہرنہیں کیا تھا مگر ترکی کے صدرطیب اردگان انتہائی سخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔ خیال رہے کہ 7اکتوبر کے بعداسرائیل نے قاہرہ اور ترکی سے بھی اپنے سفارت کارواپس بلالیے تھے۔ اس کے باوجود مصر قطر کے ساتھ ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کوششیں کررہاہے۔
اسرائیل کی حکومت کایہ رویہ کس قدر تصادم والا ہے اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ وہ اقوام متحدہ کے اداروں، ان کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کو بھی نہیں چھوڑرہاہے۔ اقوام متحدہ کے غزہ کے دفتر میں بم باری کی تازہ واردات اسرائیل کے ذہنی دیوالیہ پن کی غمازہ کرتی ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ تمام پڑوسی ملکوں سے جنگ کرکے اسرائیل اور اس کی قیادت کس طرح اپنے عوام کاتحفظ یقینی بناسکتی ہے۔n