محفوظ مستقبل کیلئے مثبت فکر اور احتساب ضروری : عبد الغفار صدیقی

0

عبد الغفار صدیقی

رام مندر کا افتتاح ہوگیا۔بھارتی تہذیب کے خزانہ میں ایک عظیم الشان دھروہر کا اضافہ ہوگیا۔پرشوتم شری رام کا بنواس ختم ہوا اور وہ ایودھیا واپس تشریف لے آئے۔مندر کے افتتاح کی تقریب جسے ’’پران پرتشٹھا‘‘ کا نام دیا گیا ہے اس انداز سے منائی گئی کہ اس میں فتح کا غرور بھی شامل تھا۔بعض لوگوں کے بقول انھوں نے پانچ سو سال بعد اصل آزادی حاصل کی ہے ۔جلد ہی ہماری آنے والی نسلیں رام مندر کے بارے میں اپنی نصابی کتب میں پڑھیں گی۔اہل مندر خوش ہیں کہ انھیں پانچ سو سال بعد مندر ملا ہے۔ایک لمبی جدوجہد اور بڑی قربانیوں کے بعد یہ دن دیکھنا میسر ہوا ہے،ہمارے وزیر اعلیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے اسی مندر کے لیے شادی نہیں کی ۔اہل اسلام کے چہروں پر مایوسی اور مستقبل کا خوف ہے۔ان کی ایک تاریخی مسجد توڑ دی گئی اور کئی مساجد پر فریق مخالف کی نظریں ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ رام مندر کی تعمیر سے مسلمانوں کو مایوس ہونے اور خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔رام مندر کی تعمیر دراصل اقتدار کا نتیجہ ہے۔ مسلمانوں کو یہ اطمینان رکھنا چاہیے کہ ملک کی سپریم کورٹ نے ان کے تمام دعووں کو تسلیم کیا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ نکات شامل ہیں کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی ، 1949 تک وہاں نماز ہوتی رہی،اس میں مورتیاں رکھنا،تالا لگانا اور اس کو گرانا مجرمانہ افعال ہیں۔البتہ یہ بھارت میں اکثریت کی عقیدت اور آستھا کا سوال ہے۔اس لیے یہ جگہ رام مندر ٹرسٹ کو دی جارہی ہے۔عدالت عالیہ نے مسجد کے لیے بھی ایک بڑی آراضی مختص کرنے کا حکم دیاہے،جس کو مختص کر بھی لیا گیا ہے ۔امید ہے کہ جلد ہی اس پر تعمیرات کا کام شروع ہوگا ۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ مندر اور مسجد کا افتتاح ساتھ ساتھ ہوتا ۔اس سے ملک میں بھائی چارا کو تقویت حاصل ہوتی۔
بابر کا زمانہ پانچ صدی پہلے کا زمانہ تھا۔اس وقت کی تاریخ صرف قلم کے ذریعے محفوظ کی گئی ہے۔اس تاریخ میں بہت کچھ حذف و اضافہ کیا گیا ہے ۔حکمرانوں نے اپنی ریاست کے مفاد کے مطابق تاریخ نویسی کا کام انجام دیا ہے ۔پانچ سو سال پہلے ویڈیو بنانے کے لیے آلات دستیاب نہ تھے،اس لیے کوئی فوٹو اور ویڈیو نہیں ہے ۔عدالت عالیہ کے تحریری اقرار سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی ۔آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔آج مسجد گرائے جانے کے مناظر کی ویڈیوز موجود ہیں۔مندرکی تعمیر سے لے کر افتتاح تک کی تقریبات کے ثبوت ہر کسی کی جیب میں ہیں۔بھارت کی عدالت کے فیصلہ پر یہ سوالیہ نشان قیامت تک لگا رہے گا کہ اس نے مندر کے حق میں اپنا فیصلہ موجود ثبوتوں کے خلاف اور صرف آستھا کی بنیاد پر دیا تھا۔ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں،ہم ایک آئین کے تحت عدالت عالیہ کے فیصلے کے پابند ہیں۔ہم بھارت کے ایک شہری ہونے کے ناطے اس فیصلے کو بادل ناخواستہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے اس مسئلہ پر ہر قسم کے غیر آئینی اقدامات سے نہ صرف گریز کرتے ہیں بلکہ ایسے کسی بھی قدم کی تائید نہیں کرتے جس سے دو قوموں کے درمیاں منافرت پیدا ہوتی ہو۔البتہ تاریخی اعتبار سے ہم اس حقیقت کا اظہار کرتے رہیں گے کہ عظیم الشان رام مندر کی تعمیر بابری مسجد توڑ کر کی گئی ہے۔
زمانہ کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ عروج و زوال آتا اور جاتا رہتا ہے۔یہ ایک چکر ہے جو گھومتا رہتا ہے۔جس طرح زمین کا جو حصہ سورج کے سامنے آتا ہے اسی حصہ میں دن ہوجاتا ہے اسی طرح جس قوم کی تقدیر کا سورج طلوع ہوتا ہے تو اس قوم کو دنیا میں اقتدار اور غلبہ عطا ہوتا ہے۔اپنے ملک کی گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ایک وقت وہ تھا جب یہاں مختلف ہندو راجاؤں کی حکومت تھی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت یہاں کفر کا راج تھا۔پھر مسلمان آئے اور آتے چلے گئے یہاں تک کہ ہندوستان کے بادشاہ بن گئے وہ دور ساری دنیا میں مسلمانوں کے عروج کا دور تھا۔ہر بر اعظم پر مسلمانوں کا پرچم لہرا رہا تھا۔پھر تاریخ نے کروٹ بدلی اور اللہ نے انگریزوں کو حکمرانی کا موقع دیا۔
مسلم سلطنت سمٹتی چلی گئی،انگریزی سامراج پاؤں پسارے چلا گیا۔اسے ہم غلامی کے دور سے یاد کرتے ہیں۔یہ سامراج ختم ہوا تو دنیا ایک نئے نظام سے متعارف ہوئی جسے ہم جمہوریت کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ نیا نظام انگریزی سامراج ہی کا نیا ایڈیشن تھا اس کے باوجود بیشتر ممالک نے قبول کرلیا۔ بڑی طاقتوں نے دنیا پر حکمرانی کے تمام استحصالی اختیارات اپنے پاس رکھے۔اس کے لیے عالمی ادارے وجود میں لائے گئے،ترقی یافتہ،ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی فہرستیں تیار کی گئیں،اس نئے سامراج نے کہیں جمہوریت بحالی کے نام پر تباہی مچائی تو کہیں اپنے مفادات کی خاطر شاہی نظام کی حفاظت کی۔
اس وقت ساری دنیا میں ایک بارکشمکش کا آغاز ہے۔روس یوکرین کی جنگ ،غزہ اور اسرائیل کی جنگ کے بہانے ایک بار پھر عالمی طاقتیں دست گریباں ہیں لیکن شاید ابھی مسلمانوں کے عروج کا سفر شروع نہیں ہوا ہے اس لیے کہ موجودہ کشمکش کے بعد جن ممالک کو دنیا پر غلبہ و اقتدار حاصل ہوگا ان میں روس اور چین جیسی غیر اسلامی طاقتیں ہی ہیں۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں۔ ہندوستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں آنے والے برسوں میں مسلمانوں کو مزید تکالیف سے گزرنا پڑسکتا ہے۔یہ تکالیف کب تک جاری رہیں گی اس کا کوئی اندازہ نہیں۔البتہ جس وقت مسلمان اپنے آپ کو اقتدار کے قابل بنالیں گے اللہ تعالیٰ اپنی وعدے کے مطابق ان کو غلبہ عطا فرمادے گا۔
غلبہ و اقتدار کے لیے جن خصوصیات کی ضرورت ہے ان میں ایک خوبی اپنی ہمسایہ قوم کے مقابلہ میں اخلاقی برتری کا حصول ہے۔کسی قوم کو صرف عددی اکثریت کی بنا پر اقتدار نہیں دیا جاتا اگر ایسا ہوتا تو مسلمان کبھی دنیا کے ایک بڑے حصہ پر حکمرانی نہ کرتے کیوں کہ ان کی تعداد ہمیشہ کم ہی رہی ہے۔انگریز کبھی بر صغیر اور افریقہ پر حکومت نہ کرتے اس لیے کہ وہاں ان کا وجود تک نہ تھا۔کسی قوم کا زوال اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ اخلاقی پستی میں گرجاتی ہے جب مسلمانوں کو زوال ہوا تو ان کے حکمران اخلاق کی انتہائی پستی میں چلے گئے تھے۔ ان کے تلواروں کے نیچے ان کے اپنے ہی احباب آگئے تھے،وہ عدل کرنا بھول چکے تھے،وہ انسانیت کی خدمت کے بجائے عیاشیوں کے دلدادہ تھے،تحقیق کا دروازہ بند کرکے مسلکی اور فقہی مباحثوں میں ملوث تھے۔ان کے مقابلہ پر انگریز علم و تحقیق کے نئے دروازے کھول رہے تھے،آپس میں منظم تھے۔اپنی سلطنت کے وفا دار تھے،ممکنہ حد تک عدل کرتے تھے اِلّا یہ کہ خود ان کی ریاست کے مفادات کو خطرہ ہو۔انسانوں کو سہولت پہنچانے کے لیے انھوں نے جوجدو جہد کی وہ قابل قدر ہے۔ آج جو ہم ریل،پل،مشینیں،موٹر گاڑیاں دیکھ رہیں انھیں کی مرہون منت ہیں یہ الگ بات ہے کہ آپ یہ کہہ کر خود کو تسلی دے لیں کہ انگریزوں نے مسلمانوں کے علمی ورثہ سے استفادہ کیا۔
اس گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ بھارت کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کو کس طرح رہنا ہے انھیں اپنے مستقبل کو کس طرح محفوظ بنانا ہے اور نظام قدرت کے مطابق کس طرح اقتدار میں واپس آنا ہے اس کے لیے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔کسی قسم کی اشتعال انگیزی،کسی قسم کی منفی سوچ کو جگہ دینے کی ضرورت نہیں ہے،بلکہ خود کو اپنی ہمسایہ قوم اور مقابل قوم سے اخلاقی میدان میں برتر ثابت کرنا ہے۔آپ ہر میدان میں ان سے اچھا مظاہرہ کریں۔آپ ان سے بہتر بن جائیں۔اللہ آپ کو عروج عطا کردے گا۔ذرا آنکھیں بند کرکے اپنا جائزہ لیجیے اور ایمان داری سے سوچئے کہ کیا خیر اور بھلائی کے کسی میدان میں ہم ان سے آگے ہیں جنہیں کافر،مشرک اور جہنمی کہتی ہماری زبانیں نہیں تھکتیں۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا میں سب کچھ اقتدار کے ارد گرد گھومتا ہے۔جس کے پاس لاٹھی ہے بھینس وہی لے جاتا ہے۔طاقت کے حصول کا سبق مسلمانوں کو بھی دیا گیا تھا۔ان کی کتاب میں صاف صاف کہا گیا تھا کہ’’اور ان کے لیے جتنی قوت ہوسکے تیار رکھو اور جتنے گھوڑے باندھ سکو باندھو تاکہ اس تیاری کے ذریعے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو اور جو اُن کے علاوہ ہیں انہیں ڈرائو، تم انہیں نہیں جانتے اوراللہ انہیں جانتا ہے اور تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا بدلہ دیا جائے گااور تم پر کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔‘‘(الانفال 60)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو ہر طرح کی جنگ سے خود کو محفوظ رکھ سکتے تھے،نہ ان کو شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑتا،نہ طائف کے بازار میں لہو لہان ہونا پڑتا ،نہ اپنے پیارے وطن سے ہجرت کرنی پڑتی،نہ بدرو احد کے معرکے پیش آتے بلکہ آپ ہماری طرح صبر کرکے بیٹھے رہتے اور سارا الزام نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ پر رکھ دیتے کہ جب وہ چاہے گا ہوجائے گا۔وہ بھی میدان بدر میں جانے کے بجائے صحابہؓ کو سورہ مزمل کے ورد کی تلقین فرمادیتے ،جیسے کہ ہمارے ایک شیخ نے اچانک 21 جنوری کی شام اپنے ایک آڈیو پیغام میں فرمائی ہے لیکن آپؐ نے عملاً اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جنگ کی،زخم کھائے،اپنوں کی شہادت دیکھی۔کفار مکہ نے آپ کو بہت سے آفر دیے تھے مگر آپ نے سب کو ٹھوکر ماردی۔آپ نے صاف صاف کہہ دیا کہ یا تو میرا لایا ہوا دین غالب ہوگا یا میں اسی راہ میں اپنی جان کھپا دوں گا۔بالآخر ریاست مدینہ کی تشکیل اور فتح مکہ نیز کعبہ کو تمام بتوں سے پاک کرنے کے بعد آپؐ کو تکمیل دین کی بشارت دی گئی اور آپؐ نے حجۃ الوداع میں ابلاغ دین پر صحابہ کرامؓ سے گواہی حاصل کی۔افسوس ہوتا ہے کہ جب دین کے ٹھیکیداروں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ سیاست و حکومت کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے،آج باطل نے طاقت کے بل پر عظیم الشان مندر تعمیر کرلیا اور حق کے علمبردار آج بھی حصول اقتدار کو گناہ تصور کرتے ہیں اور تسبیح و مناجات کی تلقین کرتے ہیں۔خدا کے واسطے اپنی سوچ کو بدلیے۔ اقتدار کی جانب قدم بڑھائیے اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کیجیے جو اقتدار کے لیے لازمی ہیںاور آپ کوجہاں اقتدار حاصل ہے وہاں عدل سے کام لیجیے۔انسانیت کی خدمت کیجیے ۔دنیا کو کچھ دینے والے بن جائیے۔ دینے والوں کا مقام ہمیشہ اوپر رہتا ہے ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS