صبیح احمد
امریکی صدر بائیڈن کے لیے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اب گلے کی ہڈی بنتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک طرف صدر بائیڈن کو جہاں فلسطین پر اسرائیلی بمباری کے خلاف عالمی رائے عامہ کے دبائو کا سامنا ہے، وہیں کچھ ہی مہینوں کے بعد امریکہ میں صدارتی الیکشن ہونے والے ہیں جس میں سابق صدر ٹرمپ ایک بار پھر پوری طرح کمر کس کر میدان میں اتر آئے ہیں۔ ادھر وزیراعظم نیتن یاہو ہیں کہ فلسطین جنگ کے حوالے سے صدر بائیڈن کی ہر بات کو من و عن ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ اپنی گھریلو اور انتخابی مجبوریوں کے تحت بائیڈن چاہتے ہیں کہ اب اسرائیل کو اپنی جارحیت میں کمی لانی چاہیے اور مسئلہ کے حل کے لیے عالمی رائے عامہ کے مطابق دو ریاستی نظریہ پر عمل پیرا ہونا چاہیے، لیکن اسرائیلی وزیراعظم ابھی تک اس سے صاف انکار کر رہے ہیں اور جنگ کے بعد بھی عزہ پٹی میں فلسطینیوں کا کوئی عمل دخل نہیں چاہتے ہیں۔ نیتن یاہو امریکی خارجہ پالیسی کے طویل مدت سے بیان کردہ اس ہدف کو مسترد کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ جنگ کے بعد امن عمل کے تحت ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے۔ بائیڈن کو نیتن یاہو کا یہ نظریہ قطعی قبول نہیں ہے اور وہ خطہ میں فلسطینیوں کی ہی حکمرانی چاہتے ہیں، خواہ اس کا طریقہ کار کچھ بھی ہو۔ نظریاتی طور پر یہ اختلافات اب کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔
صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے گزشتہ ہفتہ تقریباً 4 ہفتوں کے وقفہ کے بعد فون پر براہ راست بات چیت کی۔ اس دوران غزہ میں لڑائی ختم ہونے کے بعد فلسطینی ریاست کے ممکنہ طریقہ کار پر بنیادی اختلافات سامنے آ گئے۔ بائیڈن نے خود اس کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ میں ایک بڑے معاملے پر متفق نہیں ہوں لیکن حماس کی تباہی تک اسرائیل کو مدد فراہم کرتے رہیں گے۔ انہوں نے نیتن یاہو کے ساتھ اپنے پیچیدہ تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم ایک ’مشکل پوزیشن‘ میں ہیں اور دونوں کے درمیان برسوں سے اور فی الحال بھی اختلافات ہیں۔ وہائٹ ہاؤس میں ایک استقبالیہ سے خطاب کر تے ہوئے انہوں نے نیتن یاہو کے ساتھ اپنے دہائیوں پرانے تعلقات کو بھی یاد کیااور یہ بھی کہا کہ مجھے آپ (نیتن یاہو) سے پیار ہے لیکن میں آپ کی ایک بڑی بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ حالانکہ بائیڈن نے کھل کر یہ نہیں بتایا کہ دونوں کے درمیان کیا اختلافات ہیںلیکن حالیہ ہفتوں میں انہوں نے حماس کے خلاف موجودہ جنگ اور فلسطینیوں کے ساتھ سلوک جیسے مسائل کو اٹھایا ہے اور ان پر اعتراض کیا ہے۔ حالانکہ ان کی حالیہ فون کال میں نیتن یاہو کے ساتھ بائیڈن کی مایوسی مزید واضح ہوگئی ہے، لیکن اس کے باوجود بائیڈن کم از کم عوامی طور پر نیتن یاہو کو راضی کرنے کے خیال سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ ایک رپورٹر کے یہ پوچھے جانے پر کہ کیا نیتن یاہو کے دفتر میں رہتے ہوئے دو ریاستی حل ناممکن ہے، بائیڈن نے جواب دیا کہ ’نہیں، ایسا نہیں ہے۔‘
تقریباً 15 ہفتوں کی جنگ کے بعد غزہ پٹی میں مسلسل آگے بڑھنے کے دوران اب اسرائیل کے اندر بھی شدید اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ اسرائیل کی جنگی کابینہ کے رکن ایک جنرل کا جنہوں نے جنگ میں ایک بیٹا کھو دیا ہے، ٹیلی ویژن انٹرویو میں اپنا درد بیان کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ملک حماس کے ساتھ بقیہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک توسیع شدہ جنگ بندی پر عمل پیرا ہے جو کہ ’مکمل فتح‘ کی سرزنش ہے۔ دوسری جانب یرغمالیوں کو رہا کرنے میں حکومت کی ناکامی پر اسرائیلی عوام کے غم و غصے میں بھی اضافہ ہوتا جا رہاہے۔ یرغمالیوں کے رشتہ داراور حامی روزانہ بڑے پیمانے پر سڑکوں پر اترنے لگے ہیں اور کسی بھی قیمت پر اپنے عزیزوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یعنی اسرائیل کا حکمراں اتحاد اس وقت جاری جنگ کے دوران شدید اور مسابقتی دباؤ میں ہے۔ دائیں بازو کے سیاست داں فوج پر زور دے رہے ہیں کہ وہ غزہ میں زیادہ جارحانہ انداز میں کام کرے، حالانکہ اسرائیل پوری دنیا میں اس قتل عام اورخطہ کو تباہ کرنے پر غم و غصے کا سامنا کر رہا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ یرغمالیوں کے اہل خانہ اپنے عزیز و اقارب کی واپسی کو محفوظ بنانے کیلئے مراعات دینے پر زور دے رہے ہیں۔ اس لیے نیتن یاہو کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ گھریلو دبائو کے تحت کام کرے یا عالمی رائے عامہ اور بالخصوص اپنے قریب ترین اتحادی امریکہ کی پالیسی کے تحت۔
بہرحال اسرائیل- فلسطین جنگ کی اس پیچیدہ صورتحال میں صدر بائیڈن عجیب کشمکش میں مبتلا نظر آ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ صدر بائیڈن اس سال 2 ریسوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ایک امریکہ میں ڈونا لڈ ٹرمپ کے خلاف اور ایک اسرائیل میں بنجامن نیتن یاہو کے خلاف۔ اسرائیلی رہنما کے لیے بائیڈن کی حمایت ان کے ترقی پسندانہ نظریہ کے سبب مہنگی پڑ رہی ہے، اس لیے نیتن یاہو اب بائیڈن کو سائڈ لائن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ٹرمپ کو دائیں بازو کے امریکی یہودیوں کی تازہ حمایت حاصل ہوسکے۔ اس دعویٰ کے پیچھے ایک جواز ہے۔ حال ہی میں قومی سطح پر نشر ہونے والی ایک نیوز کانفرنس میں نیتن یاہو نے کچھ واضح کیا ہے جس کا اشارہ انہوں نے حالیہ ہفتوں میں ہی دیا تھا۔ 7 اکتوبر کو حماس کے تباہ کن حملے کے باوجود نتین یاہو اس دلیل کے ساتھ اقتدار میں رہنے کے لیے اپنی مہم تیار کرنے جا رہے ہیں کہ امریکی اور عرب ایک فلسطینی ریاست کو زبردستی اسرائیل کے گلے سے نیچے اتارنا چاہتے ہیں اور ان کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے میں واحد مضبوط اسرائیلی لیڈر ہوں۔ اس لیے مجھے ووٹ دیں، خواہ میں نے 7 اکتوبر کو گڑبڑ کر دی ہو اور یہ کہ غزہ کی جنگ اتنی طویل نہیں ہونے جا رہی ہے۔ صرف میں ہی ایک تبدیل شدہ فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام مغربی کنارہ کے ساتھ غزہ کو ایک فلسطینی ریاست کا حصہ بننے کے بائیڈن کے منصوبے سے بچا سکتا ہوں۔ دراصل وہ انتہائی جذباتی سیاسی پیغام کی تلاش میں ہیں تاکہ اگر وہ اپنے خلاف بدعنوانی کے 3 مقدمات میں سے کوئی بھی ہار جاتے ہیں تو انہیں وزیراعظم بنے رہنے اور جیل سے باہر رہنے کے لیے دائیں بازو سے کافی ووٹ مل جائیں۔
دراصل دونوں فریق ملکی سیاسی تحفظات کے تحت مجبور ہیں۔ بائیڈن ایک سینٹر-لیفٹ ڈیموکریٹ ہیں اور نیتن یاہو اسرائیل کی تاریخ کی سب سے قدامت پسند حکومت کی قیادت کررہے ہیں۔ دونوں کے درمیان خلیج اس لیے بھی بڑھ رہی ہے کیونکہ امریکہ پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل پر ایک ایسی جنگ کو جس میں اب تک 25ہزار سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت ہو چکی ہے، ختم کرنے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرے۔ جبکہ نیتن یاہو پر بھی اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے روز بروز دبائو بڑھتا جا رہا ہے۔ بائیڈن اور نیتن یاہو کے درمیان تعلقات پر سیاسی تحفظات حاوی ہوتے جارہے ہیں اور آئندہ صدارتی انتخابات اور دونوں رہنمائوں کی کمزوریوں کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔ دونوں کے درمیان مزید دوری دیکھنے کو مل سکتی ہے۔
[email protected]