عالمی عدالت سے انصاف ملنے کا امکان کم

0

106دنوں سے زیادہ تک لاکھوں ٹن گولا بارود سے تباہی مچانے کے باوجود بھی آج تک دنیا کی کوئی بھی طاقت اسرائیل کو اس کے ظلم وستم سے نہیں روک پارہی ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے یہ بات پوری دنیا کو باور کرادی ہے ان کایہ بیان ہیگ میں عالمی عدالت کے زیر سماعت انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں اور نسل کشی کے تناظر میں آیاہے۔ انہوںنے صاف طور پر کہا ہے کہ ہیگ اور یا کوئی بھی دوسری طاقت ان کو غزہ میں کارروائی کرنے سے روک نہیں سکتی ہے۔ اس سے قبل اسرائیل کے سرپرست اعلیٰ امریکہ کے ایک سینئر افسر اور ترجمان جان کربی نے بھی اس جنوبی افریقہ کی اس عرضی کو بلا جواز اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ غزہ میں 25ہزار سے زائد معصوم افراد کی جان لینے کے بعد کسی بھی عالمی طاقت کا ضمیربیدار نہیں ہوا۔ جبکہ اس وقت پوری دنیا اور اقوام متحدہ کی پانچ عالمی طاقتیں اسرائیل کو اس کے مظالم سے نہیں روک پارہی ہے تو دوسری طرف امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے مصر کی راجدھانی قاہرہ میں عرب ملکوں پر زور دیتے ہوئے کہاہے کہ وہ ایران کو الگ تھلگ کردیں۔ وزیر خارجہ امریکہ نے یہ بیان تمام مغربی ایشیائی ملکوں بشمول اسرائیل اور فلسطین، دورہ آخری مرحلے میں دیا ہے۔ اس پورے بیان سے امریکہ کا منشا صاف دکھائی دے رہی ہے۔ امریکہ کی ترجیجات کیا ہیں اور کیوں ہیں؟ اس سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ امریکی وزیر خارجہ کی ترجیحات کیاہیں۔یہ پہلا موقع نہیں کہ جب اسرائیل کی مظالم بربریت کو نظرانداز کرتے ہوئے اسرائیل کو تحفظ فراہم کررہا ہے، مگر اصل مسئلہ فلسطین پر کوئی توجہ ہے۔ امریکہ ان تمام سانحات اور بربریت آمیز کے واقعات کے دوران سعودی عرب پر زور ڈال رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے اور اس کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرے۔ اسرائیل 1992-93میں کیے گئے امن معاہدے کی مخالفت کررہا ہے اور عالمی برادری کے منشا اور خواہش کے مطابق اسرائیل پر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے دباؤ نہیں ڈال رہا ہے۔اسرائیل دیدہ دلیری کے ساتھ ارض فلسطین کو آزاد کرنے کو تیار اورناہی وہاں کے لوگوں کو آزادی سے جینے نہیں دے رہا ہے۔ اس پوری قواعد کے دوران جس وقت امریکی صدر مغربی ایشیا کے دورہ کررہے تھے تو اسرائیل کی آگ اگلنے والے طیارے اسپتالوں، اسکولوں اور کھلے میدان میں ٹینٹوں میں رہنے والے فلسطینیوں پر بم برسا رہے تھے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے تل ابیب کے دورے سے قبل اسرائیل نے غزہ کے ایک رہے سہے ہوئے اسپتال الاقصیٰ پر بمباری کی جس میں زیر علاج مریضوں ، ڈاکٹروں اور اسپتال کے دیگرعملے کو جن کی مجموعی تعداد تقریباً 600 بتائی جاتی ہے۔ اپنی مریضوں کو لے کر اسپتال چھوڑنے اور جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے کو مجبور ہوناپڑا۔ دراصل اسرائیل اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کی محور اور مرکز بھی یہی ہے کہ وہ ملت اسلامیہ میں انتشار پیدا کرے۔ وہابی، شیعہ، سنی اور دیگر تفرقوں میں بانٹ کر باری باری سب کوکمزور خاتمہ کرکے انھیںاپنا دست نگربنائے رکھے۔ فلسطینیوں کی حمایت ، ہمدردی اس کو نہیں ہے ، نہ ہی مسلمانوں کا جذبات کا احسا س ہے جو مسجد اقصیٰ اور یروشلم کی مقدس سرزمین کو لے کر ہے۔ مسلمانان عالم اس سرزمین کو لے کر جذباتی ہیں۔ وہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے اس کے علاوہ یہ کہ اسرائیل کی موجودہ آبادی وہاں کی مقامی آبادی بھی نہیں ہے بلکہ ارض فلسطین پر دنیا کے بھرکے یہودیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اور چن چن کر یہاں بسایا جا رہا ہے۔ یہاں کی مقامی آبادی کو بے گھر کیا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ سرزمین یہاں کے مقامی اور یہاں پیدا ہونے والے لوگوںکی ہے اور دنیا بھر سے لاکر بسائے جا رہے لوگ کا قیام غیر مناسب اور بنیادی حقوق کے صریحاً خلاف ورزی ہے اور صہیونیوں کے مفروضات، خیالی قصوں اور کہانیوں اور ان کے مذہبی کتب پر مبنی اصولوں کے مطابق انبیاء اور رسل کی مقدس سرزمین پر زبردستی قبضہ کررہا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کارروائی میں عیسائی اور مسلمانوں کو برابر نقصان پہنچا رہا ہے۔ اسرائیل اپنے سرپستوں امریکہ ،برطانیہ، فرانس کی ان تشویشوں کو مسلسل نظرانداز کررہا ہے جو غزہ اور مغربی کنارے کو لے کر ہیں۔ مغربی کنارے میں اسرائیل کی جارحانہ کارروائی مسلسل چل رہی ہے۔ مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو منصوبہ بندی کے ساتھ بے دخل کیا جا رہا ہے ۔ ان کے گرد محاصرہ تنگ جا رہاہے ، ان کی زندگی مشکل بنائی جا رہی ہے، دنیا بھر کے یہودیوں کو لا کر ان کوذاتی تحفظ کے نام پر بے حد زیادہ اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ یہودیوں کو ہتھیار رکھنے کی کھلی چھوٹ ہے ، معمولی اور آپسی جھڑپ کے دوران یہودی فلسطینیوں پر حملہ کرکے ان کو مارڈالتے ہیں اوران کو کسی بھی قانونی چارہ جوئی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ اسرائیل کے قوانین میں یہودیوں تحفظ کے نام پر غیر فلسطینیوں کو اس قدر اختیارات دے دیے گئے ہیں ان قاتلانہ وارداتوں کو انجام دینے کی ان کو پوری چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
106دن سے جاری بمباری سے اسرائیل چاہتا ہے کہ پورے غزہ کی پٹی برباد ہوجائے ، رہنے کے قابل نہیں رہے اور ظاہر ہے کہ اس بربادی اور تباہی کے بعد جب اسرائیل کا پورا کنٹرول غزہ پر ہوجائے گا اور پورے 365کلو میٹر یا 141مربع میل کے اس قطع اراضی میں اس کی مرضی کے پتّہ تک نہیں ہلے گا تو تعمیراتی اور باز آبادکاری کی سرگرمیوں پر وہ قدغن لگا کر سخت قانونی پابندیاں نافذ کرکے اپنی مرضی اور منصوبوں کے مطابق مکانات اور عمارات قائم کرنے کی اجاز ت دے گا یا نہیں دے گا۔ خیال رہے کہ مغربی کنارے یروشلم اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں اور عام عربوں کو پریشان کرکے ان کو اس بات کے لیے مجبور کیا جارہاتھا کہ وہ غزہ میں منتقل ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتہائی محدود جغرافیائی حدود میں فلسطینیوں کو اتنی بڑی تعداد محصور ہے، محصور ان معنوں میں ہے کہ 2006میں اسرائیل نے اس کے گرد ایک بلند اور آہنی دیوار کھڑی کردی ہے تاکہ یہاں کے لوگ آزادانہ طور پر اسرائیل کی سرزمین میں منتقل نہ ہوپائے۔ اس وقت بھی عالمی عدالت میں اس دیوار کو غیر انسانی قرار دیا تھا۔ عالمی عدالت کے اس حکم کے باوجود یہ دیوار وہیں آج بھی کھڑی ہے اور عام فلسطینیوں کے کرب و آلام میں اضافہ کررہی ہے۔ شاید نیتن یاہو نے اپنے بیان میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ عالمی عدالت بھی اس کو کسی جارحانہ عمل کارروائی سے روک نہیں سکے۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS