عبدالماجد نظامی
ہندوستان دنیا کا ایک ایسا اکلوتا ملک ہے جہاں جشن منانے کے بیشمار اسباب پائے جاتے ہیں۔ تاریخی طور پر اس ملک کی سب سے بڑی خوبی یہ مانی گئی ہے کہ یہاں خالق کائنات سے لَو لگانے والے خدا ترس رشی منی اور صوفیاء اور انسانی آبادی کو محبت اور امن و آشتی کے دھاگے میں پرونے والے لوگ بڑی تعداد میں پیدا ہوئے۔ یہ پہلو اس ملک کا ایسا امتیازی وصف بن گیا کہ اس کو کثرت میں وحدت کے خوبصورت نعرہ کے ساتھ یاد کیا جانے لگا۔ ہندوستان کی زمین کو فلاسفہ و حکماء کی زمین بھی کہا گیا ہے کیونکہ ایسے اعلیٰ دماغ لیکن سادگی پسند افراد کی بھی کمی نہیں رہی ہے جنہوں نے تقشف اور تیاگ کے ذریعہ انسانی بستی کو محض صبر و قناعت اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کے رہنما اصول ہی نہیں بتائے بلکہ ان میں علم و حکمت اور دانائی و فراست کے تئیں گہرا لگاؤ بھی پیدا کروایا۔ شری کرشن کے فرمودات پر مبنی گیتا کا مطالعہ صرف ہندو اہل مذہب نے ہی نہیں کیا بلکہ اس کے مطالعہ کے شوقین لوگ مغرب و مشرق میں ہر جگہ مل جائیں گے جنہوں نے گیتا کا مطالعہ کرکے اپنے اندر ہمدردی و انسانیت نوازی اور محبت جیسی عمدہ صفات پیدا کیں کیونکہ یہی وہ خوبیاں ہیں جن کے لیے شری کرشن جی جانے جاتے ہیں۔ اردو کے بعض قارئین کو یہ جان کر بڑی حیرت ہوگی کہ مولانا عبدالماجد دریابادی جنہوں نے مغربی فلسفہ اور بطور خاص مِل اور اسپنسر جیسے مغربی فلاسفہ کا خصوصی مطالعہ کیا تھا، وہ اپنے عہد شباب میں ان حکماء مغرب اور ان کے فلسفۂ مادیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ الحاد کا دامن تھام لیا اور خدا بیزار ہوگئے۔ لیکن دس سال کی طویل مدت کے بعد جن چیزوں نے مادیت سے خداپرستی کی طرف مائل کیا، ان میں گیتا اور جوگ کا خاص رول تھا۔ مولانا عبدالماجد دریابادی نے اپنی ’’آپ بیتی‘‘ میں تفصیل سے اس کا ذکر کیا ہے اور بنارس کے رہنے والے بھگوان داس جی جنہوں نے ہندو فلسفہ اور گیتا پر بہت لکھا ہے، ان کا ذکر بڑی عقیدت سے کیا ہے اور ان سے ملاقات کا واقعہ بھی بیان کیا ہے۔ مولانا کا وطن دریاباد تھا اور انہوں نے اتر پردیش کے سیتاپور اور لکھنؤ کے علاوہ شہر فیض آباد میں، جس کو آج ایودھیا کہا جا رہا ہے، کافی وقت گزارا ہے۔ یہ وہ ہندوستان تھا جہاں سماج کو مذہب کے نام پر تقسیم نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ایک ملحد مسلم اس بات کا احسان مند ہوتا ہے کہ اسے اسلام کی وسعت کی طرف واپسی کا پہلا زینہ جوگ اور گیتا کے ذریعہ ملا اور آخرکار اپنے طویل تلاش حق کے سفر میں جن مقامات سے گزرے، ان میں اولیاء کے مزارات اور ہندو اہل دل کے ٹھکانے سب شامل تھے۔ قدرت نے آخرکار انہیں مجدد الف ثانی کے خطوط کے راستے مولانا اشرف علی تھانویؒ تک پہنچایا جن کے دست مبارک پر بیعت کرکے وہ سراپا اسلام کے گرویدہ ہوئے اور مفسر قرآن ہونے کا شرف حاصل کیا۔ کتنا دلچسپ واقعہ ہے یہ کہ گیتا سے حق کی طرف واپسی کا سفر شروع ہوا اور اللہ کی آخری کتاب کے مفسر بن کر سرخرو ہونے کا شرف حاصل کیا۔ یہ اسی ملک میں ممکن تھا۔ یہ معاملہ صرف مذہبی کتابوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اسلام جب عہد عباسی میں اپنے عروج کے اوج ثریا پر متمکن تھا اور دار الخلافہ بغداد کے تخت پر مامون الرشید جلوہ گر تھے اور انہوں نے دنیا بھر کے اہل علم کو جمع کیا تاکہ وہ اپنے یہاں کے مروجہ فلسفوں کا ترجمہ عربی زبان میں کریں تو اس مقصد کے لیے جہاں ایک طرف انہوں نے روم و یونان کے حکمرانوں کو خطوط لکھے اور ان سے کتابیں اور دانشوران دونوں منگوائے، وہیں ہندوستان کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ ہمارے ملک عزیز سے بھی ہندو فلاسفہ گئے اور انہوں نے سنسکرت سے عربی میں ترجمہ کا کام کیا۔ اس سلسلہ میں عربی کی معروف کتاب ’’کلیلہ و دمنہ‘‘ بطور مثال پیش کی جا سکتی ہے جو دراصل ’’پنچ تنتر‘‘کا ترجمہ ہے۔ یہ کتاب سنسکرت سے فارسی میں منتقل ہوئی تھی اور اس کے بعد منصور کے دربار کے معروف ادیب عبد اللہ بن مقفع نے اس کا ترجمہ عربی زبان میں کیا اور آج تک عرب و عجم میں رائج ہے۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں نے کبھی بھی ہندوازم کو ایک دشمن کے طور پر پیش نہیں کیا اور نہ ہی ہندوؤں کی اکثریت نے کبھی اسلام اور مسلمانوں کے تئیں معاندانہ رویہ رکھا۔ اس ملک میں اسلام مخالف رویہ کی تاریخ بہت نئی ہے اور سنگھ پریوار نے اول دن سے اس میں اپنا بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ جنگ آزادی کے دوران بھی ہمیں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ گاندھی جی جیسی ہندو مذہب پر عمل کرنے والی شخصیت کے ہاتھوں میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے مسلم رہنماؤں نے اپنا ہاتھ دیا تھا اور آخر لمحۂ حیات تک ان کے فرماں بردار اور رفیق کار رہے اور گاندھی جی نے بھی ان کے ساتھ شفقت و ہمدردی اور اخلاص کا معاملہ فرمایا۔ لیکن جب سے سنگھ پریوار نے اس ملک میں مذہب کو ہتھیار بناکر استعمال کرنا شروع کیا، تب سے اس ملک کا چین و سکون غارت ہوگیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ رام کے نام پر جس سیاست کی فتح کا جشن سنگھ پریوار ایودھیا میں منا رہا ہے، اس کے پہلے شکار گاندھی جی ہی آزادی کے بعد ہوئے اور مرتے وقت ان کی زبان سے آخری جملہ ’’ہے رام‘‘ کا ہی نکلا۔ یہ جملہ دراصل اس سیاست کے تئیں اظہار افسوس تھا جس کی سرشت میں قتل و خون کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس کا ثبوت یہ امر ہے کہ اسّی کی دہائی کے بعد سے اب تک اس ملک میں مذہب کی سیاست کے نام سے ایک خاص طبقہ کو حاشیہ پر ڈالا جا رہا ہے اور آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سیکولر اور جمہوری دستور کے نام پر منتخب ہونے والے لیڈران نے اپنی دستوری ذمہ داریوں کو بالائے طاق رکھ کر مذہب کی زمام سنبھال لی ہے۔ اس جنونی جشن نے ملک بھر میں ایسا ماحول قائم کر دیا ہے کہ اقلیتیں سہمی اور سمٹی ہوئی ہیں جبکہ سیاسی پارٹیوں سے لے کر میڈیا تک ہر ایک نے رام کے نام پر ایسا طوفان کھڑا کر دیا ہے کہ اس کے شور میں تمام جمہوری اصول دم توڑ گئے ہیں۔ اس ملک کے وزیر اعظم اور سنگھ پریوار کو بتانا چاہیے کہ وہ آخر ایودھیا میں کس چیز کا جشن منا رہے ہیں؟ دھرم پر ادھرم کی جیت کا یا پھر کسی اور بات کا؟ کیا سنگھ پریوار اپنے حامیوں کو یہ بتا پائے گا کہ رام مندر کی تحریک کا مقصد مذہب اور خدا ترسی نہیں بلکہ سیاسی بازیگری کے ذریعہ اقتدار کو حاصل کرنا تھا؟ کیا اس ملک کے عوام کو یہ بتایا جائے گا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی جیسا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں بیان کیا تھا؟ یہ بھی بتایا جانا چاہیے کہ جن کارسیوکوں نے مسجد کو شہید کیا تھا انہیں سپریم کورٹ نے مجرم گردانا ہے۔ لیکن آج میڈیا میں ان کارسیوکوں کو ہیرو کی طرح پیش کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ رام مندر کے ذریعہ وہ ملک کو جوڑنے کا کام کر رہے ہیں۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ اس ملک کی شومئی قسمت ہے کہ مذہب کو ہتھیار میں بدل دیا گیا اور ملک کے تمام طبقوں کو خانوں میں بانٹ کر اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا گیا۔ اگر اس ملک کے اتحاد کی ذرا بھی فکر ہمارے ارباب اقتدار رکھتے ہیں تو انہیں تمام تاریخی غلطیوں کے لیے معافی مانگنی چاہیے اور مذہب کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے بند کرکے دستوری اصولوں کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیے۔ تبھی اس ملک کا بھلا ہوگا ورنہ رام بھروسہ یہ ملک کہاں جائے گا، اس کی جہت صاف نظر آ رہی ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]