بوکارو (محبوب عالم): وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے اقتدار میں واپسی کے بعد اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ موجودہ ریاستی حکومت ریاست کے سبھی طبقوں کے فلاح و بہبود کے لئے ہر ممکن اقدامات کرے گی اور خاص طور پر اقلیتی آبادی کی ترقی پر توجہ دے کر ان کے مسائل حل کرے گی۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ساڑھے 4 سال کا وقفہ گزر گیا اور اس درمیان وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین اقلیتی آبادی سے اپنے کئے وعدوں کو پوراکرنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ جھارکھنڈ حکومت کے تحت چلنے والی سبھی سرکاری اقلیتی اداروں کی تمام سرگرمیاں ایک طرح سے ٹھپ کردی گئیں۔ جھارکھنڈ اردو اکیڈمی، ریاستی اقلیتی کمیشن، ریاستی حج کمیٹی، اردو مشاورتی کمیٹی کے علاوہ کئی ایسے ادارے جو ماضی میں اپنی خدمات کے ذریعہ لوگوں میں اپنی گرفت مضبوط کرنے میں کامیاب رہا آج سیکولر حکومت کے دور اقتدار میں یہ سبھی ادارے دم توڑ رہے ہیں اور اس کے لئے یقیناً موجودہ اور ریاستی حکومت ذمہ دار ہے اور خاص طو رپر سب سے بڑی ذمہ داری سورین کابینہ میں شامل ان دونوں مسلم وزراء کی ہے جو مسلم کوٹے سے کابینہ میں شامل کئے گئے۔ اس سلسلے میں بوکارو، سنگھ بھوم،ہزاری باغ، پتھرگاما، ڈالٹین گنج، گریڈیہہ کے علاوہ ریاست کے کئی اضلاع کے مسلم دانشوروں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ اپنی ہی حکومت کے دور اقتدار میں سبھی سرکاری اقلیتی اداروں کو ایک طرح سے مردہ کر دیا گیا اور ان کی تمام سرگرمیاں ٹھپ کردی گئیں۔
جبکہ سورین حکومت کو اقتدار میں لانے میں سب سے زیادہ قربانی مسلم طبقہ نے دی ہے۔ یہ طبقہ آپس میں متحد ہوکر بی جے پی کی حکمت عملی کو ناکام بناتے ہوئے عظیم اتحاد حکومت کے اقتدار میں واپسی کے لئے اپنی پوری طاقت لگادی اور اس مشن میں یہ طبقہ کامیاب رہا۔ انہیں یقین تھا کہ وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین جو مسلم ووٹوں کے سہارے اقتدار میں لوٹنے میں کامیاب رہے ہیں یقیناً ان کی کارکردگی سے جھارکھنڈ کا سبھی طبقہ فیضیاب ہوگا اور خاص طور پر مسلمانوں کے مسائل حل ہوں گے اور ریاست کی سبھی اقلیتی اداروں کو فعال اورمتحرک بناکرانہیں سرگرم کیا جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان ساڑھے 4برسوں میں ریاست کی اردو آبادی روزنامہ نامہ راشٹریہ سہارا کے ذریعہ اپنی آواز بلند کی اور حکومت کو یہ بابت کرانے کی کوشش کی کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ان کا امتحان نہ لیا جائے۔ کیونکہ اگر یہ طبقہ صحیح معنوں میں غفلت سے بیدار ہوا تو اس کی بھاری قیمت عظیم اتحاد حکومت کو چکانی پڑے گی اور اس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو پہنچے گا۔ آج حالات بالکل اسی طرح کے دیکھے جارہے ہیں اور اس کے لئے یقیناً موجودہ ریاستی حکومت پوری طرح ذمہ دار ہے۔ ان دانشوران کا کہنا تھا کہ جب یہاں کی اردوآبادی جھارکھنڈ اردو اکیڈمی کے ساتھ ساتھ ریاستی اقلیتی کمیشن، ریاستی اقلیتی مالیاتی کارپوریشن لمیٹیڈ، ریاستی اردو مشاورتی کمیٹی کے علاوہ کئی ایسے اداروں کی تشکیل نو کا مطالبہ کرتی رہی ہے لیکن اس معاملے میں نہ تو وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین سنجیدہ دکھائی دیئے اور نہ ہی کابینہ میں شامل عالمگیرعالم کے علاوہ حفیٖظ الدین نے اس معاملے میں کوئی قدم اٹھایا۔ آخرموجودہ ریاستی حکومت نے ان اداروں کے ساتھ حق تلفی کا سلسلہ آخر کس بنیاد پر جاری رکھا۔
مزید پڑھیں: نظام کو بدلنے کیلئے ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائیوں کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا: فاروق عبداللہ
آنے والے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں ریاست کی اردو آبادی حکومت سے اس معاملے میں سوالات کی طلبگار ہے اور حکومت کو اس کی جواب دینی ہوگی۔ جبکہ بی جے پی کی کوشش یہی ہے کہ اس انتخابات میں وہ کسی بھی طرح مسلم ووٹوں کی تقسیم کو یقینی بناکر اپنی ہاری ہوئی بازی کو جیتنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔