واشنگٹن (یو این آئی): امریکی قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان براہ راست بات چیت کے بجائے علاقائی معاہدے پر عمل پیرا ہے۔
ڈیووس میں ایک تقریب میں امریکی اہلکار سلیوان نے کہا کہ ہم نے طے کیا کہ بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایک ایسے پیکج ڈیل کے لیے کام کیا جائے جس میں اسرائیل اور کلیدی عرب ریاستوں کے درمیان معمول پر لانے کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کے لیے بامعنی پیش رفت اور سیاسی افق شامل ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ 7 اکتوبر سے پہلے ہمارا ہدف تھا اور یہ اس مقصد کی طرف ہماری پیش رفت تھی جسے حماس نے 7 اکتوبر کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ 7 اکتوبر کا حملہ اسرائیلی عرب ‘تعلقات’ میں خلل ڈالنے کی کوشش کی گئی۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ عرب ریاستیں طویل مدتی حل کے بغیر غزہ کی تعمیرِنو کی خواہشمند نہیں۔
بلنکن نے سی این بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ “آپ کو فلسطین کا مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ انہوں نے فلسطینیوں کی ریاستی حیثیت کے لیے جدوجہد کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ عرب ممالک یہ کہہ رہے ہیں کہ دیکھو، ہم اس معاملے میں شامل نہیں ہوں گے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ غزہ کو ایک سال کے لیے یا 5 سال کے لے تعمیر کریں اور پھر وہی سب، یعنی بعد میں دوبارہ تعمیرِ نو ۔
وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود نے کہا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہونے کی صورت میں سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا سعودی عرب فلسطینی تنازع کے حل کے بعد اسرائیل کو وسیع معاہدے کے حصے کے طور پر تسلیم کر سکتا ہے؟ تو سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے جواب دیا “یقینی طور پر۔”
ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم کا کہہ چکے ہیں کہ اگر اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا چاہتا ہے تو اسے دو ریاستی حل کو قبول کرنا ہوگا۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب میں پہلا روزہ کس تاریخ کو ہوگا؟ :پڑھیں رپورٹ
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس دو آپشن ہیں: موت کے چکر کو جاری رکھیں یا 7 اکتوبر کو تبدیلی کے طور پر استعمال کریں۔ نیتن یاہو نے اس بات پر فخر کا اظہا کیا کہ انہیں فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے پر فخر ہے اور انہوں نے اوسلو معاہدے کو ایک عبرتناک غلطی قرار دیا۔