نئی دہلی(اظہار الحسن): جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہمیں کاشی اور متھرا کی مساجد کے سروے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ آپ جتنا چاہیں ان مساجد کا سروے کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر عبادت گاہوں کا قانون 1991 میں نافذ کیا گیا تو ان مسائل کو نہیں اٹھایا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے سیکولر کہنے والی سیاسی جماعتوں کی خاموشی درست نہیں ہے جنہوں نے یہ قانون بنایا تھا کم از کم ان کو آواز اٹھانی چاہئے۔ مولانا ارشد مدنی نئی دہلی واقع کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا میں منعقدہ پریس کانفرنس میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔
اس موقع پر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے گیان واپی کیس میں مسلم فریق کی درخواستوں کو مسترد کیے جانے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ (مسجد کی) کمیٹی گیان واپی کیس میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے اس نے کچھ وکلاء سے بھی بات کی ہے۔ واضح رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے گیان واپی مسجد کمپلیکس کی ملکیت اور گیان واپی کمپلیکس کا جامع سروے کرنے کی ہدایت پر وارانسی کی عدالت میں زیر التوا اصل مقد مے کی برقراری کو چیلنج کرنے والی پانچوں درخواستوں کو منگل کے روز خارج کردیا۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ یہ ملک ہمارا ہے، سپریم کورٹ ہمارا ہے، جو بھی کیس ہوگا ہم عدالت میں رکھیں گے۔ عدالت سے جو بھی فیصلہ آئے ہم اسے قبول کریں گے۔ متھرا کی شاہی عیدگاہ کا معاملہ بھی عدا لت میں زیر غور ہے۔ اس معاملے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن 1991 میں قانون بننے کے باوجود اس معاملے کو اٹھانا درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنا مقدمہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں پیش کریں گے اور اس کے فیصلے کو تسلیم کریں گے، کیونکہ سپریم کورٹ ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے اور اس کے بعد کوئی قانونی آپشن نہیں بچا۔
صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے آگے کہاکہ بابری مسجد تنازعہ پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں واضح طورپر یہ بات کہی ہے کہ مندرتوڑکر مسجد بنانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، لیکن اب کچھ فرقہ پرست لوگ اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہیں اوراسے اکثریت کی فتح کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہے،گیان واپی مسجد کو لیکر آئے حالیہ فیصلہ پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں سروے پر کوئی اعتراض نہیں ہمیں یقین ہے کہ اگر ایمانداری سے سروے ہواتووہاں سے کچھ بھی نہیں نکلے گالیکن اب جس طرح یہ نیاتنازع کھڑاکیاگیاوہ 1991میں عبادت گاہوں کے تحفظ پر پارلیمنٹ کے ذریعہ لائے گئے قانون کے منافی ہے جس میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ بابری مسجد کے علاوہ ایسی کسی بھی عبادت گاہ کا اب کوئی تنازع نہیں کھڑاکیا جائے گاجو 1947سے موجودہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا جمعیۃعلماء ہند اس معاملہ کو سپریم کورٹ لے جائے گی توانہوں نے جواب دیا کہ قانون نے ہمیں جہاں تک جانے کا راستہ دیاہے ہم وہاں تک جائیں گے، سیکولرپارٹیوں کی اس کو لے کر خاموشی پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو سیاسی پارٹی یہ قانون لے کر آئی تھی اسے بہرحال اس پر بولنا چاہئے، فلسطین تنازع پر بعض صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے ایک بارپھر کہا کہ تاریخ کا جانناضروری ہے اسرائیل نے وہاں غاصبانہ قبضہ کررکھاہے اورغزہ کے لوگ اپنی زمین کو آزادکرانے کی جنگ لڑرہے ہیں انہیں دہشت گردکہنا غلط ہے۔ملک کے موجودہ حالات کے تناظرمیں کئے گئے سوالات کے جوابات میں انہوں نے کہاکہ سیکولرزم کامطلب یہ ہے کہ ملک کا کوئی مذہب نہیں ہوگامگر افسوس کہ اب ملک میں سب کچھ اس کے الٹ ہورہاہے۔
مزید پڑھیں: دھن کھڑ کی نقل اتارے جانے پر مہوا موئترا کا طنز
مولانا مدنی نے دوٹوک لہجہ میں کہا کہ اب ملک کے تمام شہریوں کو نہیں اکثریت کو خوش کرنے کی سیاست ہورہی ہے۔ البتہ خانگی معاملات خاص طورپر شادی بیاہ، طلاق وغیرہ کے ضابطے الگ الگ ہیں اوریہ صدیوں پرانے ہیں، خودہندوں میں مختلف برادریوں میں شادی اورطلاق کے الگ الگ طریقہ اوررسومات رائج ہیں، مگر اس سے ملک کے امن وسلامتی پر کبھی کوئی خطرہ نہیں پیداہوا، یکساں سول کوڈلانے کا مطلب یہ ہے کہ سب کے لئے خانگی قانون ایک جیساہوگا، لیکن تاثریہ دیاجاتاہے کہ یہ مسلمانوں کے لئے ہی لایا جارہاہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمراں جماعت میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہے جو مسلمانوں کے مسائل ان کے سامنے پیش کرسکے۔ ملک کے سیکولرڈھانچہ اورجمہوریت کے لئے یہ تباہ کن ہے۔
انہوں نے کہا کہ انگریزوں نے ہمیں تھال میں سجاکر آزادی نہیں پیش کی بلکہ اس کے لئے ہمارے اکابرین کو بے پناہ قربانیاں دینی پڑی ہیں، اس قربانی میں بلالحاظ مذہب وملت سب شامل تھے، ہمارے پاس افرادی قوت اورصلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے ضرورت یہ ہے کہ اس قوت اورصلاحیت کامثبت استعمال کیا جائے، مگر اب نفرت اورتفریق کی یہ جوسیاست شروع ہوئی ہے یہ ملک کو ترقی نہیں تباہی کے راستہ پر لے جانے والی ہے۔ آئین کی بالادستی کے حوالہ سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاست کے نام پر اب جوکچھ ہورہاہے اس سے آئین کی بالادستی پر سوالیہ نشان لگ چکاہے، سوال یہ ہے کہ جس آئین کی دہائی دی جاتی ہے یہ کوئی نیاآئین ہے یاپھر وہ ہے جسے آزادی کے بعد تیارکیا گیا تھا، اگر یہ آزادی کے بعد لایاگیا آئین ہے توپھر ہمیں یہ تسلیم کرناپڑے گاکہ اب جس طرح ہر مسئلہ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے اورتفریقی رویہ اختیارکیا جارہاہے یہ سراسرغلط اورملک کے امن واتحادکے لئے انتہائی تباہ کن ہے۔