انوراگ مشر
مرکزی قیادت میں یقین، مختلف سماجی طبقات کی بہترحصہ داری، جتانے والے امیدواروں کا انتخاب، زبردست انتخابی تشہیر، انتخابی فہم و فراست، نظریاتی شفافیت اور تنظیمی تال میل کی طاقت پر بی جے پی نے ہندی بیلٹ کی تین اہم ریاستوں میں اپنے مخالفین کو پچھاڑتے ہوئے فیصلہ کن جیت حاصل کی ہے۔ بہترین پیشگی تیاری کے رتھ پر سوار بی جے پی نے چار میں سے تین ریاستوں کی آمنے سامنے کی لڑائی میں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو پچھاڑ دیا جبکہ تلنگانہ میں کانگریس کی شاندار جیت اور بی جے پی کی بڑھی ہوئی طاقت کو جنوبی ہند میں قومی پارٹیوں کے بڑھتے رول اور علاقائی پارٹیوں کی تنزلی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
چاروں ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کانگریس نے علاقائی لیڈروں کے بھروسے لڑا جبکہ بی جے پی کی انتخابی مہم وزیراعظم نریندر مودی کے اردگرد مرکوز رہی۔ ان انتخابات میں مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان سمیت دیگر علاقائی لیڈروں کو پس منظر میں دھکیل دیا گیا۔ مقامی لیڈروں اور طبقاتی رنجش اورباہمی رسہ کشی کی وجہ سے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں ہار کو دھیان میں رکھ کر بی جے پی کی یہ انتخابی اسٹرٹیجی بے حد جوکھم بھری تھی۔ اس جیت کا کریڈٹ بی جے پی کی مرکزی قیادت کی اسٹرٹیجی کو جاتا ہے۔ انتخابی مہم میں شیو راج سنگھ چوہان نے اپنے رول کو کم رکھنے کا انقلابی فیصلہ کرکے مرکزی قیادت کو راجستھان اورچھتیس گڑھ ہی کی طرح مدھیہ پردیش میں بھی ہارجیت کی پوری ذمہ داری لینے کا موقع دیا۔ غور طلب ہے کہ صرف 5 سال پہلے ہی راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس نے جیت حاصل کی تھی مگر اس کے منتخبہ نمائندوں کی موقع پرستی والی سوچ، لالچ اور پارٹی لیڈروں میں تال میل کے فقدان اور دل بدلی کی وجہ سے مدھیہ پردیش میں وہ اقتدار گنوابیٹھی۔ رہی سہی کسر دگ وجے سنگھ، کمل ناتھ اور کانگریس قیادت کی نوجوان طاقت کو پارٹی میں اعلیٰ مقام و احترام نہ دے پانے کے رجحان نے پوری کر دی اور جیوترادتیہ سندھیا کے پارٹی سے نکلنے کے بعد اس کاخمیازہ کانگریس کو بھگتنا پڑا۔
راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت نے زبردست طریقے سے لڑائی لڑی۔ پھر بھی انہیں ہار کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے کانگریس کو پوری طرح سے ختم ہونے سے بچا لیا لیکن بہتر یہ ہوتا کہ اتنی محنت کے ساتھ وہ راجستھان میں کانگریس کے نوجوان چہرے سچن پائلٹ کی صلاحیتوں کو صحیح طریقے سے سمجھتے، ان کا استعمال کرتے اور ان سے بہتر تال میل کرکے انتخابی جنگ کو بی جے پی کے لیے مشکل سے مشکل تر بناتے۔ یہ کیا جا سکتا تھا۔ادھر چھتیس گڑھ میں کانگریس آدیواسیوں کو الگ تھلگ کرنے والی بے ڈھنگی ’سوشل انجینئرنگ‘اور بدعنوانی کے الزامات کی باڑھ میں بہہ گئی۔ ملک کی تینوں ریاستوں نے کانگریس کے مختلف پہلوؤں، خاص کر سماجی انصاف اور فلاحی اسکیموں کی کئی خامیوں کو اجاگر کیا۔ جیت کے لیے اس اسٹرٹیجک پر چلنا کچھ فائدے مند ضرور ہوسکتاہے لیکن یہ مکمل فتح کے لیے کافی نہیں تھا۔
یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے ایک طرف زیادہ نمائندگی دینے والی سیاست اورسماجی نظام قائم کرنا ایک بات ہے جبکہ اسے ذات پر مبنی مردم شماری کے جنون میں بدل دینا بالکل دوسری بات ہے۔ کانگریس قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ ذات پر مردم شماری کا ایشو سماج میں پرانے طریقے سے سوچنے والے کچھ ووٹ فیصدوں کو بڑھا سکتاہے مگر ڈیجیٹل میڈیا کے توسط سے معلومات کی ترسیل اور تعلیم کے فروغ نے ملک کی نئی نسل کو کافی بیدار کر دیا ہے، ا س لیے ایشو اور مسئلوں کا انتخاب ہمہ جہت سطح پر کیا جانا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ایشوز کا کوئی انتخابی اثر نہیں تھا اور اس پر چلائی گئی پارٹی کی مہم سے انتخابی نتائج میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ کانگریس کے خلاف اوربی جے پی کے حق میں کام کرنے والی وجوہات پر نظر ڈالیں تو احساس ہوتاہے کہ انتخاب میں اس طرح کے ایشوز کا اثر بہت کم رہا۔ کانگریس قیادت کو سمجھناہوگا کہ بی جے پی کی ہندوتو کی سیاست ان ہارٹ لینڈاسٹیٹس کے سبھی ذاتوں میں بہتر پیٹھ رکھتی ہے۔ بی جے پی کے ہندوتو والی انتخابی تشہیر کی نچلے طبقے تک نسبتاً زیادہ رسائی ہے۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ ایک طبقے کے اردگردگھومنے اور اکثریتی طبقے کو احترام کا احساس کرانے والی بی جے پی کی سیاست کا جواب ذات پرمبنی سیاست کے آس پاس گھومنے والے ایشوز نہیں ہوسکتے۔ اس طرح کے ایشوز شاید ہی ملک کی نئی نسل کے لیے محرک ہوں۔
اسمبلی انتخابات میں راجستھان نے اپنے واحد مسلم رکن اسمبلی یونس خان کو ٹکٹ نہ دے کر بی جے پی نے اکثریتی طبقے پر مرکوز سیدھی لائن کھینچ کر سیاست کو واضح طور پر دوپالوں میں بانٹ دیا۔ ایسے میں اکثریتی سماج کو ٹکڑے ٹکڑے جیت کا خواب دیکھنے کے بجائے کانگریس کو سبھی طبقا ت کو ساتھ لے کر فلاحی ایشوز اور مسئلوں پرتوجہ مرکوز کرنی پڑے گی۔ جیت کے لیے کانگریس کو اپنے مخالفین کی اکثریتی مرکوز سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے ندیوں کی طرح بانٹ کر سیاست کرنے کی بجائے سمندر کے پانی کی طرح عالمی سوچ کو اپناناہوگا۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ طبقات کی سیاست صرف ایک نکتہ ہے جبکہ کھلے ذہن کی عالمی سوچ اس کی توسیع ۔
تلنگانہ میں کانگریس کی شاندار جیت اور بی جے پی کی بڑھی ہوئی طاقت جنوبی ہند کی ریاستوں میں قومی پارٹیوں کے بڑھتے رول اور مقامی پارٹیوں کی تنزلی کی ابتدا ہے۔ یہاں علاقائی مفاد کے بجائے قومی مفاد کے ایشوز اب زیادہ مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔ ایسے میں پارٹی کی کامیابی کے لیے کانگریس کو ایک نکتے تک محدود سیاست کے بجائے سمندر کے پانی کے پھیلاؤ کی طرح جامع سیاست کی طرف بڑھنا ہوگا۔ اس کی فلاح کا یہی ایک راستہ باقی ہے۔ n
(مضمون نگار اٹل جن سمواد اور سیواسنستھان کے سربراہ ہیں)