فیروز بخت احمد
چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی
اجودھیا تنازع پر سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد ملک میں طرح طرح کے تبصرے ہورہے ہیں ،اسی تناظر میں یہ سوال سامنے آرہا ہے کہ اگر اس وقت مولانا ابوالکلام آزاد زندہ ہوتے توان کا اس پر کیا رد عمل ہوتا؟ اسی موضوع پر مولانا ابوالکلام آزاد کے بڑے بھائی مولانا غلام یٰسین ابو النصر آہ کے پوتے اورمولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے چانسلر فیروز بخت احمد نے جن خیالات کا اظہارکیا ہے اس کے چنداہم اقتباسات پیش ہیں:
بھارت رتن اور آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم امام الہندحضرت مولانا ابوالکلام آزاد اگر حیات سے ہوتے تو ان حالات میں وہ حکمت عملی سے کام لیتے۔ حالانکہ وہ ایک مفسر قرآن ، مفکر، عالم دین اور ہندوستان کے اکابرعلماءمیں تھے اور اپنی زندگی میں بھی انہیں کئی معاملات سے گزرنا پڑا جو اسی نوعیت کے تھے۔ انہوں نے اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا کہ کسی بھی سیاسی ٹکراو¿ والے معاملہ میں ایسا فیصلہ کیا جائے کہ انسان اسلام کی روح سے بھی جڑا رہے اور برادران وطن (ہندوو¿ں)کی دل آزاری بھی نہ ہو۔مولانا آزاد کہا کرتے تھے کہ سب سے بڑا گناہ کسی کی دل آزاری کرنا ہے ۔ لہٰذاگر مولاناآزاد حیات سے ہوتے تو ایودھیا معاملہ پرسپریم کورٹ کے تازہ فیصلہ کواسلامی حکمت عملی کے تقاضہ کے مطابق اور باوجود حدیث و شرع سے میل نہ کھاتے ہوئے، تسلیم کرلیتے ۔
حکمت عملی کا تقاضہ قرآن میںیہ ہے کہ ، ”لکم دینکم و لی دین“یعنی تمہیں تمہارا دین مبارک، ہمیں ہمارادین ۔قرآن حکیم کا ایک اور قول ہے، ”لا اکراہ فی الدین“، یعنی دین کے معاملہ میں کوئی زورزبردستی نہیں۔
جب تک مولانا آزاد جدوجہد آزادی تحریک سے وابستہ نہیں ہوئے تھے ہندوستان کو عربی لوگ ”دارالحرب“ قرار دیتے تھے مگر مولانا آزاد نے ہندوستان کو ”دار الامن“ قرار دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ پنڈت نہرو اور مہاتما گاندھی نے جن سے تقسیم ہند کے معاملہ میں مولانا سخت ناراض تھے،مولانا کی اس بات پر دھیان نہیں دیا جیسا کہ اکثر ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ مولانا نہ صرف سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو تسلیم کرتے بلکہ حکمت عملی کی مثال دیتے ہوئے مسلمانوں سے اسے تسلیم اور امن و امان قائم رکھنے کی گزارش بھی کرتے۔
شریعت کی روشنی میںکوئی بھی مسجد کسی کو تحفہ میں نہیں دی جا سکتی کیونکہ تا قیامت زمین سے سات آسمان تک وہ اللہ کا گھر ہی رہتی ہے ۔ جب ہندو ایودھیا کے جنم استھان کو اپنے سب سے بڑا خدا، مریادہ پرشوتم رام کی جائے پیدائش مانتے ہیں تو ہمیں بڑی سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا ہوگاکیونکہ ہماری روزمرہ کی زندگی کے تانے بانے ان سے جڑے ہوئے ہیں اور ہم سب کو ساتھ رہنا ہے،جس کی بنیادپر میںنے ہندوﺅںکے حق میں بیان دیا ۔ اس سے ہندوو¿ںاور مسلمانوں کے بیچ صدیوں پرانی اور خاص طور سے 1947سے چل رہی رنجشوں اور گلے شکوے کا ازالہ نہ ہوتا۔
عدالت عظمیٰ کے کسی بھی فیصلہ کو بھلے ہی آپ دل سے منظور نہ کریں مگراس کو قبول کرنا اور اس کی ستائش کرنا ہم سب کا فرض ہے کیونکہ آئین ہند کو ماننے والے سبھی لوگوں کا یہ فرض ہے کہ اس فیصلہ کی قدر کریں اور باقی معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔دوسری طرف آپ ایک بات یہ بتائیے کہ آجکل جیسا ماحول ہے کیا اس میں یہ ممکن تھا کہ مسلمان ایودھیا میں بابری مسجد تعمیر کر لیتے ؟
جناب بیرسٹر اسد الدین اویسی نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر جس طرح اپنے تاثرات کااظہارکیاہے وہ نامناسب ہے۔ بھلے ہی ہندوستانی مسلمان مسلم مسائل پر ڈنکے کی چوٹ پر بولنے کے لیے کافی پسند کرتے ہیں اور انہیں چاہتے بھی ہیں، مگراپنی بات کہنے کا جو طریقہ انہوں نے اپنا رکھا ہے اور جسے وہ سچ کا راستہ کہتے ہیں، وہ در اصل ٹکراو¿ کا راستہ ہوتا ہے اور اس سے بھلے ہی ان کو فائدہ ہوسکتا ہے ان کی پارلیمنٹ کی سیٹ محفوظ رہ سکتی ہے، مگر اس سے مسلمانان ہند کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
سوال ہے ہے کہ کیا کسی مسلمان کے لیے سنگھ پریوار یا بھاجپا سے تعلق رکھنا کوئی گناہ یا بے دینی کی بات ہے؟ چلئے چھوڑیے۔ ایک وقت تھا کہ میں بھی ان کو مسلم دشمن اور خرافاتی سمجھتا تھامگر جب ان لوگوں میں آنا جانا شروع کیا تو پتہ چلا کہ جیسے مسلمان اپنا قرآن کا راستہ مانتے ہیںان کا بھی اپنا راستہ اور اپنی کتاب ہے۔ یہ ہرگز بھی مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں بلکہ قومیت کے حامی اور ان کے خیرخواہ ہیں۔سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کے بعدمیرے تاثرات کو کسی شاعر نے اس طرح بیان کیاہے:
مسجد بھی لے لو مندر بھی لے لو
انساں کے لہو سے مگر اب نہ کھیلو
٭٭٭