جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی : شاہد زبیری

0

شاہد زبیری

وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ روز ’وکست بھارت سنکلپ یاترا‘کے تحت مرکزی سرکار کی عوامی فلاحی اسکیموں سے مستفید ہونے والوں کو آن لائن مخاطب کرتے ہو ئے کہا کہ خواتین، نوجوان،کسان اور غریب ہی میرے لئے 4ذاتیں ( طبقات) ہیں یہ چاروں ہی ملک کی ترقی کی بنیاد ہیں اور ان پر ہی’ وکست بھارت کا سنکلپ ‘ ٹکاہے ۔انہوں نے اپنے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ جب تک ان سب ذاتوں ( طبقات) کو مشکلات سے نجات نہیں دلائیں گے جب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے اور یہی حقیقی سماجی انصاف بھی ہے۔
وزیر اعظم نے جو کچھ کہا اس سے بھلا کس کو انکار ہو سکتا ہے، لیکن انہوں یہ بات جس تناظر میں کہی ہے اس کا تعلق کہیں نہ کہیں ملک بھر میں کاسٹ کی بنیاد پر نئی مردم شماری کیلئے اٹھنے والی آوازوں کی طرف سے توجہ ہٹانے کیلئے ہو سکتا ہے، اس لئے بھی کہ بہار کی نتیش سرکار نے بہار میں ذات کی بنیاد پر نئی مردم شماری کے مطالبہ پر مہر لگا دی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے لکھنؤ میں کل پارٹی کے ممبرانِ اسمبلی اور کارکنان کو خطاب کرتے ہوئے دہرایا کہ کاسٹ کی بنیاد پر مردم شماری سے ہر طبقہ کے حقوق حاصل ہوں گے، ابھی کل کی بات ہے جب خود وزیر اعظم کے بارے میں بی جے پی ان کی ذات بتاتے میں لگی تھی اور پارٹی ان کا تعلق پسماندہ طبقہ سے بتاتی تھی اور اس کی تشہیر بھی خوب کی تھی ۔ اسی کالم کے تحت کاسٹ کی بنیاد پر مردم شماری کو لے کر تفصیل سے لکھا جا چکا ہے۔ خواتین کی بات کریں تو سب کو معلوم ہے کہ اجتماعی آبرو ریزی کے شرمناک نربھیا کیس کے بعد بنائے گئے قانون کے باوجود خواتین ملک میں کتنی محفوظ ہیں ،کبھی نوجوانوں کی ڈیمو گرافی بتا تے ہو ئے خود وزیر اعظم نے کہا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ نوجوان ہمارے ملک میں ہیں اور ان کی طاقت کی بنیاد پر دنیا کو بدلا جا سکتا ہے بیشک آج نوجوانوں کی فوج ہمارے پاس ہے، لیکن کس کو نہیں معلوم کہ ا ن میں بیروزگاری کی تعداد کتنی ہے ۔’ اگنی ویر‘ سے بھی نوجوانو ں کی بیروز گاری دور نہیں ہوئی ، غریبی کی اگر بات کریں تو غریب اور غر یب، امیر اور امیر بنتا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے ’ نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘ والی صورتِ حال ہے، کسان کی بات کریں تو کسان کل بھی بدحال تھے آج بھی ہیں ان کی بدحالی کسی سے نہیں چھپی ہے کسانوں کے دہلی کے محاصرے کی روشنی میں ان کی موجودہ بدحالی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ نئے زرعی قوانین واپسی کے علاوہ کسانوں کے ہاتھ میں کیا آیا؟ کسان آج بھی ملک کے کئی حصوں میں سڑک پر اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں، حال ہی میں پنجاب کے چنڈی گڑھ کے موہا لی میں کسانوں کی تحریک سے یہ عیاں ہے کہ کسان کس حال میں ہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ آسمان چھوتی بے روزگاری اور کسان کی بدحالی غریب کے زمرہ میں آتی ہے کہ نہیں ؟پتہ نہیں وزیر اعظم کے نزدیک غریب سے مراد کون سے غریب سے ہے جن کا ذکر وزیر اعظم نے ‘وکست بھارت سنکلپ یاترا ‘ کے’ شبھ آرمبھ ‘کے موقع پر کیا ہے ۔
یہاں ہم کسانوں کی ہی بات کریں تو دستیاب اعدادو شمار بتا تے ہیں کہ 2001کی مردم شماری کے مطابق ملک کے 70فیصد کسان کاشت کاری چھوڑ چکے ہیں اور خودکشی کے واقعات تو روح کو جھنجھوڑنے اور ڈرا ئونے والے ہیں۔کسانوں نے بدحالی سے تنگ آکر کاشت ہی نہیں چھوڑی بلکہ کسانوں کی ایک بڑی تعداد نے بد حالی سے تنگ آکر زندگی ہی چھوڑ دی ہے اور خود کشی کرلی ہے۔کسانوں کے ساتھ حکو متوں کا رویہ یکساں رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور سرکاریں کسانوں سے وعدے وعید کے علاوہ رطب اللسان تو رہتی ہیں، لیکن کرتی کچھ نہیں ہیںاگر کچھ کرتی بھی ہیں تو جتنا کرتی ہیں اس سے زیادہ اس کی تشہیر کرتی ہیں اگر ہم دستیاب اعدادو شمار پر نظر ڈالیں توگزشتہ چند سالوں میں 18,678 کسانوں نے تنگ دستی، بدحالی اور قرضداری سے تنگ آکر خود کشی کر لی ہے، مدھیہ پردیش کے بورڈ آف ریکارڈ کے حوالہ سے یہ بات سامنے آتی ہے ۔2011کی مردم شماری کے اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ صرف ملک کے 5صوبوں مہاراشٹر ،کرناٹک، آندھرا پردیش ،مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں 1534 کسانوں نے خود کشی کی تھی، تنہا پنجاب میں 2000 سے 2015کے درمیان 16,606 کسانوں نے خود کشی کی، یہ اعداد شمار پنجاب کی تین یونیورسٹیوںکے سروے سے پتہ چلتی ہے ۔ حالیہ دنوں میں عام آدمی پارٹی کی پنجاب سرکار میں 25دن میں 14 کسانوں نے خود کشی کی ہے۔ اعدادو شمار بتا تے ہیں ملک میں ہر ماہ 70 سے زائدکسان خودکشی کررہے ہیں۔ زراعت اور کسانوں کے مسائل پر نظر رکھنے والوں کی مانیں تو خود کشی کی وجوہات میں موسم کی خرابی یافصل کا خراب ہونا ،دیوالیہ ہوجانا، قرض اور سود کا بوجھ ،بیماری اور سرکار کی پالیسیاں ذمہ دار ہیں۔ نیشنل بینک آف اگریکلچر اینڈ رورل ڈیو لپمنٹ ( نابارڈ ) کی تازہ رپورٹ کہتی ہے کہ کسانوں پر قریب 21لاکھ کروڑ روپے کا قرض بقایا ہے، تنہا پنجاب کے 89فیصد کسان قرض میں ڈوبے ہیں اور قرض کے ساتھ سود کا بوجھ نسل در نسل پنجاب کے کسان ڈھوتے آرہے ہیں ۔کسان اس مصیبت سے اسی وقت نکل سکتے ہیں جب کاشت سے ان کو آمدنی ہو، عام شکایت یہ ہے کہ فصل پر لاگت زیادہ آتی ہے اور ہاتھ میں آمدنی کم آتی ہے ا س وجہ سے بھی کسان مقروض ہوجاتے ہیں، قرض کے معاملہ میں پنجاب کے کسان سر فہرست ہیںیہ مرکزی سرکار کے ایک سروے کے حوالہ سے بتا یا گیا ہے جبکہ پنجاب کی خوشحالی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ہر سیاسی پارٹی انتخابی موسم میں ملک کے کسانوں کے قرض معاف کرنے کا مژدہ سناتی ہے، لیکن اقتدار حاصل کرنے کے بعد کسانوں کے قرضے معاف کرنے کے بجائے بڑے صنعتکاروں اور سرمایہ دار گھرانوں کے قرضے معاف کئے جاتے ہیں۔ صوبائی سرکاریں ہوں یا مرکزی سرکاریں سب کسانوں کا استحصال کرتی آرہی ہیں۔ وزیر اعظم نے کسانوں کی آمدنی دو گنا کئے جا نے کا وعدہ کسانوں سے کیا تھا، لیکن وہ وعدہ بھی اور وعدوں کی طرح انتخا بی جملہ ثا بت ہوا، حال یہ ہے کہ کسانوں کی آمدنی میں سال 2000 سے اب تک صرف 19فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ سر کاری ملازمین کی آمدنی میں اس عرصہ میں 140سے 150گنا اور پروفیسروں کی آمدنی میں 150گنا سے زائد کا اضا فہ ہوا ہے۔کسانوں کی آمدنی کو ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈّی کہا جا تا ہے ،ریڑھ کی ہڈی پر ہی سارے جسم کا بوجھ رہتا ہے اگر ریڑھ کی ہڈی ہی کمزور ہو تو پورے جسم کا کیا حال ہو گا۔ ایسا ہی کچھ حال ہماری معیشت کا ہے کسان کی خوشحالی کے بغیر عام آدمی کی خوشحالی خام خیالی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اب بھی ملک کی شرح نمو ( ڈی جی پی) میں اضافہ کا دعویٰ کرتے ہیں گزشتہ سرکار یں بھی ایسے ہی دعوے کرتی رہی ہیں، لیکن ان دعووں کی حقیقت سب پر عیا ں ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ ملک کی معیشت میں اضافہ ہوا ہو یا نہ ہوا، لیکن سرکار کے منھ چڑھے کارپوریٹ گھرانوںکے وارے کے نیارے ضرور ہو رہے ہیں۔ ہندوستا نی کسان آزادی سے قبل بھی انگریز حکمرانوں ،جاگیر داروں ،زمینداروں اور سود خور مہاجنوں کے ہاتھوں بدحال تھا آج بھی بد حال ہے۔ جس نے پریم چند کے ناول ،افسانے اور کہانیاں ’سوا سیر گیہوں‘ ’پنچ پر میشور‘ ’پوس کی رات‘ ’کفـن‘ ’گئو دان‘ اور’کرم بھومی‘وغیرہ کو پڑھ رکھا ہے وہ ان ناولوں اورکہانیوں کے کردار آج کے کسانوں اور مہاجنوںکے کرداروں میں بھی دیکھ سکتا ہے، کسانوں کی ایسی کہانیاں آج بھی ہمارے دیہات میں دیکھنے کو مل سکتی ہیں، کسانوں نے دہلی کے محاصرے کے دوران جو دن گزارے ہیں ہمیں نہیں معلوم ایسا کسی اور ملک میں ہوا ہے اورکسانوں کو آج جن حالات کا سامنا ہے کسی ترقی پذیر ملک کے کسانوں کا ہوگا جو ہمارے کسانوں کا ہے،ہمارے ملک کا کسان آج بھی بدحالی ،تنگ دستی اور فاقہ مستی کی بیڑیوں سے جکڑا ہوا ہے اور ملک کے ہرصوبہ میں کسان اپنے مسائل کو لیکر سڑکوں پر ہے وہ کسان جس کی کاشت سے پورے ملک کا پیٹ بھرتا ہے وہ آج بھی خوشئہ گندم کو ترستا ہے۔ شاید اسی کو محسوس کرتے ہوئے شاعرِ مشرق علامہ اقبال ؒ نے کہاتھا کہ:
جس کھیت سے دہقاں کو میسرنہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS