عبدالماجد نظامی
اتراکھنڈ کے سلکیارا-بارکوٹ کی سرنگ میں پھنسے41 مزدوروں کو 17دنوں کے پر خطر ریسکیو آپریشن کے بعد 29نومبر کو بحفاظت نکال لیا گیا۔ اس خبر سے پورے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ان تمام لوگوں کے دلوں میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی ہوگی جو اس واقعہ پر نظر رکھے ہوئے تھے اور ہر پل زیر لب دعاء میں مشغول رہ کر ان مزدوروں کی صحیح سلامت واپسی کی تمنا کر رہے تھے۔ سترہ دنوں تک چلنے والا یہ آپریشن نہایت مشکل اور صبر آزما تھا۔ کئی بار مختلف زاویوں سے پھنسے ہوئے مزدوروں تک پہنچنے کی کوششیں کی گئیں، متنوع قسم کے آلات و اوزار اور مشینی کل پرزوں کا استعمال کیا گیا تاکہ جلد سے جلد ان لوگوں تک رسائی حاصل کرکے انہیں سلامتی کے ساتھ نکالا جاسکے۔ اس راہ میں بیشمار دشواریاں بھی پیش آئیں اور ایک موقع پر ایسا لگا کہ شاید اب آگے کا مرحلہ دشوار گزار ہوجائے گا اور ان 41جانوں کو نکالنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ احساس اس لیے پیدا ہوا کیونکہ ان تک پہنچنے کے لیے جس آلہ کا استعمال کیا جا رہا تھا، وہ ٹوٹ گیا اور بجائے اس کے کہ وہ مشینیں زندگیاں بچانے کا ذریعہ ثابت ہوتیں، خود ان کے ٹکڑوں کو نکالنا ایک بڑا کام بن گیا۔ لیکن ان زندگیوں کو بچانے کے لیے جو لوگ کام کر رہے تھے، ان کے جوش و ہمت میں کسی بھی درجہ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہاں پر سرکاری اور غیر سرکاری ہر قسم کے افراد اور ادارے کام کر رہے تھے اور سب کا مقصد یہ تھا کہ زندگیاں ضائع نہ ہوں اور اسی لیے ان میں ادنیٰ درجہ کی کوتاہی یا مایوسی کا عنصر نظر نہیں آیا۔ انہوں نے مشینی آلات کی ناکامی کو اس بات کا ذریعہ قطعاً نہیں بننے دیا کہ خدا کے بنائے ہوئے اپنے بازوؤں کی قوت پر اعتماد کھو دیں۔ مشینوں کی ایک حد ہے جہاں تک پہنچ کر وہ اپنا کام بند کرسکتی ہیں لیکن انسانی ہمت و حوصلہ کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اسی حقیقت کا مشاہدہ اتراکھنڈ کے اس آپریشن میں بھی دنیا نے کیا۔ ابھی پھنسے ہوئے مزدوروں تک پہنچنے میں تقریباً 12 میٹر کی دوری باقی تھی کہ مشینوں نے جواب دے دیا تھا۔ آگے کا مرحلہ طے کرنے کے لیے انسانی ہاتھوں اور ذہانت کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کی خاطر دہلی اور اترپردیش کے بلند شہر سے12کھدائی ماہرین کو بلایا گیا جن کا کام یہ طے پایا کہ وہ تنگ پائپ کے اندر سے گھس کر باقی کے حصوں کو کھودیں تاکہ پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کی سبیل پیدا ہوسکے۔ یہ12لوگ جن کے نام مُنّا، حسن قریشی، نسیم ملک، مونو کمار، سوربھ، جتن کمار، انکور، ناصر خان، دیویندر، فیروز قریشی، راشد انصاری اور ارشاد احمد ہیں، انہوں نے اپنی فنی مہارت اور انسانیت نوازی کی مثال قائم کر دی۔ یہ تمام لوگ تنگ پائپوں سے گزر کر اندر داخل ہونے اور مٹی کھودنے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں اور اپنی اسی مہارت کی وجہ سے ’’دلی جل بورڈ‘‘ میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔ 20سے 45 تک کی عمر کے ان جیالوں نے 41قیمتی زندگیوں کو بحفاظت نکالنے میں جو اپنا کردار ادا کیا ہے، وہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے نقش ہوگیا ہے۔ اس پورے واقعہ کا سبق آموز اور خوش کن پہلو یہ ہے کہ ان مددگار ہاتھوں میں ہندو اور مسلم دونوں ہی ہاتھ شامل ہیں۔ اس مشترک کوشش نے جن ہندوستانی جانوں کی حفاظت کی ہے، یہ ہمارے ملک کی تاریخ میں بالکل نیا نہیں ہے۔ ہماری تاریخ ہمیشہ سے آپسی بھائی چارہ اور باہم تعاون کی رہی ہے۔ لیکن اس ملک کی بدقسمتی کہیے کہ نفرت و تقسیم کی ایک سیاست نے اس پر اپنا قبضہ جمالیا اور ہر چیز میں مذہبی منافرت کا ایسا زہر گھول دیا کہ لوگ یہ بھول گئے کہ ہم کبھی ایک دوسرے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دینے والے لوگ تھے۔ خود یہی ریاست اتراکھنڈ جہاں کی سرنگ میں یہ مزدور اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے پھنس گئے تھے، یہاں بھی نفرت کی وہی مسموم فضا قائم کر دی گئی ہے جو ملک کے دوسرے حصوں میں ہے۔ لیکن اب یہ وقت آگیا ہے کہ اس ملک کے عوام ہی نہیں بلکہ یہاں کی سیاسی قیادت بھی یہ سبق سیکھے کہ اس ملک کی بقاء و ترقی کا راز اس امر میں پوشیدہ ہے کہ تمام ہاتھوں کو جوڑا جائے اور ان کے ہاتھوں کو تلوار و ترشول کے بجائے محبت و آشتی کے پیغام کے لیے تیار کیا جائے۔ اس ملک کے ہر شخص کو ان کھدائی ماہرین سے سبق سیکھنا چاہیے جنہوں نے یہ کہا کہ ہم نے اس کام کے لیے کوئی اجرت قبول نہیں کی کیونکہ یہاں زندگیوں کو بچانے کا مسئلہ سامنے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کمپنی نے بس ان کی آمدورفت کے لیے کرایہ کا انتظام کر دیا تھا، باقی ہم نے کچھ نہیں لیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے جس لگن اور دلجمعی سے یہ کام انجام دیا ہے، وہ بھی قابل تعریف عمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جتنا کام انہوں نے 26-27 گھنٹوں میں انجام دیا ہے، عام حالات میں یہ کام دس سے گیارہ دنوں میں انجام دیا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ یہاں معاملہ صرف کام کرنے کا نہیں تھا بلکہ انسانوں کے بچانے کا تھا، اس لیے انہوں نے بلا رُکے اور بنا تھکے کام کرنے کو ترجیح دینا ضروری سمجھا۔ یہ وہ انسانی جذبہ ہے جو ڈوبتی انسانیت اور ہچکولے کھا رہی باہمی اتحاد کی کشتی کو ساحلِ حیات تک پہنچانے میں ہمیشہ معاون ثابت ہوا ہے۔ ہندو-مسلم ہاتھوں نے اس ملک کو ہمیشہ بڑے سے بڑے مسائل سے بچایا ہے۔ یہ پہلو اس قدر اہم ہے کہ راجدیپ سردیسائی جیسے بڑے صحافی نے ٹوئٹر پر اپنے اکاؤنٹ سے اس مشترک عمل کو خراج تحسین پیش کیا۔ خود دہلی میں واقع روک ویل انٹرپرائزیز جس کی نگرانی میں یہ کھدائی کی گئی، اس کے ٹیم لیڈر وکیل حسن نے بھی مذہبی یگانگت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہماری ٹیم میں ہندو اور مسلم دونوں نے مل کر کام کیا ہے اور 41 زندگیوں کو بچایا ہے۔ کوئی بھی اس کام کو اکیلا انجام نہیں دے سکتا تھا۔ اتحاد و یکجہتی کا یہی پیغام ہم سب کو دینا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا نفرتی جماعت اس پیغام کو قبول کرے گی؟ میرا خیال ہے کہ وقت اور حالات انہیں اس پیغام کو قبول کرنے پر مجبور کر دیں گے۔ ایک دن نفرت کی سیاست کو بھی اس ملک میں دم توڑ دینا ہوگا کیونکہ نفرت کے پاؤں میں اتنی سکت نہیں ہوتی کہ وہ کوئی لمبا راستہ طے کرسکے۔ جو لوگ مذہب و سیاست کے نام پر معصوم زندگیوں کو جہنم زار بنا دیتے ہیں اور جانوروں کے ناموں پر انسانوں کا خون کر دیتے ہیں، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ کبھی ہیرو نہیں بن سکتے۔ تاریخ ہمیشہ انہیں صرف انسانیت کے قاتل کے طور پر ہی یاد رکھے گی۔ عزت اور وقار صرف ان ہاتھوں کو نصیب ہوگا جو اس ملک اور یہاں کے لوگوں کی حفاظت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ خدا ان ہاتھوں کو سلامت رکھے۔ آمین
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]