عبدالغفارصدیقی
ہر انسان جو خدا کو مانتا ہے ۔وہ اس سے مدد کی امید کرتا ہے ۔ انسانی آبادی کا 99 فیصد سے زیادہ حصہ خدا کو کسی نہ کسی شکل میں تسلیم کرتا ہے ۔مسلمان توحید کے علم بردار ہیں ۔ مسلمانوں کے پاس اللہ کی آخری کتاب موجود ہے ۔وہ آخری رسول حضرت محمد ؐ پر ایمان لائے ہیں ۔اس لیے وہ خود کو اللہ کی مدد کے سب سے زیادہ مستحق سمجھتے ہیں ۔مگردنیا کے موجودہ حالات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسلمان ہی وہ قوم یا امت ہیں جواس وقت اللہ کی مدد سے سب سے زیادہ محروم ہیں ۔دنیا بھر کی لاکھوں مساجد میں روزانہ کروڑوں ہاتھ بارگاہ رب العزت میں دعا کے لیے اٹھتے ہیں اور اس مدد کے طالب ہوتے ہیں ،یہ سلسلہ ایک عرصہ دراز سے جاری ہے ۔لیکن ہر صبح کا آفتاب نئی مشکلات لے کر طلوع ہوتا ہے ۔یہ صورت حال ان افراد کے لیے مایوسی کا سبب بن سکتی ہے جو نہیں جانتے کہ اللہ کی مدد کا قانون کیا ہے ؟اور اللہ کی مدد کس کو اور کن شرائط پر ملتی ہے ؟
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اللہ کی مدد ہر انسان کو میسر ہے ۔خدا کی کائنات کی ہر شئی انسان کے لیے اسی نے مسخر کی ہے اور اسی کے حکم سے انسانوں کو فائدہ پہنچا رہا ہے ۔انسانی جسم کے تمام اعضاء اسی کی تخلیق ہیں اگر وہ چاہے تو ان کو انسان کے ساتھ تعاون کرنے سے روک سکتا ہے ۔ہماری زندگی اسی کے رحم و کرم پر منحصر ہے ۔سورج اور چاند کی گردش ،تبدیلی لیل و نہار،موسموں کا انقلاب ،فصلوں کا اُگنا اور درختوں پر پھلوں کا لٹکنا سب اسی کے قانون کے مطابق ہے ،لیکن یہ اس کا قانون فطرت ہے ۔جو سب پر یکساں نافذ ہوتا ہے ۔اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ انسان اللہ کو مانتا ہے کہ نہیں ۔ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ اللہ کو نہ ماننے والوں ،اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے والوں ،اس کو بُرا کہنے والوں اور اس کی نافرمانی کرنے والوںپر بھی بادل سایہ کرتا ہے ،آسمان بارش برساتا ہے ،ان کی بھی فصلیں لہلہاتی ہیں اور ان کے باغوں میں بھی اشجار پھلوں سے لدے ہوتے ہیں ۔ان کی بھی آل اور اولاد پھل پھول رہی ہے ۔اللہ کی اصل مدد اسباب زیست کا فراہم ہونا نہیں ہے ،بلکہ اس کی اصل مدد یہ ہے کہ دنیا میں عزت و غلبہ اور آخرت میں دوزخ سے نجات حاصل ہو ۔ مغلوبیت اور محکومیت باعث رسوائی ہے ۔اس معنیٰ میں اگر آپ غور کریں گے تو بیشترمسلمانوں کو اللہ کی مدد سے محروم پائیں گے ۔
اس موقع پر یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے کہ جہاں جہاں جو قو م یا گروہ برسر اقتدار ہے کیا اس کو اللہ کی مدد حاصل ہے ؟کیا امریکہ و برطانیہ وغیرہ میں عیسائیوں کو ،اسرائیل میں یہودیوں کو ،بھارت میں اہل ہنودکو اور پاکستان و بنگلہ دیش نیزعرب ممالک میں مسلمانوں کو اللہ کی مدد حاصل ہے ؟ اس لیے کہ یہ لوگ ان ممالک میں برسر اقتدار ہیں ۔لیکن ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی حکومتوں کی نوعیت کیا ہے ؟کیا وہ واقعی اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں ۔کیا ان پر عالمی طاقتوں کی اجارہ داری نہیں ہے ؟کیا وہ محض کٹھ پتلی نہیں ہیں ؟حالیہ اسرائیل اور فلسطین جنگ میں ان کی بے بسی جگ ظاہر ہے ۔
دنیا میں اقتدار کی دو شکلیں ہیں ۔ایک یہ ہے کہ اللہ کے قانون کے مطابق حکمرانی ہو،جس کی روشن مثال خلافت راشدہ ہے ۔خلفائے راشدین حکمران ہوتے ہوئے بھی اللہ کے غلام تھے ،وہ خداکے قانون کے پاسدار اور نافذ کرنے والے تھے ،ان کی مملکت میں ان کی مرضی کا کوئی دخل نہیں تھا ۔دوسری شکل یہ ہے کہ انسانوں کے اپنے قانون یا اپنی مرضی کے مطابق حکمرانی ہو۔جیسے کہ آج تقریباً سبھی ممالک میں ہے ۔ پہلی شکل میں اللہ کی مدد کے بغیر کوئی قوم اقتدار میں نہیں آسکتی ،دوسری شکل میں فطرت کا قانون کا م کرتا ہے ،جس کی لاٹھی اس کی بھینس ،کہیں کوئی عوام کو بے وقوف بنا کر اور جمہوریت کے زریں پردے میں حکمران ہے ،کہیں کوئی اپنی قوم کی اکثریت کے بل پر اقتدار میں ہے ،کہیں کوئی مورثی بادشاہت کو سنبھالے ہوئے ہے ،کوئی فوج کے بازوئوں پر ڈکٹیٹر بنا بیٹھا ہے ۔ان میں سے کسی کو بھی اللہ کی مدد اور نصرت حاصل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر ممالک میں عدل و انصاف کے بجائے ظلم و زیادتی کا دور دورہ ہے ۔اللہ کی تائید و نصرت سے قائم ہونے والی ریاست میں ظلم و زیادتی کا گزرتک ممکن نہیں ۔
اللہ کی مدد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ کے نظم و انصرام کو سمجھ لے ۔اللہ نے حضرت آدم ؑ کی تخلیق کے ساتھ ہی ابلیس کی شکل میں ایک کردار بنایا ،فرشتوں کے اثبات سجدہ اور ابلیس کے انکار سجدہ کے ذریعہ حضرت آدم ؑ سے ابلیس کا تعارف کرایا ،پھر عارضی طور پر جنت میں رکھ کر دونوں کی عملاً پہچان کروائی ۔اس کے بعد یہ کہہ کر زمین پر بھیج دیا گیا :’’تم سب یہاں سے اتر جاؤ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میر ی ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہو گااور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔(البقرہ 38اور39)
یہ ہے وہ ازلی قانون جس پر پوری انسانی تاریخ شاہد ہے کہ جب جب اللہ کی ہدایات پر عمل کیا گیا تو اللہ نے ان عمل کرنے والوں کو خوف اور رنج سے دور رکھا ۔اس کے برعکس جس نے انکار کیا وہ بے سکونی کے عالم میں زندہ رہے اور مرنے کے بعد جہنم کا ایندھن بنیں گے ۔حضرت آدم ؐ سے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تک جتنے پیغمبر،رسول اور نبی تشریف لائے وہ اسی قانون کے مطابق آئے ،اسی پیغام کے ساتھ آئے اور اسی بشارت و تنبیہ کے ساتھ آئے جو اس آیت میں موجود ہے کہ ’’جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میر ی ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہو گا۔‘‘قرآن مجید میں کتنی ہی قوموں کی تاریخ بیان کی گئی ہے جنھوں نے اللہ کے فرستادوں اور اللہ کی ہدایت کے ساتھ برا سلوک کیا تو اللہ نے ان پر مختلف قسم کا عذاب مسلط فرمادیا اور جن لوگوں نے اللہ کی ہدایت کی پیروی کی ان کو دنیا میں غلبہ و استحکام عطا کیااور آخرت میں بھی جنت کی بشارت سنائی ۔
انسان بھی جب کسی کی قابل ذکر مدد کرتا ہے تو یہ دیکھتا ہے کہ جس کی میں مدد کررہا ہوں وہ میرے ساتھ وفادار بھی ہے کہ نہیں ۔انسان اپنے دوست کو بار بار آزماتا ہے ۔سیاسی جماعتیں اپنے وفاداروں کو اعلیٰ مناصب عطا کرتی ہیں ،بادشاہ اپنے جاں نثاروں کو وزارت دیتا ہے ،پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خالق کائنات ،تمام خزانوں کا مالک اور شہنشاہ حقیقی اپنی مدد اور نصرت ان لوگوں کو بخش دے جو اس کے احکامات و ہدایات کی نافرمانی ہی کے مرتکب نہیں ہیں بلکہ اس کے قانون سے بغاوت کررہے ہیں ۔کسی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے وفاداری لازمی شرط ہے ۔ اسی کو ہم ایمان باللہ کہتے ہیں ۔ایمان دراصل ایک پیمان ہے جو ہم اس ذات سے کرتے ہیں جس پر ہم ایمان لاتے ہیں ۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم نے اللہ کو اس کی جملہ صفات کے ساتھ مان لیا ۔اللہ پر ایمان اعلان وفاداری ہے ۔اس کی گواہی ہمارے عمل سے دی جانی چاہئے ۔اللہ کی مدد کا وعدہ زبانی ایمان پر نہیں ہے بلکہ عملاً جو لوگ اس ایمان کو ثابت کریں گے ان سے ہے ۔زندگی کا ہر لمحہ ہمارے ایمان کے لیے ایک امتحان ہے ۔مسجد سے پانچ وقت اللہ کی طرف بلایا جاتا ہے ،جن کے قدم اس پکار کو سن کر مسجد کی جانب اٹھ جاتے ہیں ،جن کے دل اللہ کے سامنے جھکنے کو بے قرار ہوجاتے ہیں ،جو کسی پروگرام یا کام میں مصروف ہونے کے باوجود اذان سن کر بے چین ہوجاتے ہیں ،اگر ان کو کوئی عذر بھی ہوتا ہے تو ایک نماز چھوٹنے کااضطراب ان کے چہروں پر نمایاں ہوتا ہے ،وہ اپنے ایمان کی عملی شہادت میں کامیاب ہوجاتے ہیں ،اس کے برعکس اذان کی آواز سن کر بھی خدا کو یاد تک نہ کرنے والے جھوٹے اور مکار ہیں ۔اب ذرا اپنے مسلم سماج کا جائزہ لے لیجیے کہ ان میں نمازیوں کا فیصد کیا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق صرف دو فیصد لوگ پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں ۔بقیہ کچھ لوگ وہ ہیں جو جمعہ و عیدین کا ہی اہتمام کرتے ہیں ۔پھر جو دو فیصد لوگ نماز پڑھتے ہیں وہ بھی کیسی نماز پڑھتے ہیں ،ان کی نماز کے اثرات ان کی زندگی پر کتنے فیصد ہیں ،اس پہلو سے اگر جائزہ لیاجائے تو پوری پوری بستی میں شاید دو چار نمازی ہی نظر آئیں ۔اسی طرح زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ نے جو ہدایات ہمیں دی ہیں ان کا کس قدر پاس و لحاظ کیا جارہا ہے ۔کیا ایک تاجر اپنی تجارت میں ،ایک معلم اپنے فریضہ تدریس کے ادا کرنے میں ،ایک طبیب اپنے مریض کے مرض دور کرنے میں ،ایک حاکم اپنی رعایا کے ساتھ سلوک میں ،ایک مزدور اپنے کام میں ،ایک جج اپنے فیصلوں میں مخلص و وفادار ہے اور اوامر الٰہی کا پابند ہے جس کا اس نے ایمان لاتے وقت عہد کیا تھا ؟اگر نہیں ہے تو کس بنیاد پر اللہ کی مدد کا مستحق ہے ۔
قرآن مجید کی متعدد آیات میں اللہ کی نصرت کا یہ فلسفہ بیان کیا گیا ہے ۔کہیں کہا گیا : ’’ اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا ۔‘‘(سورہ محمد)ایک مقام پر فرمایاگیا:’’اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں، اور وہ تمہیں چھوڑ دے، تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کر سکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔‘‘ (آل عمران 160)ایک جگہ یقین دلایا گیا کہ ’’اور ہم نے تم سے پہلے رسُولوں کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے، پھر جنہوں نے جرم کیا اُن سے ہم نے انتقام لیا اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں۔‘‘(الروم 47) اس طرح کی اور بھی کئی آیات اور متعدد احادیث ہیں جہاں اہل ایمان کو اللہ کی مدد کا یقین دلایا گیا ہے بشرط یہ کہ وہ اللہ سے کیے گئے اپنے عہد کو پورا کریں ۔ ہم میں ہروہ شخص اللہ کی مدد کواپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ،جو اس پر کامل یقین کرکے مدد طلب کرتا ہے ۔ہم نے بدر و احد کے معرکے تو اپنی نظروںسے نہیں دیکھے بلکہ سیرت کی کتابوں میں پڑھ کر ان پر یقین کیا ہے لیکن افغانستان میں طالبان اور فلسطین میں مجاہدین کی مدد اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔اس کے بعد بھی اگر کوئی مسلمان اللہ سے وفاداری کا رویہ اختیار نہیں کرتا تو یہی کہا جائے گا کہ اللہ نے اس کی عقل اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور اس کے دل پر مہر لگادی ہے ۔
اللّٰہ کی مدد اور نصرت کب آتی ہے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS