اجودھیا میں رام مندر تعمیر ہوگی،سنی وقف بورڈ کو مسجد کے لیے5ایکڑ زمین
بابری مسجد کے تنازعہ پر سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا ہے۔چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی کی قیادت میں جسٹس
دھننجے چندر چوڑ،جسٹس شرد اروند بوبڑے، جسٹس اشکوک بھوشن اور جسٹس عبدالنظیرنے فیصلہ سنایاہے۔۔
سی جے آئی رنجن گگوئی
نے کہا حکومت رام مندر تعمیر کا ذمہ ٹرسٹ کو دے۔ساتھ ہی رنجن گوگوئی نے اجودھیا میں مسجد
تعمیر کرنے کے لیے سنی وقف بورڈ کو5ایکڑ زمین دینے کا اعلان کیا ہے۔
فیصلے کے آتے ہی مختلف جماعتوں ،اداروں اور سیاسی لیڈران کے بیانات آنے شروع ہوچکے ہیں۔اس ضمن میں مرکزی
وزیر راج ناتھ سنگھ نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کے یہ ہندوستان کے لئے ایک تاریخی
فیصلہ ہے۔
کانگریس نےسپریم کورٹ کے فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے
ہیں۔کانگریس نے کہا ملک میں امن و سلامتی اور اخوت و بھائی چارگی قائم رہے۔
دہلی کے وزیراعلی اروند کیجریوال نے کہا
سپریم کورٹ کے فیصلے کا ہم سبھی کو خیرمقدم کرنا چاہئے۔
ہہار کے
وزیراعلیٰی نتیش کمارنے کہاسپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرنا چاہئے۔ جب کہ مسلم فریق اقبال انصاری
نے کہاکہ
مجھے خوشی ہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا،میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی قدر کرتا ہوں۔
فیصلے کے آتے ہی مسلم فریقین کی مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی۔جس میں سنی وقف بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے
کہامیں سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہوں۔عدالت کے فیصلے میں تضاد ہے۔5 ایکڑ زمین ہمارے لیے اہمیت
نہیں رکھتی،ہم فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کریں گے۔
سپریم کوٹ کے فیصلے پر قاسم رسول الیاس نے کہا کے وہ یہ ثابت نہیں کرسکے کہ کسی مندر کو توڑ کر مسجد بنائی گئی
تھی، مسجد اللہ کا گھر ہوتی ہے اور وہ تاقیامت مسجد ہی رہے گی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہمیں بے حد مایوسی ہوئی
ہے اور ہم اپیل کریں گے۔کمال فاروقی کا کہنا ہے کہ اسپیشل پاور کا استعمال کرتے ہوئے یہ فیصلہ دفعہ142کے تحت کیا
گیا ہے۔
کمال فاروقی نے کہا 67ایکڑ زمین کے عوض ہمیں 5ایکڑ زمین نہیں چاہئے، ہمیں زمین نہیں چاہئے بلکہ انصاف چاہئے۔ہم
سپریم کورٹ کا احترام کرتے ہیں اور تمام مسلمانوں سے صبر کی اپیل کرتے ہیں۔ اسی دوران جموں کشمیر اور اجمیر میں
دفعہ 144 نافذ کر دی گئی،اور سبھی اسکول اور کالج بند کر دیے گئے۔۔
جبکہ ہندو مہاسبھا کے وکیل ورون کمار سنہا نےسپریم کورٹ کے اس فیصلے کو تاریخی فیصلہ قرار دیا ۔