غزہ میں بچوں کے ساتھ عالمی اداروں کی موت: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

غزہ میں اسرائیل نے اپنے طیاروں اور بموں سے صرف عمارتوں کو ہی منہدم نہیں کیا ہے بلکہ اس نے عالمی اداروں کو بھی زمیں دوز کردیا ہے، عالمی سلامتی کونسل کے ساتھ ہی اس مہذب دنیا کی بھی بے گور وکفن تدفین کردی ہے جو یوکرین میں روسی بمباری پر عالمی قوانین کی دہائی دیتے ہوئے روس کو کیفرکردار تک پہنچانے کے مطالبے کر رہی تھی، اسی طرح اس نے اسلامی ممالک اور ان کی تنظیموں کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی ہے جو ایک امت کی بات کرتے ہوئے نہیں تھک رہی تھیں۔
اسرائیل کا وجود اور اس کی پالیسیاں ابتدا سے ہی عالمی قوانین کے خلاف رہی ہیں، اس کے باوجود ہمیشہ اسے مشرق وسطیٰ میں مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل رہی ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ اس کا مغربی طاقتوں کا گماشتہ ہونا ہے۔ یاسر عرفات نے ایک بار اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اسرائیل مغربی دنیا کا وہ بچہ ہے جس کی مغربی میڈیا پرورش کر رہا ہے، اسی لیے کبھی اس کے عمل پر سوالیہ نشان نہیں لگایا جاتا۔جس کا خمیازہ آج فلسطینی بھگت رہے ہیں۔
7؍اکتوبر کو حماس نے جو حملہ کیا اسے بربریت سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہ اور بات ہے کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے اسے بلاوجہ نہیں قرار دیا۔ اس ’’بلاوجہ‘‘کی حقیقت بھی 7؍اکتوبر سے اب تک دنیا دیکھ رہی ہے۔
مغربی دنیا اسرائیل کے عمل کو ’’حق دفاع‘‘سے تعبیر کر رہی ہے، لیکن اس حق دفاع نے در اصل اسے فلسطینیوں کی نسل کشی کا لائسنس دے دیا ہے۔یہ لائسنس اسے 7؍اکتوبر سے نہیں ملا ہے بلکہ روز اول سے ہی حاصل ہے، اسی لیے اسرائیلی فوج کو اسرائیلی ڈیفنس فورسیز(آئی ڈی ایف) سے موسوم کیا جاتاہے، یعنی ایسی فوج جو اسرائیل کا دفاع کر رہی ہے۔یہ دفاع دراصل نسل کشی کا مترادف بن گیاہے، اسرائیلی فوج نے اپنے عمل سے لفظ کے معانی ہی بدل دیے ہیں، جس کا اندازہ کنیڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن(سی بی سی) کی اس رپورٹ سے لگایا جاسکتاہے جس میں بتایا گیا ہے کہ31؍اکتوبر تک3457بچوں کو یہ فوج قتل کرچکی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے آفس فار ہومینیٹیرن افیئرس نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی فوج نے 7؍اکتوبر سے اب تک4014بچے قتل کیے ہیں، یعنی یومیہ100فلسطینی بچے اس نام نہاد دفاعی فوج کا شکار ہورہے ہیں۔
ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ ایک ماہ میں اسرائیلی فوج نے 4237 فلسطینی بچوں کو قتل کیا ہے جبکہ 1350بچے غائب ہیں جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کی بمباری میں تباہ ہوئی عمارتوں کے ملبے میں دبے ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ میں1967سے لے کر اب تک اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہوئے بچوں کے قتل پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
اتنی کثیر تعداد میں بچوں کو قتل کرنے کا ایک سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ وہ بچے جو اسرائیلی ظلم و زیادتی کے دوران پیدا ہوئے جنہوں نے یومیہ اسرائیلی مظالم اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں، جنہوں نے دیکھا ہے کہ ان کی زمینوں پر اسرائیل نے قبضہ کیا اور آج وہ بے گھر ہوگئے ہیں، وہی اپنے ملک سے محبت اور اپنی زمین سے اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے اسرائیل کے لیے طوفان بن کر سامنے آئے ہیں، اس لیے بچوں کا قتل اس نے ضروری سمجھا تاکہ آنے والی نسل کا ہی خاتمہ کردیا جائے۔
اسرائیل کے ساتھ ہی مہذب دنیا کی آنکھیں بھی بند ہیں، انہیں ان معصوم فلسطینی بچوں کے حقوق نہیں یاد آ رہے ہیں اور نہ ہی انہیں اس بات پر پشیمانی ہے کہ ان کی وجہ سے معصوموں کا قتل کیا جا رہاہے۔ امن عالم کے لیے نوبل انعام یافتہ سابق امریکی صدر براک حسین اوباما نے اپنی ایک تھا، گفتگو میں ان بچوں سے متعلق اپنی تشویش کا ضرور اظہار کیا لیکن اس کی حیثیت زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
عالمی قوانین میں بچوں کو سب سے زیادہ حقوق دیے گئے ہیں اور کسی بھی صورت میں ان کو قابل تعزیر نہیں گردانا گیا ہے بلکہ اگر واقعی ان سے جرم سرزد ہوا ہے تو ہر ملک کا قانون انہیں اصلاح کا حق دیتا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل نے ہدف بنا کر ان بچوں کو قتل کیا ہے جس کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔
اسرائیل کی عالمی قوانین کی اس خلاف ورزی کے باوجود کوئی بھی طاقتور ملک اس کے خلاف لب کشائی کی جسارت اس لیے نہیں کر رہا ہے کیونکہ اس کی پشت پر امریکہ، فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک ہیں، جنہوں نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، لیکن حقیقت میں وہ کلونیل ازم کے پرستار ہیں،ان کے دوہرے معیار ان کی مفاد پرستی اور یک چشمی کی چغلی کھاتے ہیں۔
دنیا پر اب یہ منکشف ہوچکاہے کہ یہ ممالک لفظ جمہوریت کا استعمال اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کرتے ہیں، جہاں ان کے مفادات کو زک پہنچتی ہے، وہ جمہوریت اور عالمی قوانین کی دہائی دے کر دوڑ پڑتے ہیں، لیکن وہی عمل جب وہ خود یا ان کے نظریے کے حامی ممالک کرتے ہیں تو سانپ سونگھ جاتاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل نے فلسطین کو تباہ کردیا ہے، اس نے انتقامی کارروائی میں بلاتفریق بزرگ، بچے، بیمار اور خواتین مرنے والے اسرائیلیوں کے مقابلے کئی گنا فلسطینیوں کا قتل کیا ہے، جس سے دنیا میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے دفاع میں یہ جنگ لڑ رہا ہے اور عنقریب اس کی فتح ہونے والی ہے، لیکن آج سوشل میڈیا کے دور میں سچ کو چھپایا نہیں جا سکتا، یہ اور بات ہے کہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سچ کو تسلیم نہ کیا جائے اور اسرائیل یہی کر رہا ہے۔
اسرائیل نے اپنے سفارتی تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ مظلوم قوم ہے، اسرائیلی وزیراعظم نے تل ابیب میں سفارت کاروں سے اپنی ملاقات میں اسی بات کا مطالبہ کیا کہ ہمیں جنگ میں نہ صرف آپ کا ساتھ چاہیے بلکہ آپ اپنے ملکوں میں یہ بات بھی بتائیں کہ ہم ایک مظلوم قوم ہیں، لیکن کون مظلوم ہے اور کون ظالم دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔
ابو موسی مرزوق نے ’’دی ہندو‘‘ کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا تھا: ’’ایک آزادی کی تحریک ہے جو مغربی ممالک کے حمایت یافتہ قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں، اور ہم صرف آزادی چاہتے ہیں کیونکہ ہم قبضے میں رہنا قبول نہیں کرتے۔ جس طرح ہندوستانی عوام نے انگریزوں کے قبضے کو مسترد کر کے آخر کار اسے نکال باہر کیا۔‘‘
اسرائیل اسی جذبے کے خلاف ہے، اسے معلوم ہے کہ یہ بچے بڑے ہوکر اس کے لیے مصیبت بننے والے ہیں، اس لیے ان کے وجود کو اپنے لیے خطرہ مان رہاہے، یہی وجہ ہے کہ وہ کثیر تعداد میں بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔اس کا یہ عمل کسی بھی صورت میں ہولوکاسٹ سے کم نہیں ہے۔
اسرائیل کا یہ عمل و اقدام بزعم خود مہذب دنیا کے منھ پر طمانچہ ہے اور ان کی بے ضمیری کا منھ بولتا ثبوت بھی ہے۔ تاریخ کسی کو نہیں بخشتی، ہر عروج کے بعد زوال ہے اور زوال کے بعد عروج ہے، فلسطینی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، ان کو اسرائیلی فوج کے ساتھ ہی دنیا کے ان سبھی سیاست دانوں کا ڈیٹا تیار کرنا چاہیے جو ان کی اس نسل کشی میں شریک ہیں، تاکہ کل انہیں کیفرکردار تک پہنچایا جا سکے کیونکہ عالمی قوانین میں اس بات کی گنجائش ہے کہ ایک عرصہ دراز کے بعد بھی مجرمین کو کیفردار تک پہنچایا جائے جیسا کہ ہولوکاسٹ کے شرکاء کے خلاف چند برسوں قبل مقدمے چلائے جاتے رہے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS