ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ
غزہ کی صورتحال اتنی سنگین ہے کہ الفاظ میں بالکل اس کی گنجائش نہیں ہے کہ اس سنگینی کی قریب ترین تصویر بھی پیش کر سکیں۔ غزہ پر جاری صیہونی و امریکی مظالم و بربریت کو اگر کسی حد تک بیان کیا جا سکتا ہے تو اقوام متحدہ کی تنظیم اونروا (UNRWA) جس پر فلسطینی پناہ گزینوں کے معاملات کی دیکھ بھال کی ذمہ دار ہے، اس کی ترجمان تومان کے الفاظ مستعار لینے پڑیں گے۔ محترمہ تومان نے غزہ پر تبصرہ کرتے ہوئے دو دن قبل ’الجزیرہ‘ سے کہا تھا کہ ’ یہاں لوگ جہنم والی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک مہینے سے زندگیاں جہنم زار ہیں اور یہ سلسلہ تاہنوز دراز ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم لوگ جہنم کی ہولناکی میں ایک پائیدان اور نیچے چلے جاتے ہیں۔‘ اگر قارئین ان الفاظ کے اثرات کو محسوس کر سکیں اور اہل غزہ کے درد و کرب کا کسی درجے میں بھی اندازہ لگا سکیں تو یہ سمجھا جائے گا کہ تومان کے الفاظ ہم سب کے جذبات کی عکاسی کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین قیادت سے لے کر غزہ کی وزارت صحت کے ذمہ داران اور زمین پر موجود صحافی و دیگر افراد بار بار اس جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ غزہ کو جہنم میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع تو پہلے ہی اس کو جہنم میں تبدیل کرنے کی دھمکی دے چکے تھے، اب عملی طور پر ایسا کر دیا گیا ہے۔ زندگی کے تمام وسائل سے مکمل طور پر بچوں، بوڑھوں، خواتین اور جوانوں کو ہی نہیں محروم کیا گیا ہے بلکہ مساجد میں موجود عبادت گزاروں، ہسپتالوں میں زیر علاج مریضوں، ڈاکٹروں اور نرسوں، ایمبولینسوں میں لے جائے جا رہے بیماروں یہاں تک کہ اسکولوں میں پناہ لینے والے معصوموں تک کو نہیں بخشا گیا ہے۔ یہ جنگ حماس کے خلاف شروع کی گئی تھی لیکن سچ یہ ہے کہ عام فلسطینیوں اور حماس کے مسلح مزاحمت کاروں کے درمیان کبھی فرق روا رکھا ہی نہیں گیا۔ نہ غزہ جنگ کی شدت کو بیان کرنا ارباب قلم کے لیے آسان ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں پڑھنا قارئین کے لیے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وجہ سے دل و دماغ کو سکتے میں ڈال دینے والے واقعات کی لائیو تصویریں آج گھر گھر میں موجود ہیں، اس لیے سب کچھ بتانے کی ضرورت بھی نہیں ہے، کیونکہ اسرائیل و امریکہ کی انسانیت سوز حرکت سے ہر فرد واقف ہے۔ اسلامی تاریخ میں جب تاتاریوں کی وحشت ناکی کا ذکر ہوتا ہے تو بتایا جاتا ہے کہ اس دور کے مورخین مدتوں اس شش و پنج میں رہے کہ اس زوال کی تاریخ کیسے لکھی جائے۔ معروف مورخ ابن اثیر الجزری نے تو تاریخ کے موضوع پر لکھی گئی اپنی معرکتہ الآراء کتاب’الکامل‘ کے مقدمے میں اس کا ذکر کیا ہے کہ ان کے ساتھ تو ایسا ہوا کہ تاتاری حملوں کی وحشت ناکی اور مسلمانوں کی شکست کے واقعات کو لکھنے کے لیے جب بھی وہ بیٹھتے اور قلم تھام کر لکھنا چاہتے تو ہمت جواب دے جاتی اور قلم رکھ کر اٹھ جاتے لیکن انہیں بعد میں یہ احساس ہوا کہ جذبات کے طوفان کو کنٹرول کرنا ہوگا اور انہیں اپنی قوم کے زوال کی تاریخ لکھنی ہوگی، کیونکہ بطور مورخ یہ ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ آئندہ نسلوں کو بتایا جائے کہ کن کمزوریوں کی بنا پر عالم اسلام کو اس تاتاری بربریت سے گزرنا پڑا۔ ٹھیک اسی طرح غزہ کی تاریخ شہادت، اہل فلسطین کے جذبۂ مزاحمت اور اسرائیل و امریکہ ہی نہیں بلکہ پورے مغربی نظام کی عاری از اخلاق پالیسیوں کو مورخین اور صحافی قلمبند کر رہے ہیں اور مختلف پہلوؤں سے اس کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ یہ واقعات صیہونیت اور مغربیت کے ماتھے پر کلنک کا ایسا نشان چھوڑ جائیں گے جو قیامت تک مٹ نہیں پائے گا۔ فلسطین اور صیہونی ریاست کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس کی نوعیت کا تعین کیا جائے۔ اس مختصر مضمون میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم تک کی تفصیلات بیان کرنا، متحدہ مغربی سامراج کے ہاتھوں خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے کے نتیجے میں فلسطین کا برطانیہ کے کنٹرول میں جانا اور پھر 1917 میں برطانوی وزیر خارجہ بالفور کے نام پر جاری بالفور اعلانیہ کے نتیجے میں 1948 کے اندر فلسطینی زمین پر غاصبانہ ڈھنگ سے اسرائیل کا قیام عمل میں آنا اور پھر فلسطینیوں پر یہودیوں کا حملہ کرنا اور انہیں ان کے اپنے گھروں اور زمینوں سے نکال کر پناہ گزینی کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنا ان سب رودادوں کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے لیکن ایک بات کا سمجھنا لازم ہے کہ چونکہ یہودیوں کے عقائد کے مطابق فلسطین کی زمین ان کے لیے ارض موعود ہے جس کو واپس لوٹانے کا وعدہ خود ان کے خدا نے ان سے کیا تھا، لہٰذا فلسطین-اسرائیل مسئلے کو مذہب کی رو سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ اب اگر فلسطین کے مزاحمت کاروں کی تاریخ دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس مسئلے کو ہمیشہ سیاسی اور سامراجی نقطۂ نظر سے ہی دیکھا گیا ہے۔ صیہونیت کو ہمیشہ یہودیت سے الگ ایک سیاسی تحریک کے طور پر پیش کیا گیا جبکہ صیہونیت اور یہودیت میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ یہ فریب مغرب کے پالیسی سازوں نے جان بوجھ کر تیار کیا تھا تاکہ ارض فلسطین جس کو مسجد اقصیٰ کی وجہ سے تقدس کا مقام دنیا بھر کے مسلمانوں کی نظر میں حاصل ہے، اس کو صرف ایک مقامی مسئلہ بنا دیا جائے اور عرب و اسرائیل معاملے تک محدود کر دیا جائے تاکہ مغربی استعمار کے ڈیزائن کو کامیابی کے ساتھ نافذ کیا جا سکے۔ فلسطین کے مسئلے پر مسلم دنیا کو اسی طرح سے دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی جس طرح پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ، فرانس اور روس نے مشترکہ طور پر شریف حسین مکہ کو فریب میں مبتلا کیا تھا اور انہیں اس بات پر راضی کر لیا تھا کہ مغرب کی متحدہ قوت کے خلاف خلافت عثمانیہ کی جنگ کو وہ اسلامی جہاد نہ قرار دیں۔ شریف حسین مکہ اپنی سادگی و شرافت کی وجہ سے اس فریب میں آ گئے اور انہوں نے مغربی استعمار کے خلاف جنگ کو اسلامی جہاد نہیں مانا۔ قارئین کو کنفیوژن ہو سکتا ہے کہ آخر شریف حسین مکہ کے اعلان کی اتنی اہمیت کیوں تھی؟ تو ان کو اتنا بتانا ضروری ہے کہ چونکہ ترک اپنی خلافت کے جواز کے لیے آل قریش کا استعمال کرتے تھے اور شریف حسین مکہ آل بیت میں سے تھے، اس لیے مغربی سامراج اس اہمیت سے واقف تھا اور اسی لیے مسلم قوم کو اس سے الگ رکھنے کے لیے اس جنگ کو جہاد بننے سے روکنا ضروری تھا، کیونکہ جنگ عظیم اول میں اگر خلافت عثمانیہ کو شکست نہ ہوتی تو شاید آج دنیا کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔ شاید نہ تو مغربی سامراج کو وہ عروج حاصل ہوتا اور نہ ہی اسرائیل کا قیام فلسطین کی زمین پر ہو پاتا۔ اس کا بھی قوی امکان ہے کہ آج غزہ کے معصوموں کی زندگیاں تباہ نہ ہو رہی ہوتیں۔ یہ ایک تاریخی غلطی تھی جس کی قیمت آج تک پوری اسلامی دنیا چکا رہی ہے اور ہر سینہ و دل زخمی ہے۔ عرب حکمرانوں کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اس تاریخی غلطی کو درست کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کبھی نہیں کی بلکہ اس کے برعکس مغربی سامراج اور اس کے دانشوران کے اس جھوٹ اور فریب کو اپنے ملکوں میں وہ آج تک پھیلا رہے ہیں کہ صیہونیت ایک سیاسی تحریک اور فلسطین ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ ماضی میں ساری عرب جنگیں اور مزاحمتی تحریکیں اسی لیے ناکام رہیں، کیونکہ ہر یہودی نے تو یہ جنگ ہمیشہ مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ لڑی مگر عرب کے حکمراں اور ان کے جنرل عرب قومیت کے جھنڈے تلے لڑتے رہے۔ نتیجہ واضح تھا اور آج بھی اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی ہے۔ حماس اور ’جہاد اسلامی‘ نامی مزاحمتی تحریکوں نے اپنی کوششوں سے صیہونیت اور عرب قومیت دونوں کے جھوٹ کو فاش کیا ہے اور اس معرکے کو وہ صحیح دائرے میں کھینچ لائے ہیں۔ فلسطین میں آج کی جنگ حماس اور اس کی حلیف جماعتیں عقیدہ و فکر کی بنیاد پر لڑ رہی ہیں اور اسی لیے انہیں صرف فلسطینی عوام کا ہی نہیں بلکہ تمام مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی عوامی حمایت حاصل ہے۔ جہاں تک عرب حکمرانوں کا تعلق ہے تو ان کی بے بسی صاف واضح ہے۔ انہوں نے اگر فکر و عقیدے کو مغربی استعمار کے خلاف مقابلے کے لیے استعمال کیا ہوتا تو ان میں اس قدر انتشار نہیں ہوتا اور ان کی پالیسیوں میں یکجہتی نظر آتی۔ آخر پورا مغربی خیمہ کیونکر ایک ساتھ پوری مستعدی اور قوت کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے؟ کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں نے اس تاریخی غلطی کو درست کرنے کا کام شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے پورا مشرق وسطیٰ آج تک ان کے کنٹرول میں ہے۔ اگر حماس جیسی تنظیموں کا خاتمہ نہیں کیا گیا تو مغربی استعمار کی بنیادیں متزلزل ہو جائیں گی اور ان کا عالمی غلبہ خطرے میں پڑ جائے گا۔ زوال کی فکر سب سے زیادہ امریکہ کو ہے، کیونکہ وہ مغربی قیادت کی آخری کڑی ہے۔ اگر امریکہ کی عالمی قیادت ختم ہو گئی تو مغرب کو پھر وہ دن نصیب نہیں ہوگا جب وہ اپنی عظمت کا دور بحال کر پائے گا، کیونکہ اس سے قبل جن مغربی ملکوں نے بھی اس استعمار کی قیادت کی تھی، وہ زوال پذیر ہوکر اپنے اپنے محدود دائروں میں سمٹ چکے ہیں۔ ان میں فرانس اور برطانیہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اب چونکہ اسرائیل کا وجود بھی مغربی استعمار کے بھروسے قائم ہے، اس لیے اسرائیل اور مغرب کے درمیان مقاصد و مفادات کا یہ اتحاد نظر آ تا ہے۔ اسرائیل کو ایک مزید خطرہ در پیش ہے جس کی وجہ سے صیہونیوں کی پریشانیاں بڑھی ہوئی ہیں۔ چونکہ انہوں نے اسرائیل کو اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق قائم کیا ہے، اس لیے وہ اپنی مذہبی تاریخ کے اس پہلو سے سخت لرزاں ہیں کہ کہیں 80 سال کے بعد اسرائیل کا وجود ختم نہ ہو جائے، کیونکہ تلمودی روایات کے مطابق اب تک کوئی بھی یہودی ریاست 80 سال سے زیادہ قائم نہیں رہ پائی ہے۔ اس سلسلے میں یہودی حلقوں میں کافی بحثیں جاری ہیں اور چند دنوں قبل اسی کی طرف حماس کے ترجمان ابو عبیدہ نے اپنے بیان میں اشارہ کرتے ہوئے ان پر نفسیاتی حملہ کیا تھا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو غزہ پر اسرائیلی وحشت ناکی بجھنے والے چراغ کی اچانک تیز ہو جانے والی لو کے مانند ہے۔ شاید زوال سے قبل یہ آخری کوشش ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ بے سود سعی ہے۔ ان کی اس وحشت ناکی میں ہی ان کے زوال کا تخم موجود ہے۔ جہاں تک امریکی زوال کا تعلق ہے تو اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ انہوں نے جن جمہوری قدروں، انسانی حقوق اور حقوق اطفال جیسے نعروں سے اپنے اخلاقیات کی بلندی حاصل کی تھی اور دنیا میں اعتبار حاصل کیا تھا، اب وہ اعتبار ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ غزہ کے بعد کی دنیا کبھی بھی مغرب کے اصولوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھے گی اور یہی ان کا زوال ہوگا، کیونکہ عالمی قیادت کو عسکری اور اقتصادی قوت سے نہیں بلکہ اخلاقیات کی برتری سے حاصل کیا جا تا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف بھی مغرب کو جو جیت حاصل ہوئی تھی، اس میں انہی مغربی نعروں کا دخل تھا لیکن چونکہ امریکہ اور مغرب کے اخلاقیات کی پول عراق و افغانستان کے بعد اب غزہ میں کھل چکی ہے اور عالمی اداروں کی معنویت پورے طور پر داؤ پر لگ گئی ہے، اس لیے اب مغربیت کو شکست سے کوئی بھی بچا نہیں پائے گا۔ ایسا اس لیے ہوگا، کیونکہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ہی ان تمام بنیادوں پر تیشہ زنی کی ہے جن کے دم سے ان کی برتری کا بھرم قائم تھا لیکن قارئین کے ذہن میں یہ سوال آ سکتا ہے کہ اگر مغربی ممالک اسرائیل کے ساتھ ہیں جس سے زوال کی تھیوری تیار ہو رہی ہے تو پھر مغربی ملکوں کے عوام جو اپنے اپنے شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر غزہ کے مظلومین کی حمایت میں آوازیں بلند کر رہے ہیں، ان کو کیسے دیکھا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی فطرت ہی انسانی فطرت ہے جو دنیا کے تمام حصوں اور انسانوں میں پائی جاتی ہے۔ معروف مفکر محمد الغزالی نے اپنی کتاب ’جدد حیاتک‘ میں امریکی مفکر ڈیل کارنیگی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کی زندگی کے بہت سے اصول عین اسلامی تعلیمات کے مطابق تھے اور پھر یہ تبصرہ کیا ہے کہ دنیا میں وہ تمام بلند فکر و اخلاق کے لوگ جن کی طبیعت مسخ نہیں ہوئی ہے، ان کی فکر اسلام کی فکر سے متضاد نہیں ہوسکتی۔ چونکہ مغرب نے جب اپنی ترقی کا راستہ نشاۃ ثانیہ کے عہد میں اختیار کیا تھا تو اس میں انسان کو ہی اپنی تحقیق کا مرکز بنایا تھا اور مذہب سے اپنا پیچھا چھڑا لیا تھا، کیونکہ ان کے مذہبی رہنماؤں نے مذہب کی تعلیمات کو فطرت انسانی کے خلاف جنگ کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ آج مغربی دنیا اخلاقی طور پر دوبارہ سے اسی دور وحشت ناکی کی طرف جانے لگی ہے، اس لیے اس کی عالمی قوت کا زوال بھی مقدر ہے لیکن چونکہ مغرب و امریکہ کی یونیورسٹیوں اور تعلیم گاہوں میں آج بھی جمہوری قدروں، انسانی حقوق اور عالمی برادری جیسے موضوعات پڑھائے جاتے ہیں، اس لیے وہاں کے نوجوانوں میں اپنے لیڈران کے تئیں غصہ ہے، کیونکہ وہ جو کچھ کتابوں میں پڑھتے ہیں، اپنے پروفیسران سے لکچروں میں سنتے ہیں اور آرٹ و کلچر کے دروس کو سمجھتے ہیں تو ان کے سامنے ایک مشترک انسانی سماج کا تصور ابھرتا ہے لیکن جب وہ غزہ میں معصوم زندگیوں کی تباہی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ساتھ اپنے لیڈروں کے دوہرے معیار کو دیکھتے ہیں تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ مسلم اصولوں سے انحراف کیا جا رہا ہے، لہٰذا مظالم کے خلاف وہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنی انسانی فطرت کی سلامتی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ کے معاملے پر بھی تمام مغربی ملکوں میں احتجاج جاری ہے اور پورا مغربی معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ اگر مغربی حکومتیں اسرائیلی بربریت کے ساتھ کھڑی ہیں تو سڑکوں اور بازاروں اور تعلیم گاہوں میں موجود مغربی عوام کی حمایت فلسطینیوں کو حاصل ہے۔ اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ اب اس دنیا کو ایک نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہوگی اور تمام عالمی اداروں کی تشکیل نو کا کام کرنا ہوگا۔ اس ورلڈ آرڈر میں فلسطین کا مسئلہ حل ہونا ناگزیر ہوگا۔ اگر حماس کے تمام لیڈران بھی شہید کر دیے جائیں تب بھی یہ حقیقت اب نہیں بدلے گی، کیونکہ حماس کسی فرد یا جماعت کا نام نہیں بلکہ ایک فکر کا نام ہے جس کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر فلسطین کو انصاف نہیں ملے گا تو اس کا امکان ہے کہ ایک ایسی طاقت غزہ کے ملبوں سے اٹھے گی جو حماس سے زیادہ طاقتور ہوگی اور اس کا مقابلہ کرنا اسرائیل کے لیے بالکل ممکن نہیں ہوگا۔ جو بچے غزہ میں زندہ بچ جائیں گے، وہ کبھی اسرائیل کے وجود کو قبول نہیں کریں گے اور یہی صیہونیت کی سب سے بڑی شکست ہے، کیونکہ ایک آسمانی دعوت کا دعویدار ہونے کے باوجود یہودیوں نے شیطنت کی نئی مثال قائم کر دی ہے۔n