مسجد الاقصیٰ کی بازیابی اولین مقصد: سید خالد حسین

0

سید خالد حسین
فلسطینیوں کی اسرائیلیوں کے خلاف 75 سالہ جد و جہد صرف فلسطینی سر زمین کے اس بڑے حصے کی بازیابی کے لیے نہیں ہے جس پر یورپ میں مقیم یہودیوں نے برطانیہ کی مدد سے غیر قانونی طور پر قبضہ کر لیا تھا اور جہاں انہوں نے سن 1948 میں اسرائیل کے نام سے ایک صہیونی ریاست قائم کرلی تھی۔ نہ ہی عربوں کے اسرائیل کے ساتھ مختلف مسلح تصادم صرف ان فلسطینی زمینوں کو آزاد کرانے کے لیے ہوتے رہے ہیں جن پر اسرائیل نے 1967 میں چھ روزہ عرب-اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھا۔ اور نہ ہی فلسطینیوں کی جد و جہد صرف مقبوضہ مشرقی یروشلم، مقبوضہ مغربی کنارے (جو کہ سابقہ فلسطین کا ایک زمینی علاقہ ہے) اور شام میں جولان کی پہاڑیوں(ہضبۃ الجولان) پر اسرائیل کی طرف سے یہودیوں کے لیے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 100 سے زائد بسائی ہوئی بستیوں کو ہٹانے کے لیے ہے جن میں اس وقت کل ملا کر تقریباً 700,000 یہودی آباد ہیں۔
فلسطینیوں، خصوصاً اسرائیل کے مشرق میں سمندر کے کنارے پر واقع غزہ پٹی میں مقیم اسلامی مزاحمتی تحریک حماس، کی مسلح جد و جہد مسلمانوں کے قبل اول مسجد الاقصیٰ کو آزاد کرانے کے لیے بھی رہی ہے۔ یہ مسجد یروشلم، جو کہ سابقہ فلسطین کا دارالحکومت ہے، کے مشرقی حصے میں ہے اور اس پر اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ پٹی، مصر کے جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں سمیت 1967 کی عرب-اسرائیل جنگ کے بعد سے ہی قبضہ کر رکھا ہے۔ اسرائیل نے 1979 میں ہوئے مصر-اسرائیل امن معاہدے کے نفاذ کے بعد 1982 میں سینائی کو مصر کے حوالے کر دیا تھا، لیکن مغربی کنارہ، غزہ پٹی اور جولان کی پہاڑیاں ابھی تک اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔
دنیا بھر کے مسلمان غالباً زیادہ فکر مند نہ ہوتے اگر فلسطین کا مسئلہ دنیا میں اور جگہوں کی طرح صرف زمین کو آزاد کرانے سے متعلق ہوتا۔ لیکن چونکہ فلسطین مسلمانوں کے دلوں میں اس لئے ایک خاص مقام رکھتا ہے کہ اس سر زمین پر اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بہت سے انبیائے کرام بھیجے اور مسجد الاقصیٰ اور دیگر کئی مقدس اسلامی مقامات یہاں موجود ہیں، اس لئے مسلمانوں کو فلسطین کی سر زمین سے ایک خاص روحانی لگاؤ ہے اور وہ اس کے اجاڑے گئے مسلمانوں اور مسجد الاقصی پر مسلسل اسرائیلی قبضے کے بارے میں گہری تشویش رکھتے ہیں۔
حماس اور اس کی عزالدین القسام بریگیڈز کی جانب سے سات اکتوبر 2023 سے جاری ’’آپریشن الاقصیٰ فلڈ‘‘(عملیہ طوفان الاقصیٰ) مسلح جد و جہد نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے حماس یا دیگر فلسطینی تنظیموں، جیسے کہ فتح اور تنظیم آزادی فلسطین، کی طرف سے ماضی میں کی گئی کسی بھی مہم، بشمول 1980 اور 2000 کی دہائیوں میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضے کے خلاف انتفاضہ (بغاوت)، سے کہیں زیادہ زیادہ ہمدردی حاصل کر لی ہے۔ جیسا کہ حماس کی موجودہ مسلح کارروائی کے کوڈ نام سے واضح ہے، یہ جد و جہد خاص طور پر مسجد الاقصی کو یہودیوں سے آزاد کرانے کے لیے ہے۔ اس جد و جہد میں فلسطین کے باہر رہنے والے مسلمان غزہ کے لوگوں کی درج ذیل طریقوں سے مدد کر سکتے ہیں:
مسجد الاقصیٰ کی اہمیت
پوری دنیا کے مسلمان مسجد الاقصیٰ (جس کے لغوی معنی سب سے دور کی مسجد ہے) کو اس کی تاریخی اور مذہبی اہمیت کی وجہ سے بہت اہم مانتے ہیں۔ مسجد الاقصیٰ مکہ مکرمہ میں واقع مسجد الحرام اور مدینہ منورہ میں واقع مسجد النبوی کے بعد اسلام کی تیسری مقدس ترین عبادت گاہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ سے پہلے مسلمانوں کا قبلہ تھا، یعنی مسلمان اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے، اور خانہ کعبہ کے بعد اس زمین پر اللہ کا دوسرا گھر تھا۔مسجد الاقصی اسلام کے ابتدائی سالوں میں مسلمانوں کا قبلہ ہوا کرتی تھی۔ رسول اللہؐ کی مدینہ ہجرت کے دوسرے سال، یعنی سن 623/624 عیسوی میں، اللّٰہ کے حکم سے قبلہ کو کعبہ کی طرف تبدیل کر دیا گیا۔ مسجد الاقصیٰ کا تعلق نبی اکرم ؐ کے معراج سے بھی ہے۔ قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’پاک ہے وہ ذات (اللہ) جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک لے گئی، جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم انھیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ ہر بات سننے والی اور ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل، آیت 1) معراج کے موقع پر رسول اللہؐ نے مسجد الاقصیٰ میں تمام انبیاء علیہم السلام کو با جماعت نماز بھی پڑھائی تھی۔رسول اللہؐ کی متعدد احادیث مسجد الاقصیٰ کے قدیم اور مقدس ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا: ’’یا رسول اللہ! روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟‘‘ آپ ؐ نے کہا، ’’مسجد الحرام‘‘۔ میں نے پوچھا، ’’پھر اس کے بعد؟‘‘ آپ ؐ نے فرمایا، “مسجد الاقصیٰ”۔ میں نے پوچھا: “ان دونوں مساجد کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟” آپ ؐ نے فرمایا: “چالیس سال.” پھر فرمایا کہ ساری زمین تمہارے لیے مسجد ہے لہٰذا جہاں نماز کا وقت ہو جائے وہاں نماز پڑھو۔ (متفق علیہ/مشکوٰۃ)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے مکہ میں خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی جیسا کہ قرآن مجید نے اسے ’’لوگوں کے لیے مقرر کردہ پہلا گھر‘‘ کہا ہے (آل عمران: 96)۔ اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے مسجد الاقصیٰ کی بنیاد رکھی۔ اللّٰہ تعالیٰ کے دو گھر ان کی اصل بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کیے گئے تھے جو بالترتیب انبیاء ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے دریافت کیے تھے۔ مسجد الاقصیٰ ان تین عبادت گاہوں میں سے ایک ہے جس کا ذکر رسول اللہؐ نے اپنے ارشادات میں فرمایا ہے۔ مندرجہ ذیل قول مسجد الحرام، مسجد النبوی اور مسجد الاقصیٰ کی مقدس حیثیت کو درجہ دیتا ہے۔ حضرت ابو درداء اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما رسول اللہؐ کا فرمان نقل فرماتے ہیں کہ مسجد الحرام میں نماز ادا کرنا ثواب کے اعتبار سے ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے اور مسجد النبوی میں نماز ادا کرنا ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد الاقصیٰ میں نماز ادا کرنا پانچ سو نمازوں کے برابر ہے، جب کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مسجد الاقصیٰ اور مسجد النبوی میں ایک نماز ادا کرنا ثواب کے اعتبار سے پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ چونکہ مسجد الاقصیٰ مقبوضہ بیت المقدس میں واقع ہے، اس لیے اس مقدس شہر کو بیت المقدس، بیت المَقدِس اور القْدس بھی کہا جاتا ہے۔ یروشلم میں الصخرہ، یا مقدس چٹان، بھی ہے جس پر القبطہ الصخرہ، یا چٹان کا گنبد، کھڑا ہے۔ یہ مسجد دوسرے خلیفہ عمر رضی اللّٰہ عنہ کی ہے جو اب کھو گئی ہے۔ اوپر بیان کی گئی وجوہات کی بنا پر یروشلم کے قدیم شہر کی ہمیشہ مسلمانوں کی طرف سے تعظیم کی جاتی رہی ہے۔ حضرت عمر خود رسول اللہؐ کے دور میں اس سے جذباتی طور پر وابستہ ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنے قبلہ اول کو عیسائیوں سے آزاد کرانے کا عہد کیا تھا۔ چنانچہ سن 638 عیسوی میں جنگ یرموک میں رومیوں کو شکست دینے کے بعد مسلم فوج نے فلسطین اور اردن کی سر زمین پر چڑھائی کی۔ وہاں انہوں نے یروشلم کا محاصرہ کیا۔ آخرکار مسلمان شہر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
مکرم قبضہ
یہ قبضہ عمر رضی اللہ عنہ کی بزرگی، عظمت، سادگی، فہم و فراست اور عدل و انصاف کے احساس اور مغلوب لوگوں کے ساتھ مہربانی کا مظہر ہے۔ جب مسلمانوں نے اس مقدس شہر کا محاصرہ کیا تو عیسائیوں نے صلح پر رضامندی ظاہر کی اور اس شرط پر اسے مسلمانوں کے حوالے کر دیا کہ حضرت عمر خود صلح کے معاہدے پر دستخط کریں۔ جب حضرت عمر، جو اس وقت مدینہ منورہ میں تھے، کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے شرائط مان لیں اور ریاست کے معاملات علی ابن ابی طالب کے حوالے کر کے یروشلم چلے گئے۔ حضرت عمر نے بیت المقدس کا تقریباً 600 میل (960 کلومیٹر) کا سفر اونٹ پر کیا۔
حضرت عمر کے ہاتھوں یروشلم پر قبضے کا خلاصہ کرتے ہوئے انگریز مؤرخ اسٹیون رنسیمین، جو 2000 میں 97 سال کی عمر میں فوت ہوئے، اپنی کتاب ’’صلیبی جنگوں کی تاریخ‘‘ میں لکھتے ہیں: “… خلیفہ عمر سفید اونٹ پر سوار ہو کر یروشلم میں داخل ہوے۔ وہ گھسے ہوئے، بوسیدہ لباس میں ملبوس تھے اور ان کے پیچھے آنے والی فوج کھردری اور ناکارہ تھی۔ لیکن اس کا نظم و ضبط کامل تھا۔ ان کے پہلو میں پیٹریاارک سوفرونیئس تھا جو ہتھیار ڈالنے والے شہر کا چیف مجسٹریٹ تھا۔ حضرت عمر سیدھے اس مقام پر سوار ہوئے … (مسجد اقصیٰ)، جہاں سے ان کے دوست محمد معراج کے لئے گئے تھے۔
’’اس کے بعد خلیفہ (عمر) نے عیسائیوں کے مزارات دیکھنے کو کہا۔ پیٹریارک اسے چرچ آف ہولی سیپلچر لے گیا اور وہاں موجود تمام چیزوں کو دکھایا۔ جب وہ گرجا گھر میں تھے نماز کا وقت قریب آ گیا۔ خلیفہ (عمر) نے پوچھا کہ وہ اپنی جائے نماز کہاں بچھا سکتے ہیں۔ سوفرونیئس نے ان سے منت کی کہ وہ جہاں ہے وہیں ٹھہریں۔ لیکن عمر اس خوف سے باہر شہید کے برآمدے میں چلے گئے، انہوں نے کہا کہیں ان کے پرجوش پیروکار اس جگہ اسلام کا دعویٰ نہ کر لیں جہاں انہوں نے نماز پڑھی تھی۔ اور واقعی ایسا ہی تھا۔ برآمدے پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا، لیکن چرچ باقی رہا۔‘‘
’’یہ شہر کے ہتھیار ڈالنے کی شرائط کے مطابق تھا۔ رسول اللہؐ نے خود حکم دیا تھا کہ … عیسائیوں کو اپنی عبادت گاہوں کو برقرار رکھنے اور انہیں بغیر کسی رکاوٹ کے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔‘‘تاہم دیگر تفصیلات بتاتی ہیں کہ یروشلم کے طویل اور تھکا دینے والے سفر میں حضرت عمر کے پاس صرف ایک خادم اور کچھ کھانے پینے کا سامان اور پانی تھا۔ جب وہ شہر پہنچے تو پیدل چل رہے تھے اور خادم اونٹ پر سوار تھا، کیونکہ وہ باری باری اونٹ پر سوار ہوئے اور جب وہ شہر پہنچے تو خادم کے سوار ہونے کی باری تھی۔یہی وہ فضل اور وقار تھا جس کے ساتھ یروشلم کو مسلمانوں نے ان شرائط کے تحت اپنے قبضے میں لے لیا جس نے مغلوب ہونے والوں کو ضمیر اور عبادت کی آزادی دینے کے لیے معقول غور و فکر کا مظاہرہ کیا۔ حضرت عمر نے صلح کا ایک معاہدہ شہر کے عیسائیوں کے حوالے کیا جس میں ان کے جان و مال کے تحفظ اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کی ضمانت دی گئی تھی۔ اس معاہدے کی شرائط کے تحت اور عیسائیوں کے مطالبہ کے مطابق حضرت عمر نے یہودیوں کو یروشلم سے نکال دیا۔ بعد میں مسلمانوں نے مسجد الاقصیٰ کی تعمیر نو کی۔
القدس دوبارہ پکار رہا ہے۔
یروشلم تقریباً 460 سال تک مسلمانوں کے قبضے میں رہا، یہاں تک کہ یہ 1097 میں صلیبیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ لیکن 90 سال بعد 2 اکتوبر 1187 کو صلاح الدین یوسف ابن ایوبی، جو کہ مصر اور شام دونوں کا پہلا سلطان تھا، کی سربراہی میں اس مقدس شہر پر مسلمانوں نے دوبارہ قبضہ کر لیا۔ یہ شہر مسلمانوں کے ہاتھ میں رہا یہاں تک کہ اب سے 56 سال قبل 1967 میں چھ روزہ عرب-اسرائیل جنگ کے بعد یہودیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ یروشلم کا مقدس شہر، جس میں نہ صرف اسلام کی تیسری مقدس ترین عبادت گاہ کے علاوہ کئی دیگر اسلامی مقامات بھی ہیں، صلاح الدین ایوبی کے جزبہ جہاد اور خلیفہ عمر کی سادگی، فہم و فراست اور عدل و انصاف کے مطابق اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایک اور جدوجہد کا مطالبہ کر رہا ہے۔ خدا کرے کہ فلسطینی دنیا بھر کے مسلمانوں کی مدد اور دعا سے اس بار اپنی جد و جہد میں کامیاب ہوں اور مسجد الاقصی کو صیہونیوں سے آزاد کرائیں۔
مضمون نگارسنگاپور میں مقیم انگریزی اور اردو کے سینئر صحافی ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS