عبد الرحیم امینی
اسرائیل فلسطین جنگ کے ایک ماہ ہوگیا ، بے تحاشا جانی ومالی نقصانات ہو چکا ہے، ترقی یافتہ ممالک مگرمچھ کے آنسو بہارہے ہیں، اس معاملہ پر امریکہ اور برطانیہ کی بے شرمی اور اسلام دشمنی طشت از بام ہو چکی ہے۔دونوں میں سے کس نے کیا کھویا اور کیا پایا، اب واضح ہو چکا ہے۔حماس کا جانی نقصان ہوا ہے، عمارتیں تباہ ہوئی ہیں، پوری دنیا جانتی ہے فضا میں اسرائیل اپنی بالادستی قائم کیے ہوئے ہے۔ مرنے والوں میں بچے، عام شہری اور عورتیں ہیں ۔
پوری انسانی برادری نے اس کو نسل کشی کا نام دیا ہے اور اس سفاکیت کو جنگی جرائم میں سر فہرست عالمی برادری بہت پہلے تسلیم کر چکی ہے اور اس پر معاہدہ بھی ہو چکا ہے اور اس کی خلاف ورزی نے آئی ڈی ایف( IDF) کو پوری دنیا میں ذلیل کر کے رکھ دیا ہے۔اسرائیل کو اس جنگ میں ایک بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ اس کے جنگی حربوں کی حقیقت سامنے آگئی ہے۔ وہ مرکاوا ٹینک جس کے عدم تسخیر کا خوف پوری دنیا کے دل ودماغ پر بیٹھا ہوا تھا، حماس کی میزائلوں نے اس کی حقیقت کھول کر رکھ دی۔اس کے رڈار کی جدیدیت،قدر اور قیمت سب کی پول دنیا کے سامنے کھل چکا ہے، ان کی فصیل کا طول، عرض اور عمق اور اس پر نصب نگراں کیمرے اور ان کی معنویت سب واضح ہو چکی ہے۔
اسرائیل کا انٹلیجنس بیورو جس کو ’موساد‘ کے نام سے پوری دنیا جانتی ہے اور جس کے بارے میں پوری دنیا کا خیال تھا کہ اس کی آنکھیں دن میں آفتاب اور شب میں ماہتاب بن کر چھوٹی بڑی ہر چیز کو اپنی نظر میں رکھتی ہیں۔ ’موساد‘ کے غبارے کی ہوا ایسی نکلی کہ انھیں چلو بھر پانی بھی نہیں ملتا کہ اس میں ڈوب مریں۔ اپنے قیدیوں کی تلاش میں مجنوں بنے، کبھی اسپتالوں پر بم برساتے ہیں تو کبھی پناہ گزینوں کے کیمپوں کو نشانہ بناتے ہیں لیکن۔
کبھی ہم اف کبھی ہم آہ کبھی فریاد کرتے ہیں
خدا یا وہ نہیں ملتے جنہیں ہم یاد کرتے ہیں
اسرائیل کا ناقابل تلافی خسارہ یہ ہوا ہے کہ فلسطین کا وہ قضیہ جو دنیا کی نظر سے دھیرے دھیرے اوجھل ہو چکا تھا یا ہو رہا تھا، پوری شدت کے ساتھ عالمی برادری کی زبان پر آچکا ہے۔ جنگوں کی عمر لمبی نہیں ہوتی بالآخر دونوں کو مصالحت کے لیے بیٹھنا پڑے گا، آگے کسی ثالثی کے لیے فلسطینیوں کے مسائل کو نظر انداز کر پانا شاید ممکن نہ ہو۔حالیہ جنگ میں نہ اسرائیل خود ڈوبا ہے بلکہ اپنے آقا امریکہ کو بھی شاید ڈبو دے گا،کیونکہ روس، چائنااور نارتھ کوریا کے درمیان قربتیں بڑھ رہی ہیں اور یہ تینوں امریکہ کو شیطان بزرگ مانتے ہیں اور پوری دنیا بالخصوص شرق اوسط سے اس کی چودھراہٹ کو ختم کردینا چاہتے ہیں اور اپنے بیوپار کو فروغ دینا چاہتے ہیں امریکہ اور اسرائیل ان کی راہ کے سنگ گراں ہیں، کسی بھی قیمت پر ان کے پیر اکھڑنے چاہئیں، یہ ان کی چاہت ہے اور آگے چل کر مڈل ایسٹ میں امریکی اسلحے کا دلال اسرائیل کو اس حوالے سے بھی اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہونا قریب قریب طے ہے۔
بنیامین نیتن یاہو کا ’ گریٹ اسرائیل ‘ کا خواب بری طرح چکناچور ہو چکا ہے اور اندرون ملک انھیں شدید مخالفتوں کا سامنا ہے۔ ان پر غبن، عدالتوں اور نظام عدل کو کمزور کرنے کا سنگین الزام ہے، ان کے خلاف بغاوتوں ہیں، نفرتوں کا لا متناہی سلسلہ ہے، یہ شدت پسند وزیراعظم کا اپنا ذاتی سیاسی نا قابل فراموش زیاں ہے۔ایک اور بات یہ ہو گی کہ عالم اسلام سالوں تک اسرائیل سے اپنے ہر طرح کے رشتوں کی بحالی پر شاید تیار نہ ہو کیونکہ یہودی جارحیت کا زخم سالوں مندمل ہو نے والا نہیں، حکومتیں عوام کے دبائو میں رہیں گی۔
بہر حال آگے صرف اتنا ہوگا کہ منافقین عالم دونوں کو اپنی پرانی ’کوٹ نیت‘ کے ذریعہ گفتگو کے میز تک لائیں گے اور میزبانی کا شرف حاصل کریں گے، کس پر کس طرح کی قیامت آئی ہے، کس کے گھر کے کتنے لوگ شہید ہوئے ہیں، کسی کو اس کی فکر نہیں ہو گی ۔ممکن ہے اسرائیل یہ جنگ جیت جائے لیکن اس میں شکست کے اتنے پہلو چھپے ہوئے ہوں گے، مدتوں یہود اور ان کے اعوان و انصار اس کو بھول نہیں پائیں گے۔اور میرا خیال یہ ہے کہ بہرحال اسرائیل کا اگلا وزیراعظم بنیامن نتن یاہو نہیں ہو گا، ان شاء اللہ۔
عظیم تر اسرائیل کا خواب چکنا چور؟: عبد الرحیم امینی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS