خواجہ عبدالمنتقم
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر کے مقبول نکہت مہدی یادگار خطبہ میں یہ بیان کہ کسی کو یاد کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ تاج محل ہی بنوایا جائے، ان کی عملی سوچ کا مظہر ہے لیکن تاج محل کے حسن اور عظمت کو اس کی ابتدائی شکل و نوعیت میں برقرار رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اس کے معمار کو یاد رکھنا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک ایسا ادارہ ہے جسے شیخ الہند محمود حسن، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، عبدالمجید خواجہ ،ڈاکٹر ذاکر حسین ودیگر ہمدردان قوم وہمدردان مسلمانان ہند نے دن رات محنت کرکے بغیرکسی مالی لالچ کے قائم کیا تھا۔ یہ مانا کہ ایک جانب اس ادارے کا مقصد تعلیم کے فروغ کے ذریعہ عمومی طور پر پورے معاشرے میں سماجی ومعاشی تبدیلی لانا تھا لیکن دوسری جانب اس کا مقصد خصوصی طور پر مسلمانوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کرکے انہیں اصلاح شدہ معاشرے کا حصہ بنانا بھی تھا۔
اگر مجاہدین آزادی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی شکل میں ہمیں یہ بیش قیمت علمی و ادبی تحفہ نہ دیا ہوتا تو آج جامعہ کے اطراف میں بہت سے لو گ اسے ایک خطۂ تعلیم سمجھ کر آباد نہ ہوتے اور انہوں نے اور ان کی اولاد نے اس سے مکمل فیض نہ اٹھایا ہوتا۔ دہلی کے کسی علاقہ میں شاید ہی اتنے تعلیم یافتہ لوگ رہتے ہوں، جتنے اس علاقہ میں رہتے ہیں مگراب یہ علاقہ ما سوائے جامعہ سے متعلق تعمیرات کے خطۂ تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک گھیٹوکی شکل اختیار کر چکا ہے۔ہم نے اس زمینی صورت حال کی جانب محض ضمناً اشارہ کیا ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ ایکٹ ، 1988 کی دفعات 5اور6جو یونیورسٹی کے اغراض اور اختیارات سے متعلق ہیں، میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ یہ التزام ہے کہ یونیورسٹی کی اغراض میں مختلف علوم کی تعلیم،تحقیق اور توسیعی تعلیم کی سہولیات کے لیے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی،سیکولرازم اور بین الاقوامی سمجھ بوجھ اور ہندوستان کے مذاہب،فلسفہ اور ثقافت کے مطالعہ کو فروغ دینا بھی شامل ہیں۔اسی ا یکٹ کی دفعہ7 میں واضح طور پریہ التزام کیا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے دروازے سبھی افراد کے لیے کھلے رہیں گے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی نسل، مذہب، ذات، یا طبقے سے ہو اور یونیورسٹی کے لیے یہ مناسب نہیں ہوگا کہ وہ کسی بھی شخص کا بحیثیت استاد یا طالب علم داخلہ کا حقدار ہونے یا اس میں کوئی عہدہ حاصل کرنے یا حصول سندکے لیے کسی بھی قسم کے مذہبی عقیدہ یا مذہب سے متعلق کوئی امتحان لے یا اس پر تھوپے۔
ایک وہ دور تھا جب ہماری معلومات کے مطابق یہاں صرف جامعہ اسکول ،جامعہ کالج اور ٹیچرز ٹریننگ کالج ہوا کرتے تھے۔ جامعہ کالج میں پڑھنے والوں کو سندی کے نام سے موسوم بی اے کی ڈگری دی جاتی تھی اور آج یہ ادارہ جدید و دیگر عصری مضامین سے متعلق کئی فیکلٹیز پر مشتمل ہے۔ آج جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلیم پانے والے مختلف شعبۂ حیات میں نمایاں کردار اداکررہے ہیں ،خواہ زمین ہو یا آسمان(بحوالہ چندریان مشن) یونیورسٹی کے طلبا اور اساتذہ کو قومی و بین الاقوامی پیمانے پر شناخت مل رہی ہے اور جس تیزی سے یہ ادارہ ترقی کی منازل طے کررہا ہے اور اس کی رینکنگ کا گراف بالا رو اختیار کرتا جا رہا ہے، شاید یہ بانیان جامعہ کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوگا۔دیگر شعبۂ جات میں تو اضافہ ہوتا ہی رہا ہے، اب میڈیکل کالج کا قیام بھی نوشتۂ دیوار ہے اور اس کے ڈینٹل کالج کو برابر مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ خدا نظر بد سے بچائے!
جامعہ ملیہ وہ ادارہ ہے جس کے بارے میں گاندھی جی نے یہ کہا تھا کہ اس کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مجھے اگر کٹورا لے کر بھیک بھی مانگنی پڑے تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔ آج بڑے افسوس کی بات ہے کہ کبھی کبھی اس ادارے کے اقلیتی کردار کو زک پہنچانے کی بات کی جانے لگی ہے جبکہ اقلیتی تعلیمی اداروں کے قومی کمیشن نے اس کے تاریخی پس منظر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور بانیان جامعہ کے اقوال، اعمال، بیانات، اعلانات اور وقتاً فوقتاً جامعہ کے قیام سے وابستہ مختلف کمیٹیوں کی منظور شدہ تجاویز، پیش کردہ و داخل کردہ دستاویزی ثبوتوں کی روشنی میںاور سپریم کورٹ کی اقلیتی اداروں سے متعلق تقریباً تمام نظیروں کا حوالہ دیتے ہوئے(عزیز پاشا، سینٹ اسٹیفن، ٹی ایم پائی وغیرہ) صاف طور پر یہ بات کہی تھی کہ یہ یونیورسٹی تو آئین کے نفاذ سے قبل بھی موجود تھی اور اس نے کبھی بھی اپنا اقلیتی کردار نہیں گنوایا، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تعلق سے اس امر کا صداقت نامہ جاری کرنے کا حکم صادر کیا تھا کہ یہ ایک اقلیتی ادارہ ہے ، جسے مسلمانوں نے مسلمانوں کو تعلیم کے بہتر مواقع فراہم کرنے کی نیت سے قائم کیا تھا۔اگر کوئی تعلیمی ادارہ پارلیمنٹ کے ایکٹ کے تحت قائم کیا جاتا ہے تو اس کے اس کردار کو محض اس بنیاد پر کہ اسے ایک ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا ہے اور حکومت اسے مالی امداد فراہم کرتی ہے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت کا آئین اگر اس کی تعبیر آئین کے تعبیری اصولوں کے عین مطابق کی جائے تو اس میں کہیں پر بھی یہ درج نہیں کہ کسی تعلیمی ادارے کو مالی امداد دینے سے اس کا اقلیتی کردار ختم ہوجائے گا۔ اقلیتوں کے مفادات سے متعلق آئین کی دفعہ 29 میں بھی اس طرح کا کوئی التزام نہیں ہے۔ دریں صورت جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک اقلیتی ادارہ ہے، اقلیتی ادارہ تھا اور اقلیتی ادارہ رہے گا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ ایکٹ،1988محض ایک استقراری قانون تھا۔اس کی دفعہ 4میں یہ بات واضح کردی گئی تھی کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ سوسائٹی کو تحلیل کیا جاتا ہے اور اس کی تمام جائیداد او رجملہ حقوق ، اختیارات و مراعات یونیورسٹی کو منتقل کی جاتی ہیں اور ان کا استعمال ان اغراض و مقاصد کے لیے کیا جائے گا،جن کے لیے یونیورسٹی قائم کی گئی تھی۔
خود ڈاکٹر ذاکر حسین نے بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بارے میں بڑے وضاحتی انداز میں یہ بات کہی تھی:
’’جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تحریک ایک تعلیمی وثقافتی نشأۃ ثانیہ کے لیے جدوجہد ہے۔ یہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک ایسا خاکہ (blue print) تیار کرے گی جس کا فوکس اسلام پر ہونے کے ساتھ ساتھ عام ہندوستانیوں کے لیے ایک قومی کلچر معرض وجود میں لانا ہے۔یہ تحریک ہندوستانی مسلمانوں میں جذبۂ حب الوطنی اور قومی یکجہتی کو فروغ دے گی اور اس طرح ہندوستانی مسلمان ملک کی ترقی میں حصہ لینے میں فخر محسوس کریںگے اور ہمارا ملک اقوام عالم کے ساتھ مل کر دنیا میں امن وامان قائم کرنے اور ترقی کے کاموں میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کا مقصد مستقبل میں ہندوستانی مسلمانوں کودرپیش چنوتیوں کے مدنظر ان کے لیے ایک ایسا عام نصاب تیار کرنا ہے اور بچوں کو اس طرح تیار کرانا ہے کہ وہ مستقبل میں اہم کردار ادا کرسکیں یعنی انہیں یہ احساس ہو کہ یہ ملک ان کا اپنا ہے اور وہی اس کے مالک ہیں۔‘‘
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]