قطر میں سابق افسران کی سزائے موت پر اُٹھتے سوال : ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

قطر کی عدالت ’کورٹ آف فرسٹ انسٹانس ‘کی جانب سے 26اکتوبر 2023 کو ہندوستانی بحریہ کے 8 سابق فوجی افسران کو سزائے موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ ہندوستان نے عدالت کے فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ قرار دیا۔اس بابت سبھی قانونی پہلوؤں پر غور کیا جا رہا ہے۔ وزارت خارجہ نے کہا کہ ہندوستان اس معاملے کو اولین ترجیح دے رہا ہے اور مزیدقانونی لڑائی لڑنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ وہ سابق فوجی افسران کے اہل خانہ اور قانونی ٹیم کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اس معاملے کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے اور اس پر باریکی سے نظر رکھی جارہی ہے۔اس کے علاوہ سفارت خانے کی جانب سے مدد کے لیے ہر ممکنہ اقدام کیے جا رہے ہیں۔اسے قطر کے عہدیداران کے سامنے اُٹھایا جائے گا اور اعلیٰ رہنماؤں کے ساتھ گفتگو کی جائے گی۔یہ سبھی قابل فوجی افسران رضاکارانہ طور پر رٹائرمنٹ لینے کے بعد قطر کی نجی کمپنی الدہرہ گلوبل ٹیکنالوجیز اینڈ کنسلٹنسی سروسز کے لیے کام کرنے گئے تھے۔ ان میں ایک افسر کو صدر کی جانب سے گولڈ میڈل سے سرفراز کیا گیا تھا۔ دوسرے افسر آئی این ایس وراٹ میں فائٹر کنٹرولر تھے۔ الدہرہ کمپنی میں منیجنگ ڈائریکٹر کی ذمہ داری سنبھال کر خدمات انجام دینے والے ایک دیگر سابق افسر کو قطر امیری بحریہ ا فواج کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے ان کے تعاون پر قطری ’غیر ملکی بھارتیہ سمان‘ دیا گیا تھا۔ یہ کمپنی ایک عمانی شہری اور سابق رائل عمانی فضائیہ کے افسر کی ہے۔ ان فوجیوں کو30 اگست2022میں اسرائیل کے لیے آ ب دوز کے ایک پروگرام کی جاسوسی کرنے کے الزام میں قطر میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان سابق افسران پر رواں سال29 مارچ کو سماعت شروع کی گئی تھی۔ انہیں طویل عرصے تک قید میں رکھنے کی کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔سبھی گرفتار 3 کیپٹن ، 4 کمانڈر اور ایک سیلر پر قطر کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات کو منظرعام پر نہیں لایاگیاہے۔ موت کی سزا کا سامنا کرنے والے ان افسران میں کیپٹن نوتیج سنگھ گل، کیپٹن سوربھ وششٹھ، کمانڈرپورنیندو تیواری، کیپٹن بیریندر کمار ورما، کمانڈر سوگوناکرپکالا،کمانڈر سنجیو گپتا،کمانڈر امت ناگپال اور سیلر راگیش شامل ہیں۔ ان میں بھوپال کے رہائشی سابق کمانڈر پورنیندو تیواری کو2019میں بھارت کے اس وقت کے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند اور وزیر خارجہ سشما سوراج نے ’بیرون ملک بھارتیہ سمان‘ سے نوازا تھا۔یہ کمپنی میں مینیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ افسران کی سزائے موت کی اطلاع وزارت خارجہ کی جانب سے دی گئی۔ یہ سزا یکم اکتوبر 2023 کو قطر میں ہندوستانی سفیر کے جیل میں بند سابق بحری افسران سے ملاقات کے بعد دی گئی ہے۔
قطر کی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں کارروائی کی رازداری کے پیش نظر بیرون ملک تفصیلات نہیں دی جا سکتیں۔ وزیر خارجہ جے شنکر بھی کہہ چکے ہیں کہ سابق بحری فوجیوں پر لگے الزامات کی نوعیت کی وضاحت نہیں ہے۔ اس مدعے پر حزب اختلاف کی جانب سے بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ گانگریس کے سینئر رہنما ششی تھرور نے قطر کی عدالت کے ذریعہ8ہندوستانی سابق فوجی افسران کو موت کی سزا دینے پر غم کا اظہار کرتے ہوئے اسے حیرت انگیز بتایا۔کہا ہے کہ پورے معاملے کی تفصیلات پراسراریت اور ابہام میں گھری ہوئی ہیں۔ انہوں نے یقین ظاہر کیاکہ وزارت دفاع اور وزیراعظم اس معاملے میں فوری طور پر اہم اقدامات کے تحت قطر کی حکومت سے بات چیت میں اپنے سیاسی اثرو رسوخ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں گے۔جے رام رمیش نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔کانگریس کے رکن پارلیمنٹ منیش تیواری نے بھی قطر کی عدالت کی جانب سے ہندوستانی بحریہ کے اہلکاروں کو دی گئی سزائے موت پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ہندوستانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ملک کو آج تک یہ نہیں معلوم کہ افسران کے خلاف کیا معاملہ ہے اور کیا الزامات ہیں۔وزیراعظم کو اس معاملے میں قطر کے بادشاہ سے بات کرنی چاہیے۔ اے آئی ایم آئی کے سربراہ اور رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے وزیراعظم نریندر مودی سے سبھی افسران کو واپس لانے کے لیے مناسب اقدام کرنے کی گزارش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اگست میں اس مسئلے کو اُٹھایا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ قطر کی جانب سے گرفتار سابق بحری فوجیوں کو کئی مہینے تک یہ نہیں بتایا گیا کہ انہیں کس الزام میں گرفتار کیا گیا ہے؟خیال کیا جا رہا ہے کہ وزارت خارجہ کی کوشش کے بعد جب یہ معاملہ سرخیوں میں آگیا، تب قطر کی انتظامیہ نے اپنی جان بچانے کے لیے اُن پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام لگا کر معاملہ عدالت تک پہنچا دیا۔ قطر کے سخت رویے کا اندازہ اسی سے کیا جاسکتا ہے کہ فوجیوں کی گرفتاری کے ایک مہینہ بعد پہلی مرتبہ ضمانت کی درخواست دی گئی تو اسے مسترد کرتے ہوئے سخت حراست میں بھیج دیا گیا۔قطر کے افسران کا کہنا تھا کہ ان کے پاس الیکٹرانک ثبوت موجود ہیں،جن میں جاسوسی کے الزامات کی تصدیق ہوتی ہے۔بحری فوجی افسران کو موت کا فرمان سنانے کے بعد جہاں ہندوستان کی حکومت افسردہ ہے، وہیں موت کی سزا کو لے کر کئی طرح کے سوال بھی اُٹھ رہے ہیں۔ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی بحریہ کے فوجی افسران کا قصور کیا ہے؟ انہیں کس جرم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا؟ موت کی سزا کیوں دی گئی ہے؟ بحری افسران پر لگائے گئے الزامات کو منظرعام پر کیوں نہیں لایا گیا؟ ملزمان کے گھروالوں کو اس کی اطلاع کیوں نہیں دی گئی؟ انہیں جیل میں الگ الگ کیوں رکھا گیا؟ افسران کی ضمانت کے لیے عدالت میں پیش کی گئی عرضیوں کو باربار کیوں مسترد کیا جاتا رہا ہے؟ حکومت ہند اور ملزمان کے اہل خانہ کو چارج شیٹ کیوں نہیں دی گئی؟ سابق افسران کے ساتھ گرفتار کیے گئے کویت اور عمان کے دیگرشہریوں کو کس بنیاد پر رہا کیاگیا؟ کہیں یہ کوئی سازش تو نہیں ہے؟ اس عمل کے پیچھے پڑوسی ملک کا دباؤ تو نہیں ہے؟
حالانکہ مرکزی حکومت نے بحریہ کے سابق فوجی افسران کی سزائے موت ختم کراکر وطن واپس لانے کے لیے ہر ممکن اقدام کی یقین دہانی کرائی ہے،لیکن یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہت اچھے نہیں ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ گزشتہ برس بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کے ذریعہ دیے گئے متنازع ریمارکس پر سخت تنقید کرنے والا پہلا ملک قطر ہی تھا۔تب سے قطر اور بھارت کے درمیان کوئی اعلیٰ سطحی دورہ ممکن نہیں ہوا۔دوسری وجہ قطر میں منعقد ہوئے فٹ بال ورلڈ کپ کے دوران ہندوستان میں فرار قرار دیے گئے اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائک کو خصوصی توجہ دینا ہے۔ ایک دقت یہ بھی ہے کہ مغربی ایشیا کے بحران کے درمیان جب تمام عالم اسلام یہودی ملک اسرائیل کے خلاف ہے،تب کویت میں قید ان ہندوستانیوں پراسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام لگایاگیاہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کافی اہم ہیں۔ہندوستان قطر سے قدرتی گیس کا ایک بڑادرآمد کنندہ ملک ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 8لاکھ ہندوستانی کامگار قطر میں کام کرتے ہیں۔ان حالات میں مرکزی حکومت کے سامنے اپنے شہریوں کی زندگیوں کو بچانا اولین ذمہ داری تو ہے ہی یہ اس کے لیے ایک بڑا سفارتی چیلنج بھی ہے۔ سابق بحریہ افسران کو بحفاظت ہندوستان واپس لانے کے لیے مودی سرکار کو سفارتی کوششوں کے علاوہ وہ تمام مختلف اقدامات بھی کرنے ہوں گے، انسانیت کی بقا اور بے گناہوں کے تحفظ کے لیے جنہیں کیا جاسکتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS