ڈاکٹر خالد اختر علیگ
اس وقت پورا شمالی ہندوستان ڈینگی،ملیریا اور اسکرب ٹائفس جیسے بخاروں کی زد میں ہے، مؤ خر الذکر بخار پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا تھا، لیکن یہ اب میدانی علاقے کے لوگوں کو بھی نشانہ بنانے لگا ہے۔ اسکرب ٹائفس(Scrub Typhus) ایک جراثیمی تعدیہ ہے، جس نے دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب افراد کو متاثر کیا ہے۔حالیہ برسوں میں اسکرب ٹائفس پورے ہندوستان میں شدید بخار کی شکل میں ابھرا ہے اور اس سے ہونے والی اموات کی شرح میں اضافہ درج کیا جارہاہے۔ یہ ایک متعدی ریکیٹسیل بیماری (Rickettsial Diseases)ہے،ریکٹسیا ویکٹرمتعدی پیتھوجین کو دوسرے جاندار تک منتقل کرتا ہے۔یہ ایجنٹ عموماً طفیلی(Parasite)یا جرثومے(microbes) ہوتے ہیں۔ اسکرب ٹائفس اندرون خلیہ رہنے والا گرام منفی جراثیم اورینٹیا سوسوگاموشی(Orientia tsutsugamushi) سے متاثرہ ٹرمبیکولڈ مائٹس(trombiculid mites) یعنی پسوکی کچھ اقسام کے کاٹنے یا اس کے فضلے سے ہوتاہے، یہ ٹرمبیکولڈ مائٹس کھیتوں، جھاڑیوں اور گھاس میں رہنے والے چوہوں، خرگوشوں، گلہری کے خلیات میں پرورش پاتے ہیں۔ یہ مائٹس بہت چھوٹے(0.2 -0.4 ملی میٹر) ہوتے ہیں اور انہیں صرف خوردبین کے ذریعے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ان مائٹس کے لاروا ہی بیماری کو انسان اور دیگر فقاری جانوروں میں منتقل کر سکتے ہیں،یہ لاروے لال رنگ کے ہوتے ہیںاور یہی چگر کہلاتا ہے۔یہ مائٹس عموماًجولائی سے لے کر دسمبر تک انڈے دیتے ہیں، برسات کے دنوں میںجھاڑیوں اور گھاس میںچگر کی بہتات ہوجاتی ہے،اسی لیے اس زمانے کو سیلابی بخار کہا جاتا ہے۔
یہ مرض ندی کے کنارے، گھاس پھوس والے علاقے، ریگستان اور زیادہ بارش والے جنگل جہاں چوہوں کی بہتات ہوتی ہے، جیسے علاقوں کے آس پاس رہنے والے لوگوں میں زیادہ پایا جاتا ہے،اس کے علاوہ کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور و کسان، فوجی جوانوں، علم ارضیات سے متعلق سائنسداں و اہلکار، جنگلوں میں تفریح کے مقاصد سے خیمہ زن ہونے والے افراد، نمی سے بھری ہوئی جھاڑیوں کے آس پاس کھیلنے والے بچے اور جنگلات میں کام کرنے والے اہلکارنیز حاملہ خواتین اس کی زد میں زیادہ رہتی ہیں۔
جب کوئی مائٹ، مکھی یا دیگر جرثومہ کسی متاثرہ شخص یا چوہے کو کاٹتا ہے تو وہ بھی اس جراثیم یا بیکٹیریا کے کیریئر (career) بن جاتے ہیں۔ اسی طرح جب ایک صحت مند شخص جراثیم سے متاثرہ کسی مائٹ کے رابطے میں آتا ہے تو وہ اسکرب ٹائفس سے بھی متاثر ہوسکتا ہے۔مائٹ کے ذریعے جلد پر کاٹنے کے علاوہ یہ جراثیم مائٹ کے فضلے کے ساتھ رابطے میں آکر انسانی جسم میں بھی پھیل جاتے ہیں۔ آپ اگر اس جگہ کو کھرچتے یا کھجاتے ہیں جہاں پسو یا کیڑے نے کاٹا ہے تو آپ کی جلد پر خارج ہونے والے بیکٹیریا چھوٹے سوراخوں کے ذریعے آپ کے خون میں پہنچ جاتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ بیکٹیریا بغیر جانچ شدہ خون کی منتقلی یا ناپاک اورمتاثرہ سوئیوں کے استعمال سے بھی جسم میں داخل ہوسکتے ہیں۔جب یہ متعدی لاروا یا چگر انسان کو کاٹتا یا اس پر پاخانہ کرتا ہے تو اس میں موجود جراثیم خون کی نالیوںمیںداخل ہوکر حملہ کردیتا ہے،جس کی وجہ سے خون کی نالی کے چاروں جانب سوزش اور خون کی باریک رگوں میں زخم ہوجاتے ہیں،جو کہ جگر کا تعدیہ، گردے کاتعدیہ، دماغ کی سوزش(میننجائٹس اور انسیفلائٹس)، سانس لینے میں دشواری(شدید سانس کی تکلیف کا سنڈروم) اور بعض صورتوں میں دل کی سوزش (پیریکارڈائٹس) کا باعث بن سکتے ہیں۔
مائٹ کے کاٹنے کے6 سے12دن کے بعد اچانک بخار آنے لگتا ہے جوکہ پہلے ہفتے میں بڑھتا ہے اور 104-105فارن ہائٹ تک ہوسکتا ہے،ٹھنڈ لگتی ہے،سر میں شدید درد،عضلات میں اینٹھن اور غنودگی طاری ہوجاتی ہے۔ مائٹ کے کاٹنے کی جگہ کالی ہوجاتی ہے اور وہاں ایک خاص قسم کا زخم بن جاتا ہے،جو شروع میں لال رنگ کا اور ایک سینٹی میٹر کے دائرے کے برابر ہوتا ہے،بعد میں یہی زخم پھٹ کر ایک کالے رنگ کے کھرنڈ سے ڈھک جاتا ہے،اس کے آس پاس کی لمف نوڈ میں سوجن آجاتی ہے۔تعدیہ کا شکار ہونے کے 5 سے 8 دن کے دوران جسم کے بالائی حصے میں چکتے بننے لگتے ہیں،جو دھیرے دھیرے بازوؤں اور ٹانگوں پر بھی دکھائی دینے لگتے ہیں۔ پہلے ہفتے میں مریض کو کھانسی آتی ہے،دوسرے ہفتے تک نمونیا بھی ہوسکتا ہے۔نبض میں تیزی،بلڈ پریشر میں کمی، دیوانگی اور بے ہوشی جیسی شدید علامات بھی نظر آتی ہیں۔اگر لگاتا ر دو ہفتے سے بخارکی شدت میں کمی نہ آرہی ہو اور تلی(spleen) بڑھ رہی ہو تو فوراً معالج کو دکھانا چاہیے تاکہ درست تشخیص ہوسکے۔
اسکرب ٹائفس کی تشخیص کے لیے مریض کی نشانیوں و علامات کی جانچ کی جاتی ہے اور کچھ لیبارٹری ٹیسٹ کیے جاسکتے ہیں۔جانچ عام طور پر صرف مریض کی علامات کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ مریض کو جس جگہ مائٹ کاٹتا ہے وہ جگہ کچھ عرصے بعد سیاہ ہوجاتی ہے جس کی مدد سے ڈاکٹر اسکرب ٹائفس کا پتہ لگالیتے ہیں۔اگر آپ نے بیرون ملک یا کسی ایسے علاقے کا سفر کیا ہے جہاں اسکرب ٹائفس کا خطرہ زیادہ ہے تو اپنے ٹیسٹ کے دوران ڈاکٹر کو ضرور بتائیں۔اسکرب ٹائفس کی علامات چوںکہ ڈینگی، ملیریا اور بروسیلوسس جیسی دیگر متعدی بیماریوں سے ملتی جلتی ہیں،اس لیے اس کی تشخیص میں مشکل آسکتی ہے۔مریض کے خون کی جانچ کے ابتدائی مراحل میں سفید خون کے خلیات میں کمی اورآخری مرحلے میں زیادتی ہو جاتی ہے، پلیٹ لیٹ کی مقدار میں کمی اور البومین کی سطح میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ جلد کی بایو پسی جس میں جلد پر ہونے والے چکتوں سے نمونہ لیا جاتا ہے اور پھر اسے ٹیسٹ کے لیے لیباریٹری بھیجا جاتا ہے۔کچھ مناعت سے متعلق جانچیں بھی کی جاتی ہیں،جگر اور گردوں کی کارکردگی کو دیکھنے کے لیے خون کی جانچ کی جاتی ہے اور جگر، گردوںاورپیٹ کی طبعی حالت کو دیکھنے کے لیے الٹراساؤ نڈ کرایا جاتا ہے۔
اسکرب ٹائفس کے مریضوں کو اکثر علاج کے لیے اسپتال میں داخل ہونا پڑتا ہے۔اس کے علاج میں اینٹی بائیوٹک بہت مؤثر ہوتی ہیں۔ ڈاکسی سائیکلین اس مرض کی خاص دوا ہے۔ علاج کروانے میں تاخیر یا جانچ کے دوران اسکرب ٹائفس کا پتہ لگانے میں ناکامی اسکرب ٹائفس کو بہت سنگین بنا سکتی ہے۔ گردوں، پھیپھڑوں یا اعصابی نظام سے متعلق مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔کچھ مریض، خاص طور پر بوڑھے مریض موت کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس اچانک گردے کی ناکامی،خون میں سیال کی مقدار میں کمی،گردن توڑ بخار(میننجائٹس) انسیفلائٹس جسم کے بہت سے حصوں کی ناکامی، آنتوں کے اندر خون کا رساؤ جیسی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
واضح رہے کہ اسکرب ٹائفس بخار سے بچنے کے لیے کوئی دوا یا ویکسین موجود نہیں ہے۔ اگر آپ کسی ایسے علاقے میں سفر یا کام کر رہے ہیں جہاں اسکرب ٹائفس کا خطرہ زیادہ ہے تو آپ کیڑوں کے کاٹنے سے بچنے کے لیے مکمل آستین کے کپڑے پہنیں، اپنے کپڑوں کو گھاس سے دور رکھیں،مناسب حفظان صحت کے اصولوں کو برقرار رکھیں، جلد پر کیڑے مار دوا لگائیں، گھاس یا زمین پر نہ لیٹں، لیٹنے کے لیے زمین پرچادر یا چٹائی وغیرہ کا استعمال کریں۔گھر کے اندر یا اس کے آس پاس چوہوں کو نہ رہنے دیں۔ ان علاقوں کا سفر کرنے سے گریز کریں جہاں اسکرب ٹائفس کے زیادہ واقعات ہوتے ہیں اور ایسے علاقوں میں جہاں صفائی ستھرائی کی ناقص صورتحال ہے۔اگر آپ کسی ایسے علاقے میں گئے ہیں جہاں اسکرب ٹائفس موجود ہے تو باقاعدگی سے مناسب ٹیسٹ کرواتے رہیں اور اپنے جسم کو کپڑوں سے ڈھانپتے رہیں۔ اگر آپ جنگل کے علاقے میں جا رہے ہیں تو لمبی گھاس اور جھاڑیوں وغیرہ سے پرہیز کریں۔
(مضمون نگار معالج اور آزاد کالم نویس ہے)
[email protected]