انوراگ مشر
2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے نومبر میں ہونے والے 5 اسمبلی انتخابات کے لیے ملک کی بڑی سیاسی پارٹیاں جیت کے لیے جدوجہد کرتی نظر آرہی ہیں۔ جانکاروں کی مانیں تو لوک سبھا انتخابات سے پہلے یہ اسمبلی انتخابات بی جے پی کے لیے لٹمس ٹسٹ ہیں۔ نومبر میں جن ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، وہ راجستھان، مدھیہ پردیش، تلنگانہ، چھتیس گڑھ اور میزورم ہیں۔ میزورم اور متذکرہ دیگر 4 ریاستوں میں لوک سبھا کی 83 سیٹیں ہیں۔ ان میں 65 لوک سبھا سیٹوں پر مرکز میں حکمراں بی جے پی کا قبضہ ہے جو مجموعی سیٹوں کا 79 فیصدہے۔ راجستھان، مدھیہ پردیش، تلنگانہ، چھتیس گڑھ میں گزشتہ لوک سبھا انتخابات میںووٹ فیصد کو دیکھیں ہیں تو بی جے پی کی سربراہی والے این ڈی اے کو خاصے ووٹ ملے تھے۔ حال ہی میں جاری ہوئے انتخابی سروے مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کو آگے بتا رہے ہیں تو کچھ سروے راجستھان میں بی جے پی کو مضبوط توکچھ مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ میں کانٹے کی ٹکربتارہے ہیں۔ اب سروے ہیں، سروے کا کیا؟ لیکن لگتا یہی ہے کہ راجستھان، مدھیہ پردیش، تلنگانہ، چھتیس گڑھ میں زمینی سطح پر دو قومی پارٹیوں کے سیاسی کھیل کے تجزیے کی ضرورت ہے۔
چھتیس گڑھ:مشن 2024 سے پہلے اسمبلی انتخابات 2023 کو پارٹیوں کے لیے انتخابی سیمی فائنل کی شکل میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی طرف سے وزیراعظم نریندر مودی خود محاذ سنبھالے ہوئے ہیں۔ انتخابی ریلیاں کر رہے ہیں۔ بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا اور وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی محاذ سنبھال رکھا ہے۔ ادھر کانگریس پارٹی کے قومی صدر ملکارجن کھڑگے، کانگریس لیڈر راہل گاندھی، کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی مسلسل چھتیس گڑھ کا دورہ کر رہی ہیں۔ عام آدمی پارٹی، چھتیس گڑھ جنتاکانگریس سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی انتخابی کامیابی کے حصول کے لیے طاقت جھونک رکھی ہے۔
2018 میں چھتیس گڑھ کی کل 90 سیٹوں میں سے 68 کانگریس، 15 بی جے پی، 2 بی ایس پی اور 5 سیٹیں جنتا کانگریس چھتیس گڑھ جیتی تھیں۔ اس طرح بی جے پی کانگریس سے کافی پیچھے ہے لیکن لوک سبھا کی 11 میں سے 9 سیٹیں جیتنے کی وجہ سے اسے بہت ہلکے میں نہیں لیاجاسکتا۔ چھتیس گڑھ ہمیشہ سے ہی بی جے پی کا گڑھ رہاہے۔ یہاں 2003 کے اسمبلی انتخابات سے لے کر اب تک تین بار بی جے پیکی حکومت رہی ہے مگر موجودہ کانگریس حکومت بی جے پی کے لیے کسی بڑی چنوتی سے کم نہیں ہے۔ چھتیس گڑھ میں بی جے پی وزیراعظم نریندرمودی کے چہرے کو سامنے رکھ کرانتخاب لڑرہی ہے جبکہ کانگریس اپنی گارنٹیوں اور اعلانات کی بدولت عوام کا اعتماد جیتنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس انتخابی عمل کا تجزیہ کریں تو پہلے بی جے پی بہت کمزور نظرآرہی تھی مگر پریورتن یاترا نکالنے کے بعد خوداعتمادی سے پرہو گئی ہے لیکن سیاسی مبصرین کی مانیں تو چھتیس گڑھ میں کبھی بی جے پی کا گراف اوپردکھائی دیتاہے توکبھی کانگریس کا۔ یہاں اہم مقابلہ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہی رہے گا جبکہ آپ، بی ایس پی، جنتا کانگریس چھتیس گڑھ کے علاوہ کچھ مقامی پارٹیاں بھی وجودکی تلاش میں زورآزمائی کر رہی ہیں۔ یہاں تیسرا محاذ صرف ووٹ کاٹنے تک ہی محدود رہے گا۔
راجستھان:اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے۔ راجستھان میں 25 نومبر کو اسمبلی انتخابات ہوں گے۔ ریاست کی حکمراں جماعت کانگریس اور کلیدی اپوزیشن پارٹی بی جے پی انتخابی میدان میں اتر چکی ہیں۔ راجستھان میں اسمبلی کی کل 200 سیٹیں ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں کانگریس کو ان میں سے 100 سیٹیں ملی تھیں اور 101سیٹوں کی اکثریت کے اعداد سے صرف ایک سیٹ کم تھی۔ کانگریس نے یہ کمی بہوجن سماج پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کی حمایت سے پوری کرلی۔ 2018 کے انتخابات میں بی جے پی کو 73 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہنا پڑاتھاجبکہ اس سے پہلے یعنی 2013کا راجستھان اسمبلی انتخابات میں وسندھراراجے کی سربراہی میں بی جے پی نے 163سیٹیوں حاصل کرکے سرکار بنائی تھی اور کانگریس کو تب صرف21سیٹیں ملی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کل 25لوک سبھاسیٹیں بھی ہیں۔ 2014اور 2019میں بی جے پی نے بالترتیب 25اور24سیٹیں جیتی تھیں یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسمبلی انتخابات کے نتائج کچھ بھی رہے ہوں لیکن لوک سبھا انتخابات میں ووٹرہمیشہ بی جے پی کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔
راجستھان میں بی جے پی کی حکمت عملی پارٹی کے لیے ان سیٹوں پر اپنی موجودگی میں اضافہ کرناہے جہاں وہ کئی بار سے ہارتی ہوئی آرہی ہے۔ ایسی صورت میں راجستھان میں اسمبلی انتخابات کا بگل بجنے سے پہلے ہی بی جے پی ایک بڑی حکمت عملی تیار کرنے میں منہمک ہوگئی تھی۔ غورطلب ہے کہ راجستھان کے اضلاع میں کل ملا کر 19سیٹیں ایسی ہیں جوگزشتہ دو یا تین بار سے بی جے پی مسلسل ہار رہی ہے۔ ان سیٹوں کو جیتنا اس کے لیے اقتدار کی گنجی ثابت ہوسکتاہے۔ اس کے علاوہ راجستھان میںکانگریس کی حکومت کے باوجود یہاں اقتدار کو لے کر کشمکش ہے۔ ریاست کے کانگریس میں دوبڑے لیڈروں کے بیچ نہ ختم ہونے والا ’من مٹاؤ‘ اس کے لیے ایک چنوتی ہوگی۔ بی جے پی کانگریس کی اندرونی رسہ کشی کو اپنے مفاد میں بھنانے کی کوشش میں رہے گی۔
مدھیہ پردیش:مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس اور بی جے پی میں کانٹے کی ٹکر ہے۔ 2018 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس 230 میں سے 114 سیٹیں جیت کر ایوان میں سب سے بڑی پارٹی بنی تھی۔ حالانکہ بی جے پی کو 109سیٹوں پر جیت حاصل ہوئی تھی لیکن کانگریس کے اسے مقابلے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ بعد میں کانگریس کے اندر ون خانہ اختلافات کی وجہ سے کم سیٹ جیتنے کے باوجود بی جے پی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اس کے بعد 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں 29 لوک سبھا سیٹوں میں سے 28سیٹیں جیت کر بی جے پی نے یہاں پرچم لہرایاتھا۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس کا مینڈیٹ ہمیشہ سے بہتررہاہے، اس لیے 2023کے اسمبلی انتخابات بی جے پی کے لیے آسان نہیں ہوں گے۔ ویسے کانگریس کی سخت چنوتی کو بی جے پی ہلکے میں نہیں لے رہی ہے۔ مدھیہ پردیش میں فتح یقینی بنانے کے لیے تین مرکزی وزرا اور چار ارکان پارلیمان کو اسمبلی انتخابات کے لیے میدان میں اتاراہے۔ مرکزی وزیرنریندرسنگھ تومر، پرہلاد سنگھ پٹیل اور پھگن سنگھ کلستے اور پارٹی کے جنرل سکریٹری کیلاش وجے ورگیہ کو انتخابی میدان میں اتارنا بی جے پی کے اعتماد کی پول کھولتا ہے۔ ایسا پہلی بارہوا ہے کہ بی جے پی نے کسی ریاست کی انتخابی منتظمہ کمیٹی کے کنوینر کو امیدوار بنایاہے جو تومرہیں۔
قابل ذکرہے کہ مدھیہ پردیش میں جیت یقینی بنانے کے لیے بی جے پی کو مہاکوشل علاقے میں بڑی جدوجہد کرنی ہوگی۔ پچھلے بار اسی علاقے میں مات کھاگئی تھی۔ یہاں امیدواروں کو انتخابی تشہیر کو بہترموقع ملے اس لیے بی جے پی نے اس علاقے میں 18امیدواروں کے ناموں کا اعلان بہت پہلے ہی کردیاتھا۔ گزشتہ بار کمل ناتھ نے مہاکوشل کے علاقے سے اپنی جیت یقینی بنائے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی نظریں بھی اس زون پر مرکوز ہیں۔ بی جے پی کو معلوم ہے کہ اگراسے سرکار بنانی ہے تو اس کا راستہ مہاکوشل سے ہوکر گزرتا ہے۔
تلنگانہ:بی جے پی کے نقطۂ نظر سے تلنگانہ میں اس کے کرنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں ہے۔2018کے اسمبلی انتخابات میں کے چندرشیکھر راؤ کی پارٹی ٹی آر ایس نے، جو اب بی آر ایس بن چکی ہے، 119 سیٹوں میں سے 88 سیٹ پر جیت حاصل کی تھی جبکہ کانگریس، تیلگودیشم پارٹی، تلنگانہ جن سمیتی اور بایاں بازو پرجاکٹمی اتحاد 21 سیٹوں پر سمٹ گیا تھا۔ 2013 کے انتخابات میں یہاں بی جے پی کے امیدواروں کی تعداد 5 تعداد تھی جبکہ 2018کے اسمبلی انتخابات میں یہ تعداد گھٹ کر ایک ہوگئی۔ اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین نے یہاں 7 سیٹوں پرجیت حاصل کی تھی۔ تلنگانہ میں بی جے پی کے لیے مثبت پہلو یہ ہے کہ2019کے اسمبلی انتخابات میں تلنگانہ کی کل 17 لوک سبھا سیٹوں میں سے بی جے پی 4سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔ اسمبلی انتخابات کے بعد لوک سبھا میں بی جے پی کا مظاہرہ اس کے لیے امیدکی کرن باقی رکھتاہے۔ بی جے پی کی سربراہی کو بھی اچھی طرح پتہ ہے کہ تلنگانہ کی حکمراں جماعت بی آر ایس یہاں اس کے لیے بڑی چنوتی ہے۔ اس کو دھیان میں رکھتے ہوئے شمالی تلنگانہ کی کچھ منتخبہ سیٹوں اورحیدرآباد کے آس پاس کی سیٹوں پرزیادہ توجہ دے رہی ہے۔n