ضیاء السلام
ایسوسی ایٹ ایڈیٹر، ’دی ہندو‘
غزہکی جنگ جاری ہے۔ حماس کے حملے کے بعد ہماری سرکار نے یہ بات کہی تھی کہ مصیبت کی اس گھڑی میں وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ موقف داخلی پالیسی کو انٹرنیشنل ایرینا میں لے جانے والا تھا لیکن پھر خیال آیا کہ 75 سال سے ہندوستان کا تعلق فلسطین سے رہا ہے، اٹل بہاری واجپئی کی حکومت کے وقت میں بھی اس کی یہ پالیسی بدلی نہیں تو وزارت خارجہ کی طرف سے بیان جاری کر کے بتایا گیا کہ ہندوستان ایک آزاد اور خود مختار فلسطین کو دیکھنا چاہتا ہے۔ ’گودی میڈیا‘ اسرائیل سے اس طرح رپورٹنگ کر رہا ہے جیسے وہ اسرائیلی فوج سے ایک ہی قدم پیچھے ہو۔ جتنا اسرائیلی میڈیا اہل غزہ کے خلاف نہیں بول رہا، یہ میڈیا بول رہا ہے۔ جتنا اسرائیلی میڈیا اپنی سرکار کی حمایت نہیں کر رہا، یہ میڈیا کر رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ان کی اسی طرح کی رپورٹ ملک کے داخلی معاملوں میں بھی ہوتی رہی ہے۔ یہی وہ وہاں سے کر رہے ہیں لیکن عالمی برادری میں ملک کی کیا شبیہ بنا رہے ہیں، عرب اور مسلم دنیا میں اس ملک کی کون سی امیج بنا رہے ہیں، سمجھنے کی ضرورت یہ بھی ہے، کیونکہ غزہ کی جنگ ختم ہو جائے گی لیکن اس وقت کے بیانات اور رپورٹنگ کا ریکارڈ برقرار رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کے واضح موقف کا اظہار نہیں کیا ہے۔ یہاں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی بات نہیں ہو رہی۔ وہ تو ہرحال میں اسرائیل کے حامی رہے ہی ہیں اور آج بھی ہیں، پھر یہ امید ان سے کیسے کی جا سکتی ہے کہ تمام فلسطینیوں کو حماس نہیں سمجھیں گے، فلسطینیوں کو بھی انسان ہی سمجھیں گے، ان کی چیخیں سنیں گے، غزہ پر اسرائیلی حملے رکوانے کی سنجیدہ کوشش کریں گے۔
غزہ جنگ اور فلسطینیوں کے مسئلے کو دیکھئے تو بیشتر مسلم ممالک کا احتجاج عملی کم،زبانی زیادہ رہا ہے۔ ان کی طرف سے اس طرح کا احتجاج نہیں کیا گیا ہے جیسا عملی احتجاج دیگر ملکوں نے کیا ہے۔ کولمبیا جنوبی امریکہ کا ملک ہے۔ فلسطین سے بہت دور دراز کا ملک ہے۔ عیسائی اکثریتی ملک ہے لیکن اس نے اسرائیل کے سفارتکار کو اپنے یہاں سے جانے کے لیے کہہ دیا۔ واضح الفاظ میں یہ بات اس نے کہہ دی کہ وہ قتل عام ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ کتنے مسلم ملکوں نے اس طرح احتجاج کیا ہے؟ کیا سعودی عرب نے کیا؟ ترکی نے کیا ؟ بحرین نے کیا ؟ خالی زبانی جمع خرچ کرنے سے کیا ہوگا، خاص کر ایسی صورت میں جبکہ اسرائیل کو امریکہ سے فوجی مدد مل رہی ہے، اس نے ایک جنگی بیڑا بھیج دیا ہے، دوسرا بھی جلد ہی پہنچ جائے گا۔ تنہا ایران نے کھل کر احتجاج کیا ہے، اس نے اسرائیل کو متنبہ کیا ہے۔ دراصل ایران کی فلسطین پالیسی واضح ہے۔ اس نے پچھلے دروازے سے اسرائیل سے رشتہ استوار کرنے اور سفارتی تعلقات بحال کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ اس کا حماس سے رشتہ رہا ہے اور اس کی پردہ پوشی بھی اس نے کبھی نہیں کی۔ حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ ایران کا دورہ کر چکے ہیں۔ دورے کے دوران خود صدر رئیسی نے ان سے ملاقات کی تھی۔
دراصل بات کسی کی بیجا حمایت یا بیجا مخالفت کی نہیں ہے، بات انصاف اور جائز حق دینے کی ہے جس سے فلسطینی محروم ہیں اور اس بات کا احساس یہودیوں کو بھی ہے۔ ایسا کہنے پر حیرت ہو سکتی ہے مگر یہ سمجھنا ہوگا کہ یہودی اور صہیونی دونوں ایک نہیں ہیں۔ یہودی چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کا بھی ایک ملک بنے اور مسئلۂ فلسطین کا دو ریاستی حل نکلے، اسی لیے اوسلو معاہدہ ہوا تھا لیکن صہیوینوں کو یہ منظور نہیں۔ ان کی لابی کافی طاقتور ہے۔ اس کے باوجود یہودیوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے کیے ہیں، انہیں یہ پسند نہیں کہ غزہ کے فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کی جائے، اسپتالوں اور اسکولوں پر بم گرائے جائیں، ایمبولینس کو نشانہ بنایا جائے مگر اس کے باوجود غزہ پر بم برسائے جا رہے ہیں۔ امریکہ مضبوطی سے اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ جو بائیڈن نے اسرائیل کا دورہ کرکے یہ اشارہ دیا ہے کہ امریکہ ہر حال میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ فرانس اور برطانیہ اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسی لیے عورتوں اور بچوں کو مرتا دیکھ رہے ہیں مگر جنگ بندی کے لیے اسرائیل سے کچھ کہا نہیں ہے، یہ ایک طرح سے اسرائیل کو ان کی خاموش اجازت ہے۔ جنگ بندی کے لیے روس سلامتی کونسل میں مذمتی قرارداد لایا تھا لیکن امریکہ، فرانس اور برطانیہ نے اس پر بحث نہیں ہونے دی۔ دراصل بائیڈن کو دوبارہ صدر بننا ہے اور وہ اسرائیلی لابی کو ناخوش نہیں کر سکتے،کیونکہ پیسہ اسی سے انہیں ملنا ہے۔ ادھر بنیامن نیتن یاہو کی عوامی مقبولیت کافی کم ہو گئی تھی، ان کے لیے اسرائیل کی عدلیہ بھی مسئلہ بن گئی تھی لیکن غزہ پر حملے کے بعد وہ سیاسی حصولیابی اور انتخابات میں جیت کی امید کر سکتے ہیں، البتہ اس طرح کے حملوں سے مسئلۂ فلسطین کے حل کی امید نہیں کی جا سکتی۔ مسئلۂ فلسطین کے مستقل حل کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسرائیلی حکومت مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیاں بسانے کا سلسلہ روکے، فلسطینیوں کو جو جگہ دی گئی تھی، اس پر ان کا ملک فلسطین بننے دے۔ ایسا کر کے وہ یہ دکھا سکتی ہے کہ اس نے اوسلو معاہدے کو نظرانداز نہیں کیا ہے۔ اس خطے کے پائیدار اور مستقل امن کے لیے وہ بھی دو ریاستی حل کی اہمیت سے واقف ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ باہمی بقا اسی میں ہے۔n
(نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہارا سے گفتگو پر مبنی)
مسلم ممالک کا احتجاج عملی کم،زبانی زیادہ: ضیاء السلام
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS