ڈاکٹر محسن عتیق خان
پوری امت مسلمہ ایک عجیب حالت زار سے دو چار ہے، منگولوں کے حملے کے بعد شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے جب وہ اتنی بے یارو مدگار، لاچار اور مجبور وبے بس محسوس کر رہی ہے، جن ملکوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں اکثریتی طبقے کے ظلم و بربریت کا شکار ہیں اور ان کے صفا اور قتل عام کی علی الاعلان منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، دھمکیاں دی جارہی ہیں اور جن ملکوں میں وہ اکثریت میں ہیں وہاں اپنے حاکموں کے استبداد اور عالمی طاقتوں کی چیرہ دستیوں، سازشوں، پابندیوں اور بمباریوں سے پریشاں حال ہیں۔ پچھلی تقریباً تین صدیوں میں اس امت نے صرف زوال کے مراحل طے کے ہیں اور حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی ہے، مگر اس نے ابھی تک نہ ماضی سے کوئی سبق لیا نہ مستقبل کے لئے کوئی منصوبہ بندی تیار کی۔
یہ امت اپنی حالت کسمپرسی کی خود ذمے دار ہے، اسے علماء کی تنگ نظری اور فتویٰ بازی نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور رہی سہی کسر استبدادی مزاج رکھنے والے حاکموں نے پوری کردی۔ چھاپے خانے کو فتوے کے ذریعے حرام قرار دے کر (1493) اور اسے ’’رجس میں عمل الشیطان‘‘ بتا کر خود اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی اور خود اپنے کو آنے والے دو سو سال تک تعلیمی ترقی سے ایسے وقت میں محروم کر لیا جبکہ اس کے مخالفین بڑی برق رفتاری سے اس راہ پر گامزن تھے۔ اسی طرح ٹی وی پر فتویٰ لگار کر لوگوں کی رائے اپنے لئے ہموار کرنے کے دروازے بند کر لئے اور اسلام کی نشر واشاعت کے ایک بڑے وسیلے سے اپنے آپ کو محروم کر لیا اور اس طرح کی کتنی ہی مثالوں سے اپنے عہد زوال کی تاریخ بھری پڑی ہے- حقیقت یہ ہے کہ جس قوم کو کسی چیز کی اصل ماہیت کو سمجھے بغیر اس پر فتوے لگانے کی عادت ہو جائے وہ اس تیز رفتار اور تغیر پذیر دنیا میں کیسے آگے بڑھ سکتی ہے!
جس قوم نے تعلیم کو نافع اور غیر نافع کے خانوں سے نکال کر اسے دینی و دنیاوی اور ثواب والی وغیر ثواب والی کے خانوں میں بانٹ دیا ہو اسے جدید ٹیکنا لوجی کیسے سمجھ میں آئے گی، جس قوم کے افراد ہر جمعے کو تقریروں میں اور ہر دینی جلسے میں فقیرانہ مزاج صوفیوں کے کھوکھلے قصے کہانیاں سننے کے عادی ہو گئے ہوں انھیں اقتصاد کی اہمیت کیسے سمجھ میں آئے گی۔
یہ قوم تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور اگر اس نے اپنا مزاج نہ بدلا، ذہن میں توسع نہ پیدا کی، دنیاوی نظام کی سمجھ نہ پیدا کی اور اس کے تدارک کے لئے مستقبل کی منصوبہ بندی نہ کی تو اسے تباہی کے دہانے سے کوئی نہیں بچا سکتا اور اللہ تعالیٰ بھی کسی قوم کی اسی وقت مدد کرتا ہے جب کوئی قوم خود کوشش کرتی ہے۔ یہ یاد رہے کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ سلم کے جد امجد عبد المطلب کے امتی نہیں ہیں کہ جب دشمن حملہ آور ہوں توپہاڑوں میں جا کے پناہ لے لیں اور صرف دعا پر اکتفا کرلیں، ہم خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ سلم کے امتی ہیں جو گھر میں بیٹھ کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے کے بجائے میدان جنگ میں اپنے تمام ساز وسامان کے ساتھ پہنچ کر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔
میری ناقص رائے میں اس قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر کام کرنے کی ضرورت ہے:
زندگی میں کچھ کرگزرنے کی چاہ: دنیا میں ترقی کے لئے اور اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس امت کے ہر فرد کے اندر جذبہ عمل ہو، زندگی میں کچھ کر گزرنے، کچھ الگ کرنے کی چاہ ہو، خاص طور سے نوجوانوں اور نو نہالوں میں زندگی کو جینے کی امنگ پیدا ہو، اور زندگی میں اپنا نصب العین متعین کرکے آگے بڑھنے کی چاہ ہو۔ اس قوم کے لیڈران خواہ سیاسی ہوں یا مذہبی انھیں چاہیے کہ اس قوم کی آنے والی نسل کو زندگی کا سبق دیں، انہیں بے عملی کی زندگی سے خبردار کریں، اور انہیں آگاہ کریں کہ اللہ جل شانہ نے صرف ایک ہی زندگی عطا کی ہے، جس میں ہم اپنی محنت کے بقدر جو بننا چاہیں بن سکتے ہیں اور جو حاصل کرنا چاہیں وہ حاصل کر سکتے ہیں۔
مسلکی منافرت کا خاتمہ: مختلف اماموں کی اسلام کے تعلق سے اپنی اپنی توضیحات وتشریحات ہیں اور ہر ایک کے اپنے اپنے پیروکار ہیں، لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہر ایک کے ماننے والے صرف اپنے امام کی تشریح کو ہی صحیح سمجھتے ہیں اور دوسرے اماموں کی تشریح کو نہ صرف اکثر غلط بلکہ کئی بار تو خارج از اسلام سمجھتے ہیں۔ ہر ایک کو اپنے امام کی اتباع کرنی چاہیے، مگر دوسرے کے تعلق سے رواداری کا رویہ اختیار کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں اپنے اندر اتنی وسعت نظر پیدا کرنی چاہیے کہ امت میں اتحاد کی راہیں ہموار ہو سکیں۔
عدل وانصاف اور مساوات: اسلامی معاشرے میں عدل وانصاف اور مساوات کے قیام کے بغیر یہ قوم ترقی نہیں کر سکتی، کسی بھی قوم کے زوال میں ان قدروں کی گراوٹ سب سے بڑا رول ادا کرتی ہے۔ لہٰذا اس قوم کو اپنے اندر نہ صرف عدل گسترانہ مزاج پیدا کرنا ہوگا بلکہ اپنے استبدادی حاکموں کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ اپنے اور قوم کے معاملات میں عدل وانصاف سے کام لیں۔
آزادیٔ رائے: کسی بھی معاشرہ میں جب تک آزادیٔ رائے نہ ہو اس قوم کی تخلیقی صلاحیتیں پروان نہیں چڑھتیں اور نہ ہی عقل کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ ہر فرد کو لکھنے، بولنے اور اپنی رائے کو آزادانہ طور پر سامنے رکھنے کی آزادی ہو۔
علم کی نشر واشاعت: اس قوم کی نئی نسل میں علمی مزاج پیدا کرنا ہوگا اور یہ احساس پیدا کرنا ہوگا کہ عصری علوم کی تحصیل میں بھی اتنا ہی بڑا کار ثواب ہے، جتنا کہ دینی علوم کے حاصل کرنے میں۔ آخر ایک مسلم سائنسداں جو نیوکلیر بم بناکر اپنے ملک کو دشمن کے ظالمانہ حملوں سے محفوظ کر کے لاکھوں بلکہ کروڑوں جانوں کی حفاظت کا سامان بہم پہنچانے وہ کیسے آخرت میں کس دینی عالم سے کم حزاء و ثواب کا حقدار ہو سکتا ہے۔
اقتصادی قوت: اس قوم کو فقیرانہ مزاج چھوڑ کر اور صوفیا کے جھوٹے قصے کہانیوں اور شاعروں کی لن ترانیوں کو ترک کر کے اقتصادات کے میدان میں کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ اقتصادیات میں آزادانہ طور پر مغربی اقوام کے برابر کھڑی ہو سکے۔ اس طرح کی اقتصادی ترقی پیٹرول کے بل پر نہیں بلکہ ہر فرد کی اپنی محنت و کاوش کے بل پر قائم ہو سکتی ہے۔
ایک مضبوط وطاقتور سیاسی محاذ کا قیام: مغربی طاقتیں جب اپنے استعمار کے خاتمے پر مجبور ہوئیں تو انہوں نے پوری امت اسلامیہ کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ دیا، جس سے یہ امت بکھر گئی اور انتشار کا شکار ہو گئی۔ اگر اسے سچ میں پھر سے سرخرو ہونا ہے اور دوسری جنگ عظیم کے فاتحین کے ذریعے قائم کردہ موجودہ عالمی نظام میں عمل دخل حاصل کرنا ہے تو ایک ایسا مضبوط ملک کا سیاسی اتحاد قائم کرنا ہوگا جو ہر لحاظ سے امریکہ اور یوروپ کے اہم ممالک سے برتر ہو اور جہاں حکومت عوام کی مرضی سے بنے یعنی جمہوری حکومت ہو جو عوام کی خواہشوں اور ضرورتوں کا احترام کرے۔ حالانکہ اس طرح کی طاقتور حکومت یا مضبوط سیاسی اتحاد اہل مغرب کبھی قائم نہیں ہونے دیں گے اور ہر طرح کی کوشش کریں گے کہ کوئی ایسی چیز وجود میں نہ آئے جو ان کی بالادستی کو چلنج کر سکے۔ مصر میں جمہوری حکومت کا تختہ پلٹنا اورعراق، شام، افغانستان، اور لیبیا میں انکی تباہ کاریاں اس کی زندہ وجاوید مثالیں ہیں۔
بہر حال اگر ان نکات پر کام کیا جائے اور ہر سطح پر اور ہر لحاظ سے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے تو امکان ہے کہ یہ امت ایک بار پھر تاریخ کے اپنے روشن دور میں داخل ہو سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس امت کے پاس دنیا کے لئے ایک جاوداں پیغام ہے، مگر ان امور پر عمل پیرا ہوئے بغیر اسے دوسروں تک پہنچانا ممکن نہیں ہے۔
امت مسلمہ کی حالت زار اور ترقی کی راہیں: ڈاکٹر محسن عتیق خان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS