ترقی تو نہیں مگر تبدیل ہوا بھارت: زین شمسی

0

زین شمسی

الیکشن کا اعلان جمہوریت کے جشن کے طور پر منانے کی روایت یوں تو کبھی نہیں رہی مگر الیکشن کے اعلان کے بعد نفرت میں شدت پیدا کرنے کا رواج بھی کبھی نہیں رہا۔ سماج بدل چکا ہے۔ اس کا اعتراف جتنا جلد کر لیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ رام مندر والی نسل اس بار الیکشن کے لیے تیار ہوچکی ہے۔ اسے نہ ہی اتہاس سے کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی صحافت کی پرخلوص ذمہ داریوں سے ربط ہے۔ یہ نسل وہاٹس ایپ،ٹوئٹر اور انسٹاگرام جیسی جدید تکنالوجی کے ذریعہ پہنچائے جا رہے ترسیل و ابلاغ کی غلام ہے۔ کتابوں سے زیادہ موٹیویشنل ویڈیو ان کے لیے تہذیب و اخلاق سیکھنے کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں۔ نوجوان طبقہ دیش کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے۔ اسی طبقہ کی ذہنیت اور دانشمندی ملک کو ترقی کے راہ پر گامزن کرتی ہے۔ خاص کر جمہوری طرز نظام میں اس طبقہ کی حصہ داری کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے ملک کا سماج جس ذہنی انتشار سے گزر رہا ہے، اس سے یہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ جس طبقہ کی پوری توجہ تعلیم اور ہنر پر ہونی چاہیے، وہ سیاست کے مکڑجال میں الجھ کر مجرمانہ ذہنیت کے فروغ کا حصہ بن گیا ہے۔
چونکہ آج کی سیاست کو ہم سماج کے تمام شعبۂ جات پر حاوی ہونے کی طاقت کے طور پر دیکھ رہے ہیں، اس لیے بہت مشکل ہے کہ کوئی بھی شخص اس سے متاثر نہ ہونے کی کوئی سبیل یا ترکیب تلاش کر پائے۔
نوجوانوں خاص کر طلبا کے لیے اسکولوں اور کالجوں میں نصابوں سمیت حکومت کے ہم خیال و ہم نظریہ ٹیچروں کی بھرتی کے ذریعہ بھارت کے اس سیکولر کردار کی نفی کی کوشش تیز کر دی گئی جس کے سبب بھارت دنیا کی نظروں میں معتبر ہوا کرتا تھا۔ تعلیم کی سطح مستقبل کی سوچ کے بجائے ماضی کی توہم پرستی تک لے جانے کی کوشش کی گئی کہ جس میں تحقیق کا کوئی گزر نہیں۔ طلبا کو جو پروسا جائے گا وہ وہی پڑھیں گے اور اسی بنیاد پر آگے بڑھیں گے۔ اس لیے آج کی نسل کو تاریخ کی کیا علم سیاسیات کی اصل سے بھی واقفیت نہیں ہوپارہی ہے۔ ساتھ ہی ان کے لیے معلومات کے جو دو طاقتور ذرائع وہاٹس ایپ اور نیوز میڈیا ہیں، وہ خود ہی اپنے آپ میں جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ ان کی معلومات تحقیق سے خالی اور اصلیت سے مبرا ہیں۔ یہ صرف ایک پروپیگنڈہ بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں بہت مشکل ہے کہ نوجوانوں کو صحیح راستے پر لایا جاسکے۔
پانچ ریاستوں میں لیکشن کا اعلان ہوچکا ہے۔ اعلان ہوتے ہی مختلف طرح کے خدشات کا اظہار بھی ہونے لگا ہے۔ چونکہ پانچوں ریاستوں میں بی جے پی کی شکست کا سروے آچکا ہے اور ان میں سے بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں رہنمائوں کے اندرونی خلفشار کی خبروں کی تصدیق بھی ہوچکی ہے، اس لیے بی جے پی کو جیتنے کے لیے کچھ ایسا کرنا پڑے گا کہ بازی پلٹ جائے اور یہی کچھ کرنے کا تار ایسے خدشات کی نشاندہی کرتا ہے جس کا اظہار کچھ دنوں پہلے ستیہ پال ملک کر چکے ہیں۔ اگر ان کے خدشات پایۂ تکمیل تک پہنچے تو الیکشن سے قبل بھارت کے کئی حصوں میں افراتفری کا ماحول بن جائے گا۔ جس الیکشن کو عوامی تہوار کا روپ ہونا چاہیے، وہی ڈر کی شکل میں سامنے آنے کا سبب بن جاتا ہے۔ عوام اب تک یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت لیڈروں کو منتخب کرنے کا ذریعہ ہے۔ انہیں اب تک یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ الیکشن ان کی تقدیر بدلنے کا وسیلہ ہے۔ وہ جوش و خروش کے ساتھ نیتا چن لیتے ہیں اور اپنے لیے سڑکوں پر گڑھا۔ وہ اب تک یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ الیکشن کے دنوں میں وہ جس پر اعتبار کر رہے ہیں، وہ دراصل انہیں بے وقوف بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ بھولے بھالے عوام میڈیا کا ٹارگیٹ رہے ہیں اور اب تو وہ حکومت کی سب سے بڑی پروپیگنڈہ مشین ہیں۔ تمام چینلز کے اینکر ایک ہی سوالات لے کر بیٹھتے ہیں اور اپوزیشن کے کسی ترجمان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ایسے ایسے موضوعات پر اتنے گھٹیا عنوانات کے تحت مباحثہ کراتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ سمجھ سے پرے ہے کہ نفرت اور فساد پھیلانے کی ان کی اتنی شدید کوششوں کو عدالت اپنے نوٹس میں کیوں نہیں لیتی۔ ابھی ان تمام چینلوں کو فلسطین کو تہہ و بالا کرنے کی سپاری ملی ہے۔ یوکرین اور روس میں انہیں صرف مودی جی کی وہ ادا بھا گئی تھی جس میں دونوں ممالک نے مودی جی کے احکام کا اعتراف کرتے ہوئے جنگ کو کچھ دنوں کے لیے مؤخر کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ انہیں اس جنگ میں مسلمانوں کا اینگل بہت ڈھونڈنے سے نہیں مل سکا تھا۔اس لیے میڈیا نے اپنا منہ موڑ لیا۔ لیکن اب اسرائیل اور فلسطین کی لڑائی میں منہ مانگی مراد پوری ہوئی۔اس لڑائی میں وہ بھارت کے موقف کا انتظار کرنے کا صبر بھی نہیں دکھا پائے صرف حماس پر مودی کے خیال کو سنتے ہی ہڑبڑا گئے اور اب تو یہ حال ہے کہ تمام گودی اینکر یہودیوں کی گود میں بیٹھ کر مزہ لے رہے ہیں۔ انہیں یہودی پوچھے گا بھی نہیں مگر ان کا مقصد بھارت میں رہ رہے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے ناسمجھ نوجوانوں کو تیار کرنا ہے جو کامیاب بھی ہو رہا ہے۔ انڈیا اور پاکستان میچ میں جے شری رام کا نعرہ بین ثبوت ہے کہ نوجوان بھٹک چکا ہے۔
الیکشن کمیشن ضابطۂ اخلاق نافذ کر کے اپوزیشن کی گلیوں میں سی سی ٹی وی کیمرہ بن کر بیٹھ جاتا ہے۔ اسے میڈیا پر نظر رکھنے سے پتہ نہیں کس نے منع کر دیا ہے۔ کیا اسے پتہ نہیں ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کی جنگ کو جس طرح پیش کیا جارہا ہے، اس سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت نہیں پھیل رہی ہے اور اس کااثر الیکشن پر نہیں پڑے گا تو کیا یہ ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
الیکشن ہو یا تہوار دونوں کو جشن کی شکل میں منایا جانا چاہیے مگر اب یہ دونوں خوف و دہشت کے سائے میں منائے جاتے ہیں۔ بھارت بدل چکا ہے اور اس کا اعتراف جلد ہی کر لیا جائے تو بہتر ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS