نفسانی خواہشوںکے بوجھ سے لدا آج کا انسان فطرت کے طے کردہ اصول ماننے سے انکاری ہوگیاہے۔ اب وہ چاہتا ہے کہ اس پرنہ تو کوئی اخلاقی پابندی رہے، نہ ضمیر کا بوجھ ہواور نہ معاشرتی دبائو۔ نفس کے ہر اکساوے کو ’آزادی‘ اوراس کا بنیادی حق سمجھائے۔اس کیلئے اسے قانونی تحفظ کی بھی ضرورت ہے تاکہ اس کے غیر فطری، غیرانسانی اور غیر اخلاقی کام کا محاسبہ ہواور نہ داروگیر کاکوئی عمل ہی حرکت میںآئے اورنہ کار بد پر کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے کی ہمت ہی جٹاسکے۔اپنی ایسی ہی ایک نفسانی خواہش کی تکمیل کیلئے قانونی تحفظ حاصل کرنے ایسے ہی انسانوں کا ایک گروہ ملک کی عدالت عظمیٰ پہنچا تھا۔ عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ جنس کے کسی امتیاز کے بغیر شادی کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا جائے۔یعنی ’مردکی شادی مردوں سے اور عورتوں کی شادی عورتوں سے ‘ کیے جانے کی نہ صر ف اجازت ملے بلکہ ایسا کرنے والوں کوقانونی تحفظ دیاجائے۔
مگر عدالت نے ایسے کسی غیر فطری عمل کو تحفظ دینے سے انکار کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ موجودہ قانون کے مطابق شادی کوئی بنیادی حق نہیں ہے، اس لیے ہم جنس پسندوں کو آپس میں شادی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے دس دن کی طویل سماعت کے بعد 11 مئی کو ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی تسلیم کرنے کی درخواستوں پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے علاوہ اس بنچ میں جسٹس سنجے کشن کول،جسٹس رویندر بھٹ، جسٹس ہیما کوہلی اورجسٹس پی ایس نرسمہا شامل تھے۔ عدالت نے شادی کی مساوات کو بھی قانونی قرار دینے سے انکار کر دیا۔ لیکن اس نے اس بات پر زور دیا کہ کسی شخص کے رشتے میں رہنے کے حق کو جنسی رجحان کی بنیاد پر محدود نہیں کیا جاسکتا۔عدالت نے کہا کہ رشتہ رکھنے کے حق میں اپنے ساتھی کو منتخب کرنے کا حق اور اس رشتے کو تسلیم کرنے کا حق بھی شامل ہے۔تمام افراد کو اپنی زندگی کے اخلاقی معیار کا فیصلہ کرنے کا حق ہے۔ آزادی کا مطلب ہے وہ بننے کی صلاحیت جو انسان بننا چاہتا ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ قانون سازی اس کے دائرۂ کار سے باہر ہے، قانون کی تشریحات و توضیحات کے اس کے نفاذکے عمل سے آگے بڑھنا اس کیلئے ممکن نہیں ہے۔تاہم عدالت نے مقننہ سے یہ ضرور کہا کہ اگر پارلیمنٹ چاہے تو معاملے کی سنگینی کو مدنظررکھتے ہوئے اس پر قانون بناسکتی ہے۔چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے حکومت سے کہا ہے کہ ہم جنس پسندوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو ختم کرنا چاہیے۔ نیز انہوں نے مرکزی حکومت، ریاستی حکومتوںاور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی حکومتوں کو اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت دی کہ ہم جنس پسندوںکے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے اور سامان اور خدمات تک رسائی میں کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔ ہم جنس پسند جوڑوں کو مادی فوائد اور خدمات سے محروم رکھنا ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ حکومتیں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں، ہم جنس پسندوں کیلئے ہاٹ لائن اورمحفوظ گھر بنائیں۔
ملک کے موجودہ قانون کی تشریحات کے مطابق عدالت کا یہ فیصلہ ممکن ہے درست ہو، عدالت نے انسان کے بنیادی حق کے سلسلے میں جو نکات اٹھائے ہیں ان سے انکار نہیں کیاجاسکتا اور نہ کسی انسان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمہ کی کوشش کو غلط سمجھاجاناچاہیے لیکن جہاں تک سوال ہم جنس پسندوں کی ’شادی ‘کوقانونی تحفظ دینے کیلئے قانون سازی یا قانون میں ترمیم کا ہے، اس سے پہلے ’ شادی ‘ یا ’بیاہ‘ کے وسیع تر مفہوم اور اس کی ضرورت کوسمجھنا ہوگا۔ شادی، بیاہ کے ذریعہ مردو زن کے عمومی تعلقات کا مقصد فقط تکمیل شہوت یا وقتی تلذذ نہیں بلکہ یہ فطری اور پاکیزہ رشتہ کاآغازہوتا ہے اورخاندان جیسے ادارہ کی بنااس پر ہوتی ہے، جس سے نسل انسانی آگے بڑھتی ہے۔ زن و شو کا فطری رشتہ ہی انسان اور ا نسانیت کی بقا کا ضامن ہوتا ہے، اسی لیے فطرت نے دونوں صنفوں میں ایک دوسرے کیلئے کشش بھی رکھی ہے۔ اس کے برخلاف ہم جنس پسندی ایک ایساغیر فطری جذبہ ہے جسے دنیا کے کسی مذہب میں تحسین کی نظر سے نہیںدیکھا جاتا۔یہ غیرفطری جذبہ انسان کی بڑھتی ہوئی نفسانی خواہش، ذہنی بیماری اوربعض اوقات جسمانی نقائص کا نتیجہ ہوتاہے جو محبت و اپنائیت سے محرومی، خاندان سے دوری، اکیلاپن، جدید طرززندگی، دولت کمانے کی ہوس اور خود کو منفرد کہلوانے کے شوق میں انسانوں کا ایک گروہ خود اپنے اوپر طاری کرتا ہے۔
اس طرح کے کسی غیرفطری عمل کو قانونی تحفظ دینے کی بجائے ایسی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو علاج فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے غیر پیداواری بیمار ذہن افراد اپنے غیر فطری رجحان پر قابو پاتے ہوئے قدرت کی اسکیم میں شامل ہوں اور نسل انسانی کی افزائش کا سبب بن سکیں۔
[email protected]
بیماری کا علاج کیاجاناچاہیے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS